اگرکوئی اس حکومت کے انتظامی سٹائل کو اپنی پسند کا نام دینا چاہے توگلیشیر اور اس کے مشمولات ذہن میں آئیںگے۔ اگرچہ نواز شریف کے پاس مضبوط مینڈیٹ ہے لیکن وہ کچھوے کی چال سے چل رہے ہیں۔ وہ تیسری مرتبہ وزارت ِ اعظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں، چنانچہ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ ناتجربہ کاری آڑے آرہی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ٹیم کم و بیش انہی افراد پر مشتمل ہے جنھوںنے دوعشرے پہلے ان کے ساتھ حلف اٹھایا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ اور ان کی کابینہ ’’تھکے ہوئے‘‘ دکھائی دیتے ہیں۔ کئی سال پہلے، میںنے پبلک ایڈمنسٹریشن پر دیے گئے ایک لیکچر میں ’’بھونچال نما انتظامی فعالیت ‘‘ کی اصطلاح سنی تھی۔ مقرر یہ کہنا چاہتا تھا کہ سی ای اوخود نہایت مستعدی سے کام کرے اور پوری انتظامی مشینری کو سکون کا سانس تک نہ لینے دے اور اس میں پیہم تبدیلیاں کرتا رہے۔ مجھے بعد میں گوگل سرچ انجن پر تلاش کی باوجود اس اصطلاح کے بارے میں مزید معلومات حاصل نہ ہوئیں لیکن مقرر کا یہ خیال بہت اچھا ہے کیونکہ اگر آپ ضرورت کے مطابق ہنگامی بنیادوںپر تبدیلیاں نہیںلائیںگے تو تمام تنظیم جمود کا شکار ہوجائے گی۔ ملکی صورت ِ حال یہ ہے کہ وزیراعظم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ اُنھوںنے سابق پالیسیوں کے تسلسل میںہی عافیت گردانی ہے۔ نوے دن کے ہنی مون پیریڈ کے گزرجانے کے باوجود کچھ تبدیل نہیںہوا ہے۔ درحقیقت انہوں نے ان مواقع کو گنوا دیا ہے جو ان کو میسر آئے تھے۔ جب اُنھوںنے منصب سنبھالا تو بہتری لانے کے لیے سب کچھ ان کے پاس موجودتھا۔۔۔ اُنہیں اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل تھی۔ اُنہیں کسی حلیف جماعت کی ناز برداری کی ضرورت نہ تھی۔ اس کے علاوہ، گزشتہ حکومت کی نسبت ان کے میڈیا سے بھی اچھے تعلقات تھے اور اعلیٰ عدلیہ بھی انہیں سابق حکمرانوںکی نسبت اچھی نظروں سے دیکھتی تھی۔ وزیر ِ اعظم کا ایک بیان رپورٹ ہوا ہے جس کے مطابق اُنہیں علم ہی نہ تھا کہ ملکی مسائل کتنے گھمبیر ہیں۔۔۔ واقعی؟پاکستان کے دور دراز کے علاقوںمیں بسنے والے افرادکو بھی علم ہے کہ پاکستان کے دو بڑے مسائل ہیں۔۔۔ توانائی کی قلت اور دہشت گردی ۔ مسائل اور بھی ہوںگے ، لیکن یہ دو مسائل سب سے زیادہ سنگین ہیں‘ اس لیے گمان کیا جاتا تھا کہ وزیر ِ اعظم اور ان کے مشیران ان مسائل سے نمٹنے کے لیے پالیسی سازی کریںگے۔ اگرچہ حکومت نے بجلی کی دائمی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے فریم ورک دے دیا ہے لیکن اس نے سب سے اہم مسئلے‘ جو بجلی کی چوری اور طاقتور حلقوںکی طرف سے بلوں کی عدم ادائیگی ہے، سے آنکھیں چرانے میں ہی عافیت گردانی ہے۔ وزیر ِ بجلی خواجہ آصف نے حال ہی میں ٹی وی پر کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوںکے 90 فیصد صارفین بل ادا نہیںکرتے ہیں اور جب بجلی نہ ملے تو پرتشدد مظاہروں پر اتر آتے ہیں۔ اگرچہ ان کی حکومت نے آتے ہی زیر ِ گردش قرضہ جات کی ادائیگی کردی تھی لیکن یہ مسئلہ پھر سراٹھانے کے قریب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بہت سے کاروباری افراد، سرکاری ادارے اور کاروباری تنظیمیں بجلی کے بل ادا نہیں کرتی ہیں۔ وہ پاور کمپنیوں کے سٹاف کو رشوت دے کر یا ڈرا دھمکا کر کنکشن نہیں کاٹنے دیتے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ میں نے پڑھا تھا کہ بعض اہم ادارے بھی واپڈا کے نادہندہ ہیں۔ اب ان کے میٹر کاٹنے کی کس میںہمت ہے؟ بات یہ ہے کہ اگرچہ مالی بجٹ میں بجلی سمیت تمام اخراجات کے لیے رقم مختص کر لی جاتی ہے لیکن اگلے بارہ ماہ کے دوران اخراجات میںہونے والے اضافے کاحساب نہیںلگایا جاتا۔ اس لیے سرکاری ادارے اس سے زیادہ بجلی استعمال کرلیتے ہیں جتنی ان کے پاس اس کام کے لیے رقم ہوتی ہے۔ ملک بھر کے سرکاری اداروںکی طرف سے بل ادا نہ کرنے سے زیرِ گردشی قرضے بڑھتے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ بجلی پیداکرنے والی کمپنیوںکو مطلوبہ رقم نہیںملتی اور وہ بجلی پیدا کرنے کا عمل روک دیتی ہیں۔نجی شعبے میں بعض صنعت کار اور زمیندار لائن مینوںکے تعاون سے بجلی کے میٹر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح ان کا بل اس سے کہیںکم آتا ہے جتنی اُنھوںنے بجلی استعمال کی ہوتی ہے۔ میںبہت سے امیر کاروباری افراد کو جانتا ہوں جن کے ہاں دن رات اے سی چلتے ہیں لیکن وہ ایک روپیہ بھی بل ادا نہیںکرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے اکثر حصوںمیں بجلی کے تاروں پر ’’کنڈا‘‘ ڈالنے کی سہولت بھی میسر رہتی ہے۔ اگر آپ کسی بھی بڑے شہر کے مضافاتی علاقوں میں قائم آبادیوںمیں جائیں تو آپ کو بجلی کے تاروں کے ساتھ الجھی ہوئی تاروںکے پیچیدہ سلسلے دکانوں اور فلیٹوں میں جاتے دکھائی دیںگے۔ جب بھی کوئی چھاپہ مار ٹیم ان کو ہٹاکروہاںسے جاتی ہے، یہ دوبارہ لگا لیے جاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے گرڈ میں تیس فیصد زیاںہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی سسٹم اتنے بھاری نقصان کا متواتر متحمل نہیںہوسکتاہے۔۔۔ ذرا تصور کریں کہ کوئی ادارہ سو روپے کی لاگت سے ایک چیز تیار کرے اور اسے ستر روپے میں فروخت کردے اور اس میںسے بھی اسے پوری رقم واپس نہ ملے تو وہ کب تک چل سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا بجلی پیداکرنے کا نظام رقم کی کمی کا شکار رہتا ہے ۔ ان نقصانات کی وجہ سے اس میں توسیع کرنا یا اسے جدید خطوط پر استوار کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اگرچہ حکومت بجلی پیدا کرنے کے طویل المیعاد منصوبے بنارہی ہے لیکن یہ بات ابھی واضح نہیں کہ وہ لائن میںہونے والے نقصانات روکنے کے لیے کیا کرے گی۔ اگر حکومت بجلی چوروںکے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے تو وہ دہشت گردوں، جو کئی برسوں سے ملک میں آتش و آہن کا کھیل کھیل رہے ہیں، پر ہاتھ ڈالنے میں بھی تامل سے کام لے رہی ہے۔ جب تین ماہ میں دہشت گردی کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا تو اے پی سی بلالی گئی۔ تاہم اس کے نتیجے میں سامنے آنے والی قرار داد کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس سے شرکا گھر بیٹھ کر ملک کے حق میں دعا وغیرہ کر لیتے تو بہتر ہوتا۔مختلف حکومتوںکا ریکارڈ بتاتا ہے کہ جب بھی عمل سے پہلو تہی مقصود ہوتی ہے، یا کسی کام کو متواتر التوا میں ڈالنا ہوتا ہے تو اے پی سی بلالی جاتی ہے۔ ایک مشہور صحافی نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا کہ اے پی سی کی قرارداد میں جہادی عناصر، جنھوںنے ہزاروںافراد کو خون میںنہلایا، کو مورد ِ الزام ٹھہرانے کی بجائے نیٹو افواج کی طرف سے کیے جانے والے ڈرون حملوں کو اس کاذمہ دار قرار دیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہزارہ برادری کے افراد اس لیے ہلاک کیے جاتے ہیں کہ غیر ملکی افواج، جن پر پاکستان کاکوئی اختیار نہیں ہے، ڈرون حملے کرتی ہیں۔ کیا وہ لوگ ڈرون حملے کرتے ہیں؟ یاشہروں میں خودکش حملوںمیں ہلاک ہوجانے والے شہری نیٹو کو ڈرون حملوں پر اکساتے تھے ؟ان بے گناہ افراد کی ہلاکت کا ڈرون حملوں سے کیا تعلق ہے ؟اے پی سی کی قرارداد اس بات میں کوئی شک نہیں رہنے دیتی کہ حکومت نے اس کانفرنس کی آڑ میں دہشت گردوںکے سامنے ہتھیار ڈالنے کی تیاری کرلی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب دہشت گردی کی بات کی جاتی ہے تو حکمران کنفیوز ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران ان کی جماعت پنجابی طالبان کے خلاف شش و پنچ میں مبتلارہی ہے۔ حکمرانوں کو اس امر کا ادراک کرنا چاہیے کہ توانائی میں کمی کی طرح دہشت گردوں کے حملے بھی کاروباری اور صنعتی سرگرمیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔