پاکستانی معاشرے میں جانوروں پر ظلم

اس صبح ، جب کہ میں کالم لکھ رہاہوں،میری بیوی کا موڈ بہت برہم ہے۔ ناراضگی کی وجہ دریافت کی تو میرے سامنے ایک دن پرانے ’’گارڈین ‘‘ کی کاپی رکھ دی۔ اس میں ایک ریچھ کی تصویر تھی جس پر دو خونخوار کتے حملہ کر رہے تھے۔ تصویر کے نیچے بچائو کی اپیل درج تھی۔ اس کے ساتھ مندرجہ ذیل اقتباس تھا ’’یہ تصویر ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان میں ریچھوں کے ساتھ کتنا ظلم ہوتا ہے۔ یہ ایک ریچھنی ہے اور اس کانام ’’بونی‘‘ (Bonnie) ہے۔ اسے غالباً اس وقت پکڑا گیا تھا جب وہ کم عمر تھی۔ اس کے دانت اور پنجے نکال دے گئے ہیں۔ اسے کسی کھونٹے سے باندھ کر خونخوار کتے اس پر چھوڑے جاتے ہیں جو اسے بے رحمی سے کاٹتے رہتے ہیں۔ یہ اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیںہوتی۔ جب یہ لہولہان ہوکر ادھ موئی ہوجاتی ہے تو پھر اسے صرف اس لیے بچالیا جاتا ہے تاکہ دوبارہ اس کی ’’لڑائی ‘‘ دیکھی جا سکے‘‘۔ ’’ WSPA‘‘ ، جو کہ جانوروںکے تحفظ کی عالمی سوسائٹی ہے، کی طرف سے پیش کیے گئے اس اشتہار کے نیچے لکھا ہو ا تھا کہ بونی اور اس طرح کے دیگر جانوروں کو ظلم و ستم سے بچانے کے لیے عطیات کی ضرورت ہے۔ رابطے کے لیے ایک ای میل ایڈریس بھی درج تھا۔۔۔www.wspa.org.uk/bonnie۔ ریچھ کی لڑائی جیسے ظالمانہ کھیل پربرٹش انڈیا میں 1890ء میں قانونی طور پر پابندی لگا دی گئی تھی ، لیکن دیگر قوانین کی طرح اس کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر 2004ء سے پاکستان میں ریچھ کی لڑائی کا کھیل دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ بیشتر پاکستانی کتا دیکھتے ہی نیچے جھک کر پتھر اٹھانا اور اس پر پھینکنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہاں گھوڑے، گدھے اور اونٹ اپنے مالکوں کے ہاتھوں وحشیانہ مارپیٹ اور فاقہ کشی کا شکار ہوتے ہیں۔ جس بے رحمی سے چند ماہ پہلے آسٹریلیا سے درآمد کردہ بھیڑوں کو تلف کیا گیا، وہ ابھی بھی یادداشت کا حصہ ہے۔ برطانیہ میں قرون وسطیٰ میں ریچھ کی لڑائی مقبول کھیل تھا۔ ہنری ہشتم اور الزبتھ اول اس کھیل کے دلدادہ تھے ۔ ملکہ الزبتھ نے تو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس کھیل کو اتوار کو بھی جاری رکھنے کے ’’قانون سازی ‘‘ کی ۔ تاہم جب ریچھ کو پہنچنے والی اذیت کے بارے میں آگاہی پھیلی تو اس کے خلاف مزاحمت شروع ہوگئی ، یہاں تک کہ 1835ء میں اس پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔ پاکستان میں یہ کھیل پنجاب اور سندھ کے جاگیردارانہ علاقوں میں مقبول ہے۔ اس کھیل کی وحشیانہ تفصیل بہت دلخراش ہیں۔۔۔ ایک ریچھ کو، جس کے دانت اور پنجے نکال دیے جاتے ہیں، تین میٹر لمبی زنجیر سے کھونٹے کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ بھاگ نہ سکے۔ پھر اس پر دو یا تین خونخوار کتوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جب معصوم ریچھ بری طرح زخمی ہوجاتا ہے تو کتوں کو واپس کھنچ لیا جاتا ہے تا کہ وہ مرنے نہ پائے اور آئندہ بھی ’’کام ‘‘ آتا رہے۔ بعض اوقات شائقین کے رش کو دیکھتے ہوئے ایک ہی دن میں کئی مرتبہ ’’لڑائی ‘‘ ہوتی ہے۔ پاکستان میں ریچھوں کے تحفظ کے لیے BRC( بائیو ریسورس ریسرچ سنٹر ) کام کررہا ہے اور اس کا اشتراک WSPA کے ساتھ ہے۔ اس سنٹر کی ویب سائٹ www.pbrc.edu.pk بتاتی ہے کہ جب 2010ء کے سیلاب میں کند(Kund) میں تباہی آئی تو ریچھوں کو بچانے کے لیے بالکسر (Balksar) میں پناہ گاہ تعمیر کی گئی۔ بی آرسی کے بانی فخر عباس نے تقریباً دوہزار سکولوں اور پانچ ہزار مساجد میں جاکر یہ پیغام پھیلایا ہے کہ ہمیں جانوروںکے ساتھ مہربانی سے پیش آنا چاہیے اور یہ کہ ان کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ ماضی میں بھی میںنے جانوروں کے حقوق کے لیے قلم اٹھایا ہے؛ تاہم اس کے جواب میں مجھے بہت سے قارئین کی غصیلی ای میلز وصول ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق جب پاکستان میں انسانوں کی زندگی ہی اجیرن ہو تو جانوروں پر ہونے والے ظلم پر ایک کالم کو ضائع کرنے کا کیا مقصد؟ میر ا موقف یہ رہا ہے کہ انسان تو خود پر ہونے والے ظلم کا مختلف طریقوںسے اظہار کر لیتے ہیں، ان کے پاس داد رسی کے لیے قانونی نظام موجود ہوتا ہے لیکن جانوروںکے پاس ایسی کوئی سہولت موجود نہیں ہوتی۔ اس لیے جب تک ہم ان کا تحفظ نہیں کریںگے، وہ تکلیف کا سامنا کرتے رہیںگے۔ سری لنکا میں قیام کے دوران میں نے چار کتوں کی نگہداشت کی ۔ اس شفقت کے جواب میں وہ ہمارے دوست بن گئے ، چناچہ ہمیں اپنے مکان کی حفاظت سے بے فکری ہوگئی۔ اُنھوںنے بہت اچھی طرح اس کی رکھوالی کی۔ یہاں برطانیہ میں بھی میرے پاس کتے موجود ہیں ۔ جب میں کمپیوٹر پر کام کررہا ہوتاہوں تو میرے پالتو کتے ، جیک رسل اور پفن اکثر کود کر میری گود میں بیٹھ جاتے ہیں۔ کراچی میں میرا بیٹا شاکرچار خونخوار دکھائی دینے والے ’’باکسرز ‘‘ رکھتا ہے۔ اپنی خوفناک شباہت کے باوجود وہ میرے پوتوںکے ساتھ کھیلتے رہتے ہیں۔ میرا بھائی نوید بھی ایک خوبصورت Dalmatian رکھتا ہے۔ وہ اتنا معصوم ہے کہ احمق دکھائی دیتا ہے ۔ جب میں کراچی آئوں تو وہ جسیم ہونے کے باوجود اچھل کر میری گود میں چڑھ جاتا ہے۔ میرے والد صاحب بھی کتوںسے پیار کیا کرتے تھے اور انھوںنے بہت سی نسلوں کے کتے پالے ہوئے تھے۔ ان کا آخری کتا کولی تھا جس کا نام صندل تھا۔ وہ ہمہ وقت میرے والد کے قدموں میں بیٹھا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ پی ٹی وی سے ایک صحافی میرے والد کا انٹرویو لینے آیا تو وہ ریکارڈنگ کے دوران بھی کتے کو قدموں میں بیٹھے دیکھ کر بہت چیں بجبیں ہوا۔ اس پر میرے والد نے کہا ’’میں اسے بہت سے لوگوں پر ترجیح دیتا ہوں‘‘۔ جنوبی ایشیا کے بہت سے باشندے کتوںکے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ مسلمانوں کا خیال ہے کہ جس گھر میں کتے رہتے ہوں ، وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ اس کامطلب ہے کہ فرشتے ہمارے گھر سے تو بہت دور رہتے ہوںگے۔ بہرحال فرشتوںکی عادات کے بارے میں تو میں زیادہ نہیں جانتا ، ہاں حالیہ دنوں میںنے ایک تحقیقاتی رپورٹ پڑھی ہے کہ پالتو جانوروں کو چھونے سے انسان کی زندگی میں چند سال کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ برطانیہ میں جانوروںکے لیے ہر سال لاکھوں پائونڈز کے عطیات دیے جاتے ہیں۔ ہاتھی، ریچھ، کتے ، بندر اور بلیاں اس سے مستفید ہوتی ہیں۔ برطانیہ میں جانوروں کا اس قدر خیال رکھا جاتا ہے کہ بعض اوقات ان پر خرچ کی جانے والی رقم ان کے مالک کی اپنی زندگی پر آنے والے خرچ سے بڑھ جاتی ہے۔ گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق جانورپالنے والے 26 ملین افراد نے ان پر پندرہ بلین پائونڈز خرچ کیے۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریز جانوروں کے شیدائی ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں 85 لاکھ پالتو کتے اور اتنی ہی بلیاں ہیں۔ ان کے گھروں میں بنے ہوئے تالابوں میں ڈھائی کروڑ مچھلیاں تیرتی ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں پرندے اور دیگر جانور ان کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ یہاں گدھوں کو اس طرح مارنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک معمول ہے۔ چونکہ برطانیہ میں جانوروںکا اس قدرخیال رکھا جاتا ہے، اس لیے میرا خیال ہے کہ میری بیوی کا غصہ بجا ہے۔ جب وہ پاکستان آتی ہے‘ بندروں کو بھیک مانگنے والوں کے پاس دیکھ کر سخت ناراض ہوتی ہے۔ کیا ہم جانوروں کے حوالے سے پاکستان کا یہ ’’عالمی امیج ‘‘ قدرے بہتر نہیںکرسکتے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں