جب بھی دل میں خیال آتا ہے کہ پاکستان کا عالمی امیج اب اتنا گر چکا ہے کہ مزید گراوٹ ممکن نہیں تو ہم اس ’’حد ‘‘ کو چیلنج سمجھتے ہوئے اور گہری کھائی میں جا گرتے ہیں۔ کئی برسوں سے پاکستان غیر ملکی مسافروں کے لیے نا پسندیدہ منزل کا افسوس ناک درجہ پا چکا ہے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ وہ ممالک بھی جنہیں ہم اپنا روایتی دوست اور قریبی اتحادی کہتے نہیں تھکتے‘ ہمیں نا پسندیدہ اور مشکوک نظروںسے دیکھتے ہیں۔ Pew Research Centre کے مطابق صرف 31 فیصد چینی باشندے پاکستان کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں۔ غیر وں کو چھوڑیں، اسلامی دنیا میں بھی ہمیں پسند کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ ترکی میں اکتالیس فیصد باشندے پاکستان کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں عالمی سطح پر اتنا ناپسند کیوں کیا جاتا ہے؟سازش کی تھیوری پر یقین رکھنے والے بہت سے گفتار کے غازیوں کو، جن کی تعداد میں نہایت سرعت سے اضافہ ہوتا جارہا ہے اور جن کے دم قدم سے ٹی وی ٹاک شوز کی رونقیں آباد ہیں، یقینِ واثق ہے کہ دنیا ہمیں اس لیے ناپسند کرتی ہے کہ ہم ایٹمی طاقت رکھنے والے طاقتور اسلامی ملک ہیں۔ چلیں مان لیا، لیکن پھر اسلامی دنیا ’’اسلام کے اس قلعے ‘‘ کو سر آنکھوں پر بٹھانے کی بجائے اس کے بارے میں منفی رائے کیوں رکھتی ہے؟ یقینا مغرب میں ہمارے عقائد کو مسائل کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق 75 فیصد امریکی اسلام کو سب سے زیادہ تشدد پسند مذہب سمجھتے ہیں۔ 2005ء میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 74 فیصد امریکیوں کا خیال تھا کہ پاکستان وہ ریاست ہے جو دنیا میں ایٹمی پھیلائو کا باعث بن سکتی ہے۔ برطانیہ میں گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان سے تعلق رکھنے والے بہت سے اُن مجرموں کو سزا سنائی گئی ہے جو ایک گینگ کی صورت میں کئی برسوں سے بے سہارا کمسن لڑکیوں کو درندگی نشانہ بنارہے تھے ۔ شادی شدہ افراد، جن کی عمر تیس اور چالیس سال کے قریب تھی، کی طرف سے ایسے گھنائونے جرائم کے ارتکاب نے ملک بھر میں پاکستان مخالف جذبات بھڑکا دیے۔ اس کے فوراً بعد پاکستانی نژاد برطانوی شہریت رکھنے والے نوجوان لڑکے دہشت گردی کے الزام میں پکڑے گئے ۔ اس کے علاوہ کسی مشکوک سے توہین کے واقعے کی صورت میں احتجاج کرتے، نعرے لگاتے، پتھر برساتے ، آگ لگاتے ہوئے باریش افراد اور برقعہ پوش خواتین بھی پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ جب اخبارات ان کی تصاویر شائع کرتے ہیں یا ٹی وی چینل ان کی ریکارڈنگ دکھاتے ہیں تو دنیا پاکستان کو مشتعل افراد کا ملک سمجھتی ہے۔ تشدد اور انتہا پسندی کے اس تاریک پس ِ منظر میں اگر پاکستان سے کوئی اچھی خبرآئے، جس کا امکان بہت کم ہوتا ہے، تو اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں ہونے والا پر امن انتقال ِ اقتدار اسلامی دنیا، خاص طور پر مشرق ِ وسطیٰ کے حالات کے مقابلے میں ایک بہت بڑا واقعہ تھا لیکن اسے اجاگر نہ کیا گیا۔تاہم لندن سکول فار اورینٹل اینڈ افریقین سٹڈیز کا آڈیٹوریم، جو سامعین سے بھراہوا تھا، سے خطاب کرتے ہوئے میرے دوست ڈیکلن والش نے اس واقعے کی اہمیت پر بھر پور روشنی ڈالی۔ قارئین کو ڈیکلن والش کا نام یاد ہوگا کہ وہ پاکستان میں نیویارک ٹائمز کے نمائندے تھے لیکن گزشتہ انتخابات کے موقع پر اچانک اُن کا ویزہ منسوخ کر کے انہیں فی الفور پاکستان چھوڑنے کا حکم دیاگیا۔ اگرچہ اپنے خطاب کے دوران اُنھوں نے اس بات کا ذکر کیا لیکن اُنھوںنے خود سے برتی گئی ناانصافی کی شکایت نہیںکی۔اس کی بجائے اُنھوںنے پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار بڑی گرمجوشی سے کیا۔ مسٹر ڈیکلن نے نو سال تک پاکستان میں رپورٹنگ کی۔۔۔ پہلے دی گارڈین اور پھر نیویارک ٹائمز کے لیے۔ اس طویل عرصے کے دوران وہ کسی بھی غیر ملکی نمائندے سے زیادہ اور بہتر انداز میں پاکستان اور اسکے معروضی حالات کو سمجھتے تھے اور ملک کے دوردراز حصوں میں بھی ان کے جاننے والے اور دوست موجود تھے۔ میں نے کسی غیر ملکی صحافی کو پاکستانیوںسے اتنے گہرے روابط قائم کرتے نہیں دیکھا۔ اس خطاب کے موقع پر وہ آسانی سے پاکستان کو ہدفِ تنقید بنا سکتے تھے مگر اُنھوں نے ایسا نہیں کیا، اس کے بجائے اُنھوںنے مغربی عوام کے اذہان سے پاکستان کے بارے میں شکوک رفع کرنے کی ایک کوشش کی۔ ان کا موضوع تھا‘ پاکستان میں صدر، چیف جسٹس اور آرمی چیف کے درمیان شراکت ِ اقتدار کے کیا پیمانے ہیں اور یہ کہ فوج، جو ریاست کا طاقتور ترین ادارہ ہے ، کس طرح سویلین اداروں کی اتھارٹی کو تسلیم کرتی ہے۔ مسٹر ڈیکلن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عدلیہ کی موثر فعالیت ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ انھوںنے پاکستان میں سیاسی اور جمہوری نظام کے توانا ہوتے ہوئے نظام کی تعریف کرتے ہوئے اپنی بات ختم کی۔ سوال و جواب کے سیشن کے دوران مسٹر ڈیکلن نے پاکستان میں ای میڈیاکی بڑھتی ہوئی طاقت کابھی ذکر کیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ پاکستان ابھی صحافیوںکے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے۔ اگرچہ ڈیکلن والش نے پاکستان کو درپیش بہت سے مسائل کا ذکر کیا لیکن اُنھوںنے اس بات سے اتفاق نہ کیا کہ پاکستا ن کوئی ناکام ہوتی ہوئی ریاست ہے۔ جب وہ یہاں رپورٹنگ کررہے تھے تو بھی ان کا موقف یہی رہا ۔افسوس، بہت سے پاکستانی صحافی بھی یہ موقف اپنانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ رخصت ہوتے ہوئے صدر آصف زرداری پر لگائے گئے بدعنوانی کے بہت سے الزامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُنھوںنے کہا کہ زرداری صاحب کے سیاسی مخالفین ان الزامات کا ٹھوس ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ میمو گیٹ کی بات کرتے ہوئے اُنھوںنے کہا کہ یہ چند ایک ہفتوںکا ڈرامہ تھا اوراب اس کی مرکزی ’’کاسٹ ‘‘ ہی غائب ہوچکی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر یہ معاملہ چند سال پہلے پیش آیا ہوتا تو اس کے نتیجے میں دفاعی ادارے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیتے لیکن اب یہ خوش آئند بات ہے کہ فوج سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکی ہے۔ مسٹر ڈیکلن کی پاکستان کے لیے اُنسیت اور ان کی غیر جانبدار رپورٹنگ کا معیار سامنے رکھتے ہوئے اگر میں نواز شریف ہوتا تو میں اُن کو پاکستان بلاتا اور اُنہیں کسی میڈل سے نوازتا۔