جناب یہ ہے میری جماعت!

جب کسی سازش یا آسمانی طاقتوں نے پچیس سال پہلے جنرل ضیا کو منظر سے ہٹایا تو یہ سوال تواتر سے ذہنوں میں پیداہوتا تھا کہ اس طیارے کے حادثے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔ ایک شک پی پی پی پر تھا۔ جب دوستوںسے ملاقات ہوتی تو یہ بات زیر ِ بحث آتی۔ ایک مرتبہ میرے پرانے دوست انیس حیدر شاہ نے بڑے استہزائیہ لہجے میں کہا۔۔۔’’پی پی پی؟ تم پاگل تو نہیںہوگئے!ان لوگوںسے پان چباتے ہوئے سڑک بھی عبور نہیںہوتی ہے(گویا وہ دومعمولی کام بھی بیک وقت نہیں کر سکتے ہیں؟)وہ جہاز کیسے۔۔۔۔۔ افسوس،اس وقت سے لے کر آج تک پیپلز پارٹی کی کارکردگی میں بہتری دیکھنے میں نہیںآئی‘ میں ایک روایتی ’’پپلیا ‘‘ رہا ہوں ، میںنے اکثر بادل نخواستہ عقل وفہم کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، اچھے برے حالات میں اس کی حمایت کی ہے۔ بہت سے دوسرے افراد کے برعکس میں سیاسی وفاداری تبدیل نہ کر سکا۔ اس کی ایک بڑی وجہ سامنے موجود امکانات کی کمی تھی۔ میں ظاہر ہے کسی مذہبی سیاسی جماعت کی حمایت نہیںکرسکتا تھا، دفاعی اداروں کی حمایت یافتہ پارٹیاں بھی مجھے ناپسند تھیں۔ ایم کیوایم ، اپنے سیکولر نظریات کے باوجود، بہت سے تاریک گوشے رکھتی ہے۔ نواز شریف سے مجھے بنیاد پرست ہونے کا تاثر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ پی پی پی وہ واحد جماعت تھی جو خواتین، اقلیتوں اور معاشرے کے پسے ہوئے مظلوم طبقوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی تھی۔ اگرچہ اپنے گزشتہ دور میں پی پی پی کی کارکردگی نہایت ناقص رہی لیکن اس نے خواتین کے لیے اہم قانون سازی کی او ر اس کے۔۔۔’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ‘‘۔۔۔ نے ملک بھر میں لاکھوں غریب افراد کی زندگی میں بہتری لانے کی کوشش کی۔ چند ہفتے پہلے انجم الطاف نے ایک انگریزی اخبار میں لکھا ۔۔۔’’ پاکستان کو بائیں بازو کی ایک جماعت کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے بائیں بازو کی زیادہ ترجماعتیں یا تو اپنا وجود کھو بیٹھی ہیں یا پھر وہ محض چند افراد تک محدود ہو چکی ہیں۔ وہ اپنے داخلی انتشار اور نظریاتی کشمکش کا شکار ہو کر معاشرے میں اپنی فعالیت کا جواز کھوبیٹھی ہیں۔ اس کے علاوہ ستر کی دھائی سے ان جماعتوں کو پی پی پی کی نظریاتی جہت نے بھی کمزور کردیا ہے کیونکہ پی پی پی بذات ِ خود بائیں بازوکے نظریات کی حامل سوشلسٹ جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی۔ چنانچہ اس وقت ایک بائیں بازو کی جماعت بنانے کی بجائے بہتر ہے کہ پی پی پی کے بچائو کا سامان کیا جائے۔‘‘اگرچہ اسے گزشتہ عام انتخابات میں عبرت ناک شکست سے دوچار ہونا پڑا لیکن اس شکست کی وجوہ جاننے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیںکی گئی۔ دراصل پارٹی میں اپنا محاسبہ کرنے کی روایت موجود ہی نہیںہے۔ اگرچہ عمران خان اورنواز شریف لاکھوں نوجوانوںکو اپنی اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب رہے، لیکن پی پی پی گزشتہ کئی برسوںسے نوجوانوںکے لیے کوئی کشش نہیں رکھتی ہے۔ وہ نوجوان لوگ ، جنھوںنے اس سال مئی میںہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈالا ، پی پی پی کو عمررسیدہ افراد کی ایک متروک جماعت سمجھتے تھے۔ اُنھوںنے دیکھا کہ اس جماعت کی اعلیٰ قیادت کے پاس نہ تو کوئی نظریہ ہے اور نہ ہی تصورات۔ جب کسی جماعت کی انتخابی مہم رحمن ملک چلارہے ہوںتو اس کے بارے میں کچھ کہنے سننے کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے، اس کی حالت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں بھی پی پی پی 6.5 ملین ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اگرچہ نشستوںکے اعتبار سے اسے شدید صدمے سے دوچار ہونا پڑا لیکن تمام مذکورہ پس ِ منظر کو دیکھتے ہوئے ووٹروںکی اتنی بڑی تعداد ظاہر کرتی ہے کہ اس کی بحالی کا امکان ہے۔ تاہم اگر پی پی پی ایک مرتبہ پھر قومی سطح (اس وقت اسے اندرونی سندھ کی جماعت ہونے کا طعنہ سننا پڑ رہا ہے)کی جماعت بننا چاہتی ہے تو پھر اسے سنجیدہ سوچ اور سخت محنت کی ضرورت ہے۔ اس کی موجودہ قیادت اس کام کے لیے موزوںنہیںہے۔ اس کے سندھی رہنما یہ سمجھتے ہیںکہ ان کی جاگیردارانہ حیثیت ان کو اپنے حلقوں میں ناقابل ِ شکست رکھتی ہے، چنانچہ وہ قومی اسمبلی کی نشستیں جیت سکتے ہیں۔ تاہم سوال پیداہوتا ہے کہ ایسا کب تک ہوگا اور کہاں تک ہوگا۔۔۔ سارے ملک میں تو ان کی جاگیرداری نہیںچلتی ہے۔ اگر اُنھوںنے اگلے پانچ سال بھی سندھ میں ویسی ہی بدانتظامی دکھائی جیسی کہ گزشتہ دور میںتھی تو سندھ میں بھی پارٹی کے بقا کے امکانات روشن نہیں ہیں۔ قائم علی شاہ کو دوبارہ وزیر ِ اعلیٰ نامزد کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی تک اس جماعت میں صلاحیتوں کی بجائے پارٹی کے ساتھ وفاداری کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ا ب جبکہ صدر زرداری کی مدت ِ صدارت ختم ہوا چاہتی ہے، قوی امکان ہے کہ وہ پاکستان سے باہر چلے جائیںگے۔ چنانچہ پی پی پی کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ تازہ گارڈ (کرکٹ کی اصطلاح میں) لے۔ نوجوان بھٹو پاکستانی سیاست میں پھیلے انتشار کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں؛ تاہم اُنہیں الزام نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے یہ بھی اس جماعت کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ خاندانی سیاست سے بلند ہوکر پورے ملک کی طرف دیکھے۔ بدقسمتی سے بہت کم نوجوان سیاست دان، جب تک کہ وہ اسی جماعت کے رہنمائوں کی اولاد نہ ہوں، اس جماعت کی طرف رغبت محسوس کرتے ہیں۔ اس جماعت میں ایسے افراد ، جن کے نہ کوئی نظریات ہوں اور نہ ہی کوئی اخلاقی بنیاد، بھی رہنما کے طور پر سامنے آئے۔۔۔ گزشتہ دور میں اس سے تعلق رکھنے والے ایک رکنِ اسمبلی نے کئی ایک عورتوںکو زندہ دفن کردینے کے اندوہناک واقعہ میںملوث افراد کا دفاع کیا، جبکہ ایک اور جیالے نے ٹی وی پر کہا کہ اب ، انتخابات جیتنے کے بعد، پیسہ کمانے کی پی پی پی کی باری ہے۔ 2007ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل تک، بھٹو کا نام باعث ِ کشش تھا۔ کون نہیں جانتا کہ یہ محترمہ کی شہادت تھی کہ پی پی پی 2008ء میں حکومت بنانے کے قابل ہوگئی۔ اب جبکہ اس خاندان کا کوئی بھی نام سامنے موجودنہیںہے، اس جماعت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنا دشوار عمل ہوگا۔ افسوس، اس وقت مجھے ایسا کوئی شخص ، کوئی سینئر سیاسی رہنما، نظر نہیںآتا جو راکھ سے آشیانہ تعمیر کرنے کا ہنر جانتا ہو۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ اس جماعت کے ساتھ آج بھی مخلص لوگ، جیسا کہ رضاربانی، شیری رحمان، قمرزمان کائرہ موجود ہیں۔ ہو سکتا کہ یہ لوگ اس جہاز کے تیرنے کا سامان کر لیں، لیکن اگر زرداری صاحب نے دوبئی بیٹھ کر پارٹی کی قیادت کرنا چاہی تو پھر سمجھ لیںکہ اس جہاز کو غرقاب ہونے سے کوئی نہیںروک سکتا۔ پارٹی کے کارکنوںکو اس بات کی سختی سے مزاحمت کرنی ہوگی کیونکہ اسے فاصلاتی قیادت کی ضرورت نہیںہے۔ اس وقت پی پی پی کے سامنے سب سے مشکل سوال پنجاب میں قدم رکھنے کی جگہ تلاش کرنا ہے جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا بھی ان کے ہاتھوںسے نکل چکے ہیں۔ یقینا اب ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا منتر کام نہیںدے گا، اب پاکستان آگے بڑھ چکا ہے اور اس کے مسائل بھی اور ہیں۔ باقی جماعتیں پاکستان کی تعمیر کرنے کے دعوے کررہی ہیں، پی پی پی نے خود کوتعمیرکرنا ہے۔ اس نے ایک ایسی جماعت کے طور پر سامنے آنا ہے جو غریب اور مظلوم طبقوں کی آواز بن جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے جاگیردارانہ ذہنیت سے بلند ہوتے ہوئے عصرِ حاضر کے تقاضوں کا بھی ادراک کرنا ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے، تاہم امید کی جانی چاہیے کہ پی پی پی اپنی خامیوں پر قابو پالے گی اورقومی سیاست میں فعال کردار ادا کرے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں