جب میری والدہ مرحومہ کی ملازمہ صائمہ نے اپنی ملازمت کاآغاز کیا تو وہ پورا بُرقع پہنتی تھی، لیکن کچھ دیر بعد اُس نے دیکھا کہ نہ تو میری والدہ اور نہ ہی قریبی عزیز خواتین ایساکرتی ہیںتو اُس نے بھی اطمینان محسوس کرتے ہوئے گھر کے اندر خود کو برقعے سے آزاد کرالیا۔ جب مجھے اس کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوئیں تو میں از راہ ِ مذاق اس سے پوچھتا ۔۔۔’’صائمہ، اب تم اس گھر میں بُرقع کیوں نہیں پہنتیں ؟ جب تم باہر سے بُرقع پہن کر آتی ہو تو یہاں آکر کیوں اتار دیتی ہو جبکہ میرے سٹاف میں آدمی بھی ہیں؟‘‘اس کا جواب قابلِ فہم ہوتا۔۔۔’’ میں بُرقع کسی مذہبی تصور کے تحت نہیں پہنتی ، لیکن اگر میں گھر سے باہر نکلتے وقت نہ پہنوں تو مرد ہوسناک نظروںسے گھورتے ہیں۔‘‘ اس جواب سے بُرقع پہننے کے حوالے سے اس کے عقیدے سے زیادہ ہمارے معاشرے کی بدتہذیبی کی جھلک ملتی تھی اور پتہ چلتا تھا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کی زندگی کتنی دشوار ہے۔ اس کی ایک جھلک ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ سے بھی ملتی ہے کہ پاکستان میں عزت کے نام پر قتل اور آبروریزی کی وارداتیں عام ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوتے جارہے ہیں کیونکہ خواتین کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوںکو بمشکل ہی سزا ملتی ہے۔ برطانیہ میں پیش آنے والے دو واقعات کی وجہ سے مجھے صائمہ کی بات یاد آگئی۔۔۔ یہ واقعات حجاب سے متعلق ہیں۔ پہلا واقعہ برمنگھم کالج کی طرف سے حجاب پہننے پر پابندی اور اس کے رد ِعمل میں ہونے والے احتجاج سے متعلق ہے۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک جج صاحب نے عدالت میںایک عورت کو اپنا چہرہ چھپانے سے روک دیا؛ تاہم پھر نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کم از کم جیوری کواپنا چہرہ دیکھنے دے کیونکہ وہ گواہی دے رہی ہے۔ اگرچہ فرانس اور بیلجیم میں عوامی مقامات پر مکمل بُرقع پہننے پر پابندی ہے لیکن برطانیہ نے تاحال ایسے اقدامات نہیں کیے ہیں؛ حتیٰ کہ دائیں بازو کے گروہ بھی اس بات کی مخالفت کرتے ہیںکہ حکومت ایسے معاملات میں ملوث ہوجائے جن کا تعلق ذاتی زندگی سے ہو۔ ہوم سیکرٹری ٹیریسامے (Teresa May) کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں عورتیں اس بات کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں کہ وہ کون سالباس پہنیں۔ اس بیان کے بعد ان کے محکمے کے ایک وزیر کی طرف سے مطالبہ سامنے آیا کہ اس مسئلے پر قومی سطح پر بحث کرا لی جائے۔ اس بحث میں خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے والوں کی طرف سے اسی نقطے پر زور دیا گیا کہ خواتین اپنے لباس کے بارے میں فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی مسلمان لڑکیاں، جو برطانوی معاشرے میں پیدا ہوئیں اور یہیں پروان چڑھیں، بھی حجاب پہننے یا دوپٹہ اوڑھنے کو ترجیح دیتی ہیں، جبکہ ان میں سے کچھ بُرقع یا نقاب بھی پہنتی ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ لباس مذہبی پابندی سے زیادہ اپنی شناخت ظاہر کرنے کے لیے پہناجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں خواتین کو سادہ لباس پہننے کی تلقین کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام اسلامی دنیا میں بُرقع یا نقاب پہننے پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں اور اس کی پابندی بھی ہر جگہ ایک سی نہیںہوتی۔ یقینا کھیتوں میں کام کرنے والی محنت کش خواتین طویل بُرقع پہن کر کام نہیںکر سکتیں۔ جب فرانس میں اس موضوع پر زور شور سے بحث جاری تھی اور میں نے لکھنے کے لیے اس موضوع کا انتخاب کیا تو میں نے سوچا کہ میں بھی یہ لباس پہن کر دیکھوں؛ چنانچہ میں نے ایک سیاہ بُرقع، جو پورے جسم کو ڈھانپ سکتا تھا، پہن لیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میری تمام دنیا سمٹ گئی ہے اور جسمانی حرکات بھی بہت محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔ مجھے گرمی اور گھٹن بھی محسوس ہورہی تھی۔ اُس وقت میں نے لکھا کہ جو آدمی چاہتا ہے کہ اس کی بیوی، بیٹی یا بہن یہ لباس پہنے تو اُسے چاہیے کہ وہ ایک مرتبہ خود یہ پہن کر دیکھ لے۔ ایک اور بات، پاکستانی معاشرے میں خواتین کے حجاب پہننے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے لیکن برطانیہ کے لبرل اور انسانی حقوق کی پاسداری کرنے والے معاشرے میں اس لباس کی کیا اہمیت ہے؟ پاکستان میں مردوں کی پُرہوس نظروںسے بچنے کے لیے بُرقع پہنا جاتا ہے تو برطانیہ میں اپنی شناخت کے اظہار کے طور پر۔ بہرحال یہاں مکمل بُرقع پہننے والی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ ملیحہ ملک، جو قانون کی پروفیسر ہیں، نے گارڈین میں لکھا۔۔۔’’آج کی دنیا میں حجاب پہننے والی مسلمان خواتین کے ساتھ وہ سلوک کیا جارہا ہے جو قدیم یورپ میں غیر مذہبوں، یہودیوں اور جلدی امراض میں مبتلا افراد کے ساتھ برتا جاتا تھا۔ 9/11 کے بعد کی دنیا میں سیاسی تنائو میں اضافہ ہو چکا ہے۔ صورت ِ حال اس قدر خراب ہے کہ مذہبی اختلافات پر بات کرنا ناممکن ہو چکا ہے‘‘۔ میرے بہت سے انگریز دوست ہیں جو مجھ سے بے تکلفی کے باوجود کھلے عام ایسے حسا س موضوعات پر بحث کے دوران تنقیدی لہجہ اپنانے سے اجتناب کرتے ہیں لیکن وہ اپنی تشویش کا اظہار ضرور کردیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ بہت سی مسلمان لڑکیاں اپنے مخصوص لباس کی وجہ سے سکول لائف میں کھیل کود میں حصہ نہیں لے سکتیں۔ انہیںصحت مندسرگرمیوں سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے والدین اُنہیں غیر مسلم دوستوں کے ساتھ میل جول سے بھی روکتے ہیں؛ چنانچہ دیگر تارکین ِ وطن تو برطانوی زندگی، یہاں کے کھیل کود، موسیقی اور فن میں بھر پور شرکت کرتے ہیں لیکن مسلمان خود کو ان سرگرمیوںسے دور رکھتے ہیں۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کیا یہ ایک اہم بات ہے؟ یقینا ہے کیونکہ جب آپ ایک ملک میں پیداہوتے ہیں اور وہاں پروان چڑھتے ہیں، وہیں ملازمت حاصل کرتے ہیں تو پھر اس کے معاشرے سے کٹ کر کیوں کر رہ سکتے ہیں؟ ملیحہ ملک مسلم کمیونٹی کے اندر حجاب کے مسئلے کو اٹھاتی ہیں لیکن یہاں رہنے والے تین ملین مسلمانوں میں اس مسئلے پر اتفاقِ رائے پیداہونا دشوار دکھائی دیتا ہے۔ میں اکثر حیران ہوتا ہوںکہ امریکہ، جہاں مسلمان تارکینِ وطن بڑی تعداد میں آباد ہیں، میں یہ مسئلہ کیوں سر نہیں اٹھاتا؟ اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہاں بے روزگاروںکو وہ سہولیات نہیں ملتی ہیں جو یورپ میں حاصل ہیں؛ چنانچہ امریکہ میں آپ کو بُرقع یا نقاب پہننے یا طویل داڑھی رکھنے کی وجہ سے اگر ملازمت نہ ملے تو آپ کو فاقہ کشی اختیار کرنا پڑے گی۔ بہرحال مجھ جیسے لبرل نظریات رکھنے والے افراد کے لیے یہ ایک تشویش ناک مسئلہ ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ خواتین کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کا حق ہونا چاہیے ، اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ دیکھ کر بھی دکھ ہوتا ہے کہ مسلمان لڑکیوں کو صرف لباس کی وجہ سے تضحیک اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ جو بہرحال زیادتی ہے۔