زندگی کی سب سے بڑی لاٹری

اگر آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیںتو خود کو خوش قسمت سمجھ سکتے ہیں کیونکہ آپ زندگی کی سب سے بڑی لاٹری جیت چکے ہیں۔ جلدی سے ایک بات آ پ کو بتا دوں کہ آپ کی خوش قسمتی یہ نہیںہے کہ آپ میرا یہ مخصوص کالم پڑھ رہے ہیں بلکہ یہ کہ آپ نے یہ اخبار خریدا ہے اور آپ اسے پڑھ رہے ہیں۔ اس کامطلب ہے کہ آپ کوئی عام شخص نہیں ہیں۔ پاکستان کی 200ملین کی آباد ی میں سے صرف 6ملین افراد روزانہ اخبار خریدتے ہیں۔ کالم پڑھنے والے یقینا سنجیدہ قارئین ہوتے ہیں۔ اس کامطلب ہے کہ آپ کا تعلق پاکستان کی مڈل کلاس سے ہے اور آپ نے اچھے، زیادہ امکان ہے کہ پرائیویٹ، تعلیمی ادارے میں تعلیم پائی ہے۔ میں یہ توقع کرنے میں حق بجانب ہوںکہ آپ کے پاس اپنا گھر اور نجی سواری (کار یاموٹر سائیکل )بھی ہوگی۔ اب یقینا آپ کے بچے بھی پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں جاتے ہوںگے۔ اگروہ فارغ التحصیل ہیں تو ممکن ہے کہ اچھی ملازمت کر رہے ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کے اچھے حالات کا آپ کے بچوں پر ضرور اثر ہوتا ہے۔ اگر آپ کوئی انگریزی اخبار بھی پڑھتے ہیں تو آپ یقینا پاکستان کے 6فیصد افراد میں سے ایک ہیں۔ انگریزی اخبارات کے قارئین کی تعداد اتنی ہی ہے۔ اس صلاحیت کو آپ اپنے لیے اعزاز سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں انگریزی جاننے والوںکی تعداد بہت کم ہے۔ ہم میں سے اکثر کہیں گے کہ اخبار پڑھنا تو لاٹری جیتنے کے مترادف نہیںہے، انعام یہ ہے کہ آپ کے پاس گرین کارڈ ہو، نیویارک میں گھر ہو اورسیروسیاحت کے لیے ذاتی کشتی ہو۔ دامن ِ امید کو اتنا وسیع نہ کریں، ایک اخبار خرید کر پڑھنا بھی آپ کو عام انسانوں کی صف سے بلند کرتے ہوئے خواص میں شامل کر دیتا ہے۔ آپ کا شمار پاکستان کے گنے چنے افراد میں ہوتا ہے۔ کیا یہ بات لائق ِ شکر نہیں؟ایک اور بات، مت بھولیںکہ آپ کے موجودہ حالات اس لیے ہیں کہ آپ ایک مخصوص خاندان میں پیدا ہوئے اور آپ کے والدین آپ کو اچھے سکول میں تعلیم دلانے کی استطاعت رکھتے تھے۔ ذرا ایک لمحے کے لیے تصور کریںکہ اگر آپ کسی دیہی علاقے، فرض کریں اندرون ِ سندھ ، میں غریب ماں باپ کے ہاں پیدا ہوتے تو ممکن ہے کہ آپ کے والدین مزارع ہوتے ۔ اگر آپ لڑکے ہوتے اور آپ کو ابتدائی تعلیم کے لیے کسی قریبی سرکاری سکول میں بھیج دیاجاتا تو آپ دیکھتے کہ اندرون ِسندھ کے 55فیصد سے زائد سکولوں میں پانی اور ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیںہے حالانکہ یہ صوبہ کافی تیل اور گیس پیدا کرتا ہے۔ آئل کمپنیوںسے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا ایک فیصد مقامی علاقوں میں عوامی سہولیات اور انفراسٹرکچر کی تعمیر پر خرچ کریںگی، لیکن ہمارے ہاں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اندرون ِسندھ میں زیادہ تر افراد کو ایک دن کی خوراک میں 1,700کیلوریز حاصل ہوتی ہیں اور یہ جسم کی ضروریات سے بہت کم ہیں۔ صوبے کی کل آبادی کا پچاس فیصد اندرونِ سندھ میں مقیم ہے اور یہاںسے جی ڈی پی کا 30 فیصد حاصل ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر خاندان کی ماہانہ آمدنی اوسطاً 15ہزار روپے ہے(150 ڈالر سے بھی کم)۔ اس آمدنی پر ایک خاندان کی کفالت کرنے کا تصور کریں۔ ایک وقت تھا جب سرکاری سکولوں کا تعلیمی معیار، اگرچہ ہر جگہ ایک جیسا نہ تھا، اتنا خراب نہیںہوتا تھا جتنا آج ہے۔ ہمارے دور کے بہت سے کامیاب افراد انہی سرکاری سکولوں کے فارغ التحصیل ہیں۔ میری تعلیم کا آغاز بھی ایک ایسے سکول سے ہوا تھا جہاں ہم اردو کے حروفِ تہجی سیکھتے تھے اور ’’کانے‘‘ (سرکنڈے) کے قلم سے لکڑی کی تختیوں پر لکھتے تھے؛ تاہم ، جیسا کہ دیگر ریاستی اداروںکے ساتھ ہوا، سرکاری سکولوں کا معیار بھی گرتا گیا۔ اب حال یہ ہے کہ اگر بدقسمتی سے کسی بچے کو سرکاری سکول میں ہی تعلیم حاصل کرنا ہے تو بہت کم امکان ہے کہ وہ اپنی فکری اور مادی حالت بدل پائے گا۔ کچھ این جی اوز بہت سے عمدہ سکول چلارہی ہیںجہاں ضرورت مند بچوں کے لیے تعلیمی سہولیات مفت ہیں، لیکن یہ کاوش صحرا میں پانی کے ایک قطرے کے مترادف ہے۔ جب تک ریاست اپنا کردار ادا نہیںکرتی، نسل در نسل پاکستانی بچے غربت کے شکنجے سے نہیں نکل پائیںگے۔ جب پاکستان میںپانچ سال سے کم عمر کے ایک تہائی بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہو تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں‘ اگر ان میں سے نصف کی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی نشوونما ادھوری رہتی ہے۔ دیگر ممالک میں بھی حالات اچھے نہیں ہیں لیکن وہ صورتِ حال کا نوٹس تو لیتے ہیں۔ برطانیہ کے غربت زدہ علاقوںسے تعلق رکھنے والے ہزاروں بچے ناشتہ کیے بغیر سکول جاتے ہیں تو ان کے ٹیچرز رپورٹ کرتے ہیں کہ یہ بچے سبق پر توجہ نہیں دے پارہے یا ان سے سبق یاد نہیںہوتا۔ جب ایک دو وقت کی فاقہ کشی ذہن کو متاثر کردیتی ہے تو اندازہ کریں کہ پاکستانی سکولوں میں غریب بچے، جو مستقل غذائی قلت کا شکار رہتے ہیں، کس طرح تعلیم حاصل کرتے ہوںگے۔ کچھ اور ترقی پذیر ممالک میں ان مسائل سے نمٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سری لنکا اور بھارت کی بہت سی ریاستوں کے سکولوںمیں بچوںکو روزانہ مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی حکومتوں کے دعووںکے علاوہ کوئی عملی اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ غریب والدین اپنے بچوںکو مدرسوں میں بھیجتے ہیں کیونکہ وہاں کم از کم کھانا تو مل جاتا ہے۔ان مدرسوں میں اکثر کا نصاب مذہبی انتہاپسندی اور تنگ نظری سکھاتا ہے۔ وہاںسے فارغ التحصیل طلبہ ملازمت حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں؛ چنانچہ اگر وہ کسی جہادی گروپ میںشمولیت اختیار کرلیں تو اُنہیں مورد ِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اگر لڑکوں کی تعلیم کی صورت ِ حال اتنی خراب ہے تو تصور کریں کہ لڑکیوں کے لیے تعلیمی سہولیات کا کیا حال ہوگا؟بہت سے والدین اپنی بچیوںکو صرف اس لیے بھی مقامی سکولوںمیں نہیں بھیجتے کہ وہاں ٹوائلٹس نہیں ہوتے۔ پاکستان کے بہت سے حصوںمیں لڑکیوںکو گھروںسے باہر جانے کی اجازت نہیںہوتی۔ اگر کوئی سکول جانے کی جرأت کرے بھی تو انتہا پسند سکول کو بموں سے اُڑا دیتے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز اور اخبارات کے اداریوںمیں قومی عزت و وقار پر کی جانے والی دھواں دھار باتوںکے برعکس ہم اپنی بے حسی کی وجہ سے اپنے ہم وطنوں کے لیے کوئی درد محسوس نہیںکرتے ہیں۔ ہم میںسے اکثر اسی بات پر خوش ہیں کہ وہ ایک اچھا گھر رکھتے ہیں، ان کے پاس کار ہے اور معقول آمدنی ہے۔ ان کے لیے بس یہی زندگی ہے اور یہی اُن کا پاکستان ہے۔ اُنہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ لاکھوں پاکستانی بچے غربت کی چکی میں پس رہے ہیںاور ان کی بھوک ، بیماری اور جہالت کے خاتمے کے لیے کوئی ’’ایٹم بم ‘‘ نہیں بنا۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی اگلی نسل جسمانی ، ذہنی اور فکری پسماندگی کے تنگ دریچوںمیں پرورش پارہی ہے۔ اگر اگلے بیس سال بعد ان کے خلاف بندوق سے ایکشن لینا ہے، تو ان کے لیے آج تعلیم سے ایکشن کیوں نہیں لیا جاسکتا؟ آپ نے یہ کالم پڑھ لیا ہے، چنانچہ اب آپ اطمینان سے زندگی کے دیگر کاموںمیں مصروف ہوجائیںگے۔ ہم بہانہ یہ کرتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں، لیکن کیا ہم مل کر حکومت پر دبائو نہیں ڈال سکتے کہ وہ ان غریب بچوںکو ان کے حال پر نہ چھوڑے؟نہایت بے شرمی سے ہم ہاتھ میںکشکول پکڑ کر اربوں ڈالر قرضہ لے چکے ہیں لیکن اس رقم سے اپنے بچوںکے لیے ڈھنگ کے سکول نہیں بنا سکے۔ ہم اُس لاٹری کے ٹکٹ کو ضائع کررہے ہیں جس پر لازمی انعام ہے۔ ہے کوئی ہم سے زیادہ بدقسمت!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں