کیاآپ کے ساتھ یہ معاملہ گزراہے کہ آپ نے کمرے میں جا کر کچھ تلاش کرنے کی کوشش کی ہو اور پھر حیران ہوکر سوچنا شروع کردیا ہو کہ آپ کیا چیز تلاش کررہے ہیں ؟افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ہم تیسری دہائی پار کرنے کے بعد اپنے دماغی خلیوں کو کھونا شروع کر دیتے ہیں۔ اس عمر کے بعد ہمارے ذہن میں اتنے خلیات بنتے نہیں ہیں جتنے تباہ ہوجاتے ہیں۔ تاہم جوانی میں، جب کہ ذہن میں نمو کا عمل واقع ہورہا ہوتا ہے، ایک نوجوان بے سروپا تصورات میں الجھارہتا ہے۔ وہ جاگتی آنکھوںسے جن خوشنما خوابوں کے شیش محل تعمیر کرتا ہے، وہ اُسے سنگلاخ حقائق کی عملی رہ گزر میں قدم نہیں رکھنے دیتے۔ گزرتے ہوئے ماہ و سال صرف ذہن کی فعالیت کو ہی متاثر نہیںکرتے، بلکہ بہت سے اعضائے بدن کاہلی اور غفلت کی وجہ سے غیر فعال ہوجاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ آپ ہوتے ہیں اور آپ کی ادویات، جن کی خوراک سے آپ کی ’’صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے، زندگی یونہی تمام ہوتی ہے۔‘‘جب دوست اکٹھے ہوتے ہیں توامکان ہے کہ کھانے پینے کے دوران کی جانے والی گفتگو میں، موضو ع چاہے کوئی بھی ہو، ادویات اور حالیہ دنوں لاحق رہنے والی بیماری یا کسی قدیم بیماری کی تازہ علامات پر ہی تبادلہ خیالات ہوتا ہے۔ ہم کتابوں، فلموں اور عالمی واقعات سے زیادہ مختلف معالجوں اور ہسپتالوںکے بارے میں اپنی آگاہی سے دوسروں کو مستفید کرتے رہتے ہیں۔اگرکوئی نوجوان اس محفل میںموجود ہوتو وہ اکتاہٹ محسوس کرتے ہوئے وہاںسے اٹھ جائے گا۔ میری نسل کے لوگ جانتے ہیں کہ بڑھاپا ایک ظالم چیز ہے۔ جب میں یہاں ڈیویز(انگلینڈ کا وہ علاقہ جہاںمیں رہتا ہوں) میں اُن معمر افراد کو دیکھتا ہوں جو Zimmer-frame کے سہارے چل رہے ہوتے ہیں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ چند ایک برسوں کے بعد میں بھی ایسے ہی چل رہاہوں گا۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میں اب بھی اپنے پالتو کتوں کے ساتھ طویل فاصلہ طے کرلیتاہوں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مجھے کھنچ کر لے جاتے ہوں ، تاہم ہر دو کی کشاکش میں ایک گھنٹے کی سیر ہوجاتی ہے۔ ورزش کرنا مجھے فطری طورپر نہیں بھاتا۔ میںنے ہمیشہ ایک چینی دانشور کی نصیحت پر عمل کیا: ’’اگر تم چل سکتے ہو تو مت بھاگو، اگر تم کھڑے ہو سکتے ہوتو مت چلو اور اگر تم لیٹ سکتے ہوتو کھڑے ہونے کی زحمت نہ کرو۔‘‘جب کبھی میری بیوی نے مجھے قائل کرنے کی (بے سود) کوشش کی کہ مجھے ورزش کرنی چاہیے تو میں نے ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ’’میں اپنی توانائی کی بچت کررہاہوں۔‘‘ جب وہ پوچھتی ہیں کیوں؟ تو میں جواب دیتا ہوں ’’داشتہ بکار آید‘‘ (یعنی رکھی ہوئی چیز کام آجاتی ہے) میں اپنی بات میں مزید وزن پیدا کرتے ہوئے فلسفیانہ انداز میں کہتا ہوں کہ ہم دنیا میں دل کی محدود دھڑکنیں اور سانسیں لے کر آئے ہیں۔ اُنہیںورزش کرتے ہوئے اندھا دھند اُڑادینے میں کوئی دانائی نہیں۔ اس ضمن میں ہمیں کفایت شعاری سے کام لینا چاہیے۔ اگر ہم ورزش کریں گے تو گویا اپنے سرمایہ ٔ زندگی میں خود ہی نقب لگانے کے مرتکب ہوںگے۔ تاہم اس دلیل کا سہارا لے کر میں گھریلوکاموں سے پہلو تہی نہیں کرتا۔ جس دوران ہمارے دماغی خلیے تیزی سے ختم ہورہے ہوتے ہیں، ایک اور افسوس ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارے جسم میں چکنائی کے خلیوں میں اضافہ ہورہا ہوتا ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے‘ میں کھانے پینے کا شوقین ہوں۔ اس شوق نے میرے لیے چند سال پہلے خریدے گئے ٹرائوزر پہننا ناممکن بنا دیا ہے۔ اگرچہ میں نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران اپنا وزن چند پائونڈ کم کیا ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ باتھ روم میں موجود وزن کرنے والی مشین کی سوئی ایک جگہ پر اٹک گئی ہے۔ اب اُس کا یہاںسے نیچے سرکنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ مزید وزن کم کرنے کی کوشش خاصی تکلیف دہ ہوگی۔ گزشتہ رات ایک دوست نے بتایا کہ اُس نے تین ماہ کے دوران تیس پائونڈوزن کم کیا ہے۔ اس کا بیان کردہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ اس کوشش کا مطلب انسان کو گسٹاپو کے حوالے کرنے سے کم نہیںہے۔ میں یہ جانتا ہوں کہ مجھے گوشت کم اور سبزیاں زیادہ استعمال کرنی چاہئیں لیکن جب بھی میں اس طبی مشورے پر عمل کرنے کے لیے کمر بستہ ہوتا ہوں تو گھرکے نزدیک ایک قصاب کی دکان پر تحریر بقراطی جملہ صرف سبزیوں پر گزارہ کرنے کے عہد کی حوصلہ شکنی کردیتا ہے۔ اُس جملے کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں: ’’سبزیاں اچھی ہیں لیکن جب تک ان میں گوشت کے قتلے نہ ڈالیں، بے مقصد ثابت ہوتی ہیں۔‘‘ آپ یہ بھی جانتے ہیںکہ گوشت کی بہت سی ڈشز مکھن کے بغیر تیار ہی نہیں ہوتیں۔ میری بیوی مجھے تازہ ترین طبی تحقیق اور دریافت سے آگاہ کرتی رہتی ہے تاکہ میں اپنی صحت پر توجہ دوں اور دیر تک زندہ رہ سکوں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ یہ طبی تجاویز ایک دوسرے کی تردید کرتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر انٹر نیٹ پر بے تحاشا مواد ہمیں بتاتا ہے کہ جسم میں کولیسٹرول کی زیادتی کتنی نقصان دہ ہے ، لیکن جب میں نے ماہر ِ امراضِ قلب سے دریافت کیا کہ کیا میں کولیسٹرول کم کرلوں تو اُس نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا کہ اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو تو ایسا نہ کرنا۔ مجھے بتایا گیا کہ میں چند ہفتے فاقہ کشی کرنے سے اپنی ٹائپ 2 ذیابیطس سے چھٹکارا پا سکتا ہوں۔ میری بیوی نے سنجیدگی سے مشورہ دیا کہ فوراً اس کی کوشش کرو۔ لیکن یہ کہنا آسان ہے، کرنا مشکل۔ کئی ہفتوں تک مزیدار کھانوںسے خود کو محروم کرنے کے تصور سے ہی مجھ پر کپکپی طاری ہونے لگتی ہے۔ میں زندگی کے مزے لینا چاہتا ہوں اور اس عمل میں طبی تحقیق کرنے والوں کی مداخلت پسند نہیںکرتا۔ ہم میں سے بہت سے افراد پچاس کا ہندسہ پار کرتے ہی مرنے کی فکر میں گھلنے لگتے ہیں۔ جب آنکھوں پر چشمہ لگ جاتا ہے (اور کچھ دوسری تبدیلیاں بھی رونما ہوتی ہیں)تو ہم جانتے ہیں کہ ہم عمر کی گھاٹی سے نیچے اتر رہے ہیں؛ تاہم اب میں عینک کے ساتھ بھی پڑھنے میں دقت محسوس کرتا ہوں؛ چنانچہ ٹی وی کی بے مقصد ’’چینل گردانی ‘‘ کرتا رہتا ہوں۔ یاد داشت بھی ساتھ چھوڑ رہی ہے اور وہ تو گوگل کا شکریہ ورنہ میں اپنے کالموں میں تاریخ و حقائق کی بہت سی غلطیوں کا ارتکاب کرگزرتا۔ تاہم گوگل کی بھی ایک حد ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی صاحب مجھے ملتے ہیں اور شناسائی ان کے چہرے سے ٹپک رہی ہوتی ہے جبکہ میں اپنی یادداشت کو ٹٹول رہاہوتا ہوںکہ ان کا نام کیا ہے اور انہیں میں نے کہاں دیکھا تھا؟ ستم یہ ہے کہ اُس وقت کوئی اور دوست بھی نمودار ہوجاتا ہے جو کہتا ہے کہ میں اپنے اس (پہلے والے ) دوست کا تعارف کرائوں۔ جب ہم جوان ہوتے ہیں تو ہم اپنی صحت کا بالکل خیال نہیں رکھتے اور سمجھتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے۔ اس وقت ہم اپنے بزرگوں کو حیرت سے دیکھتے ہیں کہ وہ انواع و اقسام کے دردوں اور بیماریوں کی شکایت کرتے ہیں۔ تاہم اس سے پہلے کہ ہمیں پتہ چلے، ہم خود بھی اسی گروہ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ جلد ہی طبی معائنے اور ادویات زندگی کا لازمی حصہ بن جاتی ہیں۔ آج کل ریٹائرڈ لوگ انٹر نیٹ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کررہے ہیں۔ سائبر سپیس نے دنیا کو ایک بہت بڑے چیٹ روم میں تبدیل کردیا ہے۔ جب میں بڑھاپے سے خائف ہوتا ہوں تو کوئی نہ کوئی سائنسی دریافت میری ڈھارس بندھانے آجاتی ہے۔ گزشتہ دنوںمیں نے پڑھا تھا کہ پالتو جانوروںکو چھونے سے عمر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح سیاہ چاکلیٹ بھی ماہ و سال بڑھا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ مشروبات بھی عمر میں اضافہ کردیتے ہیں لیکن پاکستانی معاشرے میں ان کا ذکر نہ کرنا ہی بہتر ہے۔