بشار الاسدکے خلاف اتحادی قوتیں

شام پر حملہ کرنے کی منظوری لینے کے لیے حکومت کی طرف سے پیش کی جانے والی قرار داد پرہائو س آف کامنز میںہونے والی بحث کی براہ ِ راست کوریج دیکھتے ہوئے مجھے عراق جنگ اور اس کی نامعلوم وجوہات یاد آئیں۔ تینوں بڑی جماعتوں نے ٹونی بلیئر کی ’’انٹیلی جنس رپورٹ ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اُنہیںمشرق ِ وسطیٰ میں ایک اور مہم جوئی کی حماقت سے باز رہنا چاہیے۔ جمعرات کی شام ڈیوڈ کیمرون کی مخالفت میں پڑنے والے زیادہ ووٹ اس حقیقت کی غمازی کررہے تھے کہ برطانیہ طاقت کے استعمال کے حوالے سے اہم سبق سیکھ چکا ہے۔امریکیوںکے لیے یہ بات یقینا صدمے سے کم نہیںہوگی کہ جب وہ شام پر کروز میزائل برسائیں گے تو برطانیہ ان کے ساتھ نہیں ہوگا۔ ایسا شاید کئی عشروں بعد ہونے جارہا ہے کہ برطانیہ اپنے سینئر حلیف کے ہم قدم دکھائی نہیں دے گا؛ چنانچہ یہ بات تعجب خیز نہیں ہے کہ جب ووٹوں کی گنتی ہورہی تھی تو ڈیوڈ کیمرون کا چہرہ معمول سے زیادہ سرخی مائل دکھائی دے رہا تھا۔ لیبر پارٹی کے رہنما ملی بینڈ عین وقت پر وزیر ِ اعظم کی حمایت سے منہ موڑ کر حکومتی حلقوں کے لیے ناپسندیدہ شخصیت بن چکے ہیں۔ اب جب کہ جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں، مجھے ٔٔٔٔ2011 میں نیویارک میں اپنی گفتگو یاد آرہی ہے جب میںاپنی کتاب کی تشہیر کے سلسلے میں وہاں گیا تھا۔ مجھے مین ہیٹن میں ایک دوست کے فلیٹ پر ایک نوجوان امریکی سفارت کار سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ مجھے اُس کی باتوں میں اس وقت بہت دلچسپی پیدا ہوئی جب اُس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک سال مشرق ِ وسطیٰ میں قیام کرکے واپس آیا ہے اور وہاں اُس نے عربی سیکھی ہے۔ ہم نے شام کی صورت ِ حال پر بھی بات کی ۔ اُس وقت دنیائے عرب میں پھوٹنے والی بیدار ی کی لہر شام کا رخ کر چکی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ سیکولر گروہوں کا اشتراک اسد کی خاندانی حکومت کا تختہ الٹ دے گا۔ سیاسی مبصرین کو یہ گوارا نہیںہوتا کہ ان کے تجزیے غلط ثابت ہوں، لیکن مجھے تسلیم ہے کہ میں نے امریکی سفارت کار کو بتایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ شام کے حکمران خاندان کے دن گنے جا چکے ہیں۔ میرے تجزیے کی وجہ کچھ حقائق تھے۔ میں سمجھتا تھا کہ شام کا سب سے بڑا حامی ملک ایران، سخت معاشی پابندیوں کی زد میں ہے اور اس کی تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کم ہو چکی ہے اس لیے وہ بشار الاسد کو مزید سہارا نہیں دے سکے گا۔ اس کے علاوہ میرا یہ بھی خیال تھا کہ شامی معیشت دیر تک خانہ جنگی کی تاب نہیںلا سکے گی۔ اُس وقت تک جہادی عناصر میدان میں موجود نہ تھے۔ لہٰذا میں شام میں ایک نئی صبح نمودارہوتے دیکھ رہا تھا، لیکن امریکی سفارت کار نے میری باتوں سے اتفاق نہ کیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ شامی کشمکش کئی برسوں تک چلے گی۔ آج مجھے احساس ہو رہا ہے کہ وہ درست کہتا تھا۔ آج صدر اوبامابشار الاسد کو دھمکیوں پر دھمکیاں دے رہے ہیں؛ تاہم شام کو دی جانے والی حالیہ وارننگز کا رخ شام سے زیادہ ایران کی طرف دکھائی دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسٹر اوباما ایران کی مذہبی قیادت کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ جس طرح شام نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے سرخ لکیر کو عبور کرلیا ہے، اسی طرح ایران کی طرف سے ایک خاص حد سے آگے یورینیم کی افزودگی کو بھی سرخ لکیر عبور کرنے کے مترادف سمجھا جائے گا۔ دوسری طرف برطانیہ میں یہ احساس جاگزیں ہے کہ شام میں کوئی فریق بھی ایسا نہیں ہے جس کی حمایت کی جا سکے۔ نیویارک ٹائمز میں اپنے ایک حالیہ مضمون میں ایڈورڈ لٹوارک(Edward Luttwark)لکھتے ہیںکہ امریکی اُس گروہ کا ساتھ دیں گے جو کمزور دکھائی دے رہاہوگا تاکہ شام میں خانہ جنگی دیر تک جاری رہ سکے۔ اس کی وجہ مسٹر ایڈورڈ یہ بیان کرتے ہیں کہ کسی بھی گروہ کی واضح جیت امریکی مفادمیں نہیںہوگی۔ اس صورت میں اسد جیت جائیںگے یا جہادی گروہ جبکہ امریکی مفاد یہ ہے کہ ان دونوںمیں سے کوئی بھی واضح طور پر فتح یاب نہ ہونے پائے۔ جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے‘ اس کی دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں متفقہ طور پر اس جنگ میں کود پڑنے کے خلاف ہیں، چاہے اس کا مطلب محدود فوجی مداخلت ہی کیوںنہ ہو۔ اس غیر معمولی اتفاق ِ رائے کا اظہار ہائوس آف کامنز میں ہونے والی بحث میں اُس وقت دیکھنے میں آیا جب ٹوری اور لبرل ڈیموکریٹ ممبران نے مل کر حکومت کی تجویز کو ناکامی سے ہمکنار کیا۔ اس سلسلے میں ہونے والی ووٹنگ مجموعی طور پر عوامی جذبات کا اظہار ہے کیونکہ سروے ظاہر کرتے ہیں کہ پچاس فیصد سے زائد برطانوی شہری اس جنگ میں شمولیت کے حق میں نہیں۔ اس کی حمایت کرنے والوںکی تعداد پچیس فیصد سے بھی کم ہے۔ اس مخالفت کی وجہ عراقی جنگ کا تلخ تجربہ بھی ہے ، مگر اس سے بڑھ کر یہ احساس جاگزیں ہورہا ہے کہ ان کا ملک ہر معاملے میں آنکھیں بند کرکے واشنگٹن کی پیروی کرتا ہے۔ اس بحث میں شریک کئی اراکینِ پارلیمنٹ نے حکومت سے پوچھا کہ اسے اس جنگ میں کودنے کی جلدی کیا ہے اور یہ کہ اُن کا ملک ہمیشہ ایسے ٹائم ٹیبل کی پابندی کیوں کرنے لگتا ہے جو کہیں اور(واشنگٹن میں ) بنتا ہے؟عراق جنگ کے جھوٹ فاش ہونے کے بعد ٹونی بلیئر کو ’’امریکی پٹھو‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ شام کی صورت ِ حال کے حوالے سے عراق کی جنگ کی یاد تازہ ہونے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اب برطانوی عوام امریکہ کی جنگوں میں اندھا دھند کود پڑنے کے حق میں نہیںہیں۔ آج شاید بہت کم افراد کو یاد ہے کہ اسّی کی دہائی میں صدام حسین نے زہریلی گیس سے ہزاروںکرد باشندوں اور ایرانی فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا لیکن دنیا نے اس پر کسی رد ِعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اُس وقت جب ایران نے اقوام متحدہ میں اس معاملے کو اٹھانے کا مطالبہ کیا تو امریکہ نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن دنوں صدام حسین مغرب کے دوست تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا کیمیائی ہتھیاروں کا پروگرام مغربی ٹیکنالوجی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ یقینا بشارالاسد ، جیسا کہ الزام ہے، کی فورسز کی طرف سے کیمیائی ہتھیاراستعمال کرکے ساڑھے تین سو شہریوں کو ہلاک کردینا قابلِ نفرین حرکت ہے لیکن مصری فوج کے ہاتھوں ہزاروں شہریوںکی ہلاکت کو آپ کس نظر سے دیکھیں گے؟ مصر میں ہونے والی کارروائی پر مغربی اور امریکی موقف یہ ہے کہ ’’یہ شبخون دراصل حقیقی جمہوریت کی طرف پہلا قدم ہے، موجودہ فوجی حکومت وقتی ہے اور یہ کہ قتل وغارت مصر کا اندرونی معاملہ ہے‘‘۔ یہ ہیں وہ دہرے رویے اور منافقت جس کی وجہ سے لوگ شام کے حوالے سے امریکی عزائم پر شک کرنے میں حق بجانب ہیں۔ حافظ الاسد اور اس کے بیٹے بشار الاسد کے بارے میںمیرے خیالات ہمیشہ سے یہی ہیں کہ یہ دونوں باپ بیٹا ظالم حکمران ہیں اوراُنھوںنے شامی عوام کو جابرانہ ہتھکنڈوںسے دبایا ہے اور جب عرب میں بیداری کی لہر پھوٹنا شروع ہوئی تو میری خواہش تھی کہ بشارالاسد کا تختہ الٹا جائے لیکن میںاُس وقت چونک گیا جب احساس ہوا کہ میدان القاعدہ کے ہاتھ آچکا ہے اور اگر مسٹر اسد کو ہٹایا جاتا ہے تو ان کی جگہ بنیاد پرست شام پر قبضہ کرلیںگے۔ ٹریک ریکارڈبتاتا ہے کہ جب ایک مرتبہ بھاری ہتھیاراور سخت گیر نظریات رکھنے والے جنگجو کسی حکومت پر قبضہ کرلیتے ہیں تو پھر ان کو اور ان کے نظریات کو جڑ سے اکھاڑنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس اعتبار سے شام میںدنیا کے پاس آپشنز بہت محدود ہیں۔ اگر بشار الاسد برا ہے تو اس کی جگہ لینے والے اس سے بڑی برائی ہیں۔ جب کوئی عرب ملک شام میں جہادی گروہوںکی مالی مدد کرے گا اور جب امریکہ دمشق پر میزائل برسائے گا تو ہم حیرت سے انگشت بدنداں ہوں گے کہ شام کے خلاف بننے والا اتحاد امریکہ، اسرائیل اور القاعدہ پرمشتمل ہے۔ یہ سب طاقتیں شانہ بشانہ اسدکے خلاف برسرپیکار ہوںگی۔ سچ کہتے ہیں لوگ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ’’اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں