دہشت گردی اور مذاکرات کی ذلت

لالی وڈ اور بالی وڈ کی فلموں میں بعض اوقات ایسے مناظر ہوتے ہیں جن میں کوئی مزاحیہ اداکار‘ جو جسمانی طور پر کمزور ہو‘ کسی طاقتور اور جسیم ولن کو چیلنج کرتا ہے لیکن وہ قریب کھڑے اپنے دوست کے کان میں سرگوشی کر رہا ہوتا ہے کہ وہ اسے لڑنے سے روکے۔ جب بھی یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ طالبان کو ختم کیا جا سکتا ہے تو مجھے یہ جانا پہچانا فلمی منظریاد آجاتا ہے۔ اس دوران نواز شریف کہتے ہیں کہ وہ ایسا ہر قدم اٹھائیں گے جس کا دیگر سیاسی جماعتیں انہیں مشورہ دیںگی۔ جب کئی ماہ کے التوا کے بعد آخر کار اے پی سی(کل جماعتی کانفرنس) کا انعقاد عمل میں آیا تواس میں سیاسی رہنمائوں نے بے عملی کو ترجیح دیتے ہوئے مذاکرات پر ہی اتفاق کرنے کو ہی غنیمت جانا۔ اب جہاں سیاست دان خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہیں، طالبان بے خوفی سے کُشت وخون کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اے پی سی کا جواب اُنھوںنے اپنے طریقے سے دے دیا۔۔۔ ایک جنرل کو شہید کیا اور پھر ایک چرچ پر حملہ کرکے بیسیوں شہریوںکو خون میں نہلا دیا۔ طالبان کے حملوں کا جواز فراہم کرنے میں عمران خان پیش پیش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی پراسرار قوت مذاکرات کے عمل کو پٹڑی سے اتارنا چاہتی ہے۔ معاملے کو مزید پیچیدہ بنانے کے لیے ان کی طرف سے بیان آتا ہے: ’’پشاور چرچ پر حملہ کسی انسان کا کام نہیں۔‘‘پھر خان صاحب کیا چاہتے ہیں؟ کیا حکومت جانوروں سے بات کرے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب اسلام آباد، لاہور اور پشاور میں طالبان کے ہمدرد بیٹھے ہوں تو سمجھ لیں کہ یہ جنگ ہم ہار چکے ہیں۔ اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ طالبان ہم پر کتنی شدت سے وار کرتے ہیں، ہم ان کے سامنے عاجزی سے گڑگڑاتے ہوئے امن کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ تاہم جس طرح حکومت امن خریدنا چاہتی ہے، وہ قیمت ادا نہیں کی جاسکتی۔ مشہور کالم نگار بابر ستار جو ایک ماہر قانون دان بھی ہیں، ایک انگریزی اخبار میں لکھتے ہیں کہ نوازشریف غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کے جس راستے پرچلنا چاہتے ہیں، آئینِ پاکستان اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ سب سے پہلے طالبان اپنے قیدیوں کو آزادکرانا چاہتے ہیں لیکن اگر ان پر مقدمات چل چکے ہیں تو ملکی قانون اُن کی رہائی کی کس طرح اجازت دے گا؟اس کے بعد حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کا تحفظ کرے، چنانچہ وہ فاٹا اور دیگر علاقوںکے شہریوں کو ان عناصر کے رحم وکرم پر کیسے چھوڑ سکتی ہے؟اس سے پہلے حکومت کامولانا فضل اﷲ کے ساتھ معاہدہ کرنا اور سوات کو اس کے حوالے کردینا غیر آئینی اقدام تھا۔ میرے پرانے دوست بابر ایاز اپنی کتاب ’’What\'s Wrong With Pakistan‘‘میں ہمیں یاد دلاتے ہیں: ’’پاکستان میں جہادی عناصر اور طالبان کے ہمدردوں کی کوئی کمی نہیںہے۔ ان ہمدردوں کی ذہنی آبیاری مذہبی جماعتیں اور قدامت پسند حلقے ہی نہیں آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ بھی کرتے ہیں۔ ‘‘ با بر ایاز اس فہرست میں دوسرے بہت سے حلقوں کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔ ایک حالیہ ٹی وی ٹاک شو میں جنرل (ر) حمیدگل نے‘ جو طالبان کے سب سے بڑے حامی ہیں، دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد ہمیں مشورہ دیا کہ ہم فکر نہ کریں، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ان کا اور اس پروگرام میں شریک جاوید ہاشمی کا موقف یہ تھا کہ یہ حملے بین الاقوامی سازش ہے اور اس میں را، سی آئی اے اور موساد ملوث ہیں اور ان کا مقصد مذاکرات کے عمل کوسبوتاژ کرنا ہے۔ان دنوں کی رائے حیرت انگیز حدتک یکساںتھی۔ پشاور حملے کے فوری بعد عمران خان کی طرف سے بیان آیا تھا: ’’جب بھی ہم مذاکرات کی طرف بڑھنے لگتے ہیں، بم دھماکہ، خود کش حملہ یا ڈرون حملہ ہو جاتا ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ عام پاکستانی شہریوںکو کئی برسوں سے خوفناک دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس کا مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب پی ٹی آئی کے سربراہ‘ جو طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردی کی ہر کارروائی کا جواز تلاش کرنے کے ماہر ہیں، چاہتے ہیں کہ طالبان کو پاکستان میں دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے۔ عملی اقدامات سے جان چھڑانے کے لیے نواز شریف کا بیان آیا ہے کہ وہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ترکی سے رہنمائی حاصل کریں گے۔ اگر انہوں نے ترکی کی حالیہ تاریخ کا مطالعہ کیا ہوتا تو اُنہیں علم ہوتا کہ ترکی کو کرد علیحدگی پسندوں کی طرف سے جس خطرے کا سامنا تھا وہ اُس خطرے سے بہت مختلف ہے جس کا پاکستان کو طالبان کی طرف سے سامنا ہے۔ ستر کی دہائی میں ترک فوج نے سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی سے بائیں بازو کے انقلابیوںکے خلاف کٹھن جنگ لڑی تھی۔ جب نواز شریف(اور ان سے پہلے زرداری) فاٹا میں فوج کشی کے لیے قومی اتفاق ِ رائے پیدا کرنے کی بات کرتے ہیں تو میں حیران ہوتا ہوں کہ بلوچستان کے لیے اس اتفاق ِ رائے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں ہوتی؟ ایف سی کئی برسوں سے اس صوبے میں موجود ہے۔ اس صوبے کے حالات پر تو کوئی اے پی سی نہیں بلائی جاتی۔ جب اس حکومت کو کراچی میں مجرموں کے گروہوں کے خاتمے کے لیے رینجرز کو بھیجنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو اس کے لیے سیاسی جماعتوں سے مشاور ت میں وقت ضائع نہیںکیا جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف نے ایم کیو ایم، پی پی پی اور اے این پی کا موقف سنا لیکن بنیادی طور پر یہ فیصلہ ان کی حکومت نے ہی کیا تھا۔ تحریک ِ طالبان پاکستان اور دیگر جہادی گروہ کراچی کے گینگز سے مختلف نہیں ہیں۔۔۔ ہاں ان کی طاقت اوروسائل زیادہ ہیں اور وہ عام مجرموںکے مقابلے میں کہیں زیادہ سفاک ہیں۔ چنانچہ حکومت ان کو امن کا پیغام کیوں بھیجتی ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے گروہ بعض سیاستدانوں کے ساتھ نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں؟ ہمارے بعض سیاست ان جہادی گروہوں کو خوش کرنے کے لیے کس حد تک جاسکتے ہیں، اس بات کا اندازہ اے پی سی کے اعلامیے سے کیا جاسکتا ہے۔ اس میں ان گروہوں کو دہشت گردوںکی بجائے ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ کہا گیا ہے۔ ستم یہ ہے کہ اس کے باوجود وہ جہادی گروہ خوش نہیںہوئے ہیں اور نہ ہی وہ مذاکرات کی راہ اپنانے کے لیے تیار ہیں۔ اے پی سی کا جواب انہوں نے اعلیٰ فوجی افسروں اور بے گناہ عیسائیوں کو ہلاک کرکے دیا ہے۔ وہ کتنے خوش ہوں کہ ایٹمی طاقت کی حامل ریاست ِ پاکستان ان کے سامنے گھٹنوںکے بل جھک کر التجا کرتے ہوئے امن کی بھیک مانگ رہی ہے۔ ایک اور بات، تحریک ِ طالبان پاکستان کی چھتری تلے بہت سے گروہ ہیں۔ حکومت ان میں سے کس کس سے مذاکرات کرے گی؟ ٹھیک ہے کہ ملک میں قتل و غارت گری کا سلسلہ توجاری ہے، لیکن ہم نے اور کتنی بے عزتی برداشت کرنی ہے؟ کیا صرف قتل و غارت پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں