واشنگٹن میں ہماری سفارت کاری

کئی عشروں سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا پرنالہ صرف مسئلہ کشمیر پر ہی گرتا تھا؛ تاہم حال ہی میں اس میں ڈرون حملے بھی شامل ہو گئے ہیں۔ وہ زمانہ اب قصۂ پارینہ لگتا ہے کہ جب عالمی سطح پر پاکستان کے موقف کو اہمیت دی جاتی تھی یا اس کی رائے کا احترام کیا جاتا تھا۔ اب دو بڑے مسائل۔۔۔ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ اور ڈگمگاتی ہوئی معیشت۔۔۔ کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کو قابلِ رحم نظروں سے بھی دیکھا جاتا ہے اور اس سے متعلق عالمی برادری کے دل میں خدشات بھی پائے جاتے ہیں۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم کی سوچ اور عالمی معاملات کے فہم کے بارے میں متضاد باتیں کی جاتی ہیں۔ حال ہی میں واشنگٹن دورے کے دوران ان کے تیارشدہ بیانات پڑھنے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ درحقیقت دفتر خارجہ کے افسران کو اس بات سے بھی خوشی محسوس ہوئی ہو گی کہ آج کل ان میں سے ہی ایک کو واشنگٹن میں سفیر مقرر کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کافی عرصے سے امریکہ میں ہمارے سفیر سیاسی بنیادوں پر تعینات کیے جاتے رہے ہیں؛ چنانچہ اُنہیں انہی بنیادوں پر عہدہ چھوڑنا ہوتا ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ واشنگٹن میں تعینات ہمارے سفیروں کو اہم افراد کی پشت پناہی حاصل رہتی ہے۔ ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں سابق سفارتکار افتخار مرشد بہت سے سفیروں کا ذکر کرتے ہیں لیکن وہ کچھ پیشہ ور سفارت کار، جنھوں نے بہت اچھی خدمات سرانجام دیں، کو بھول جاتے ہیں۔ ان درخشاں ناموں میں ھمایوں خاں، جمشید مارکر اور ڈاکٹر ملیحہ لودھی کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ بات بھی فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ میمو گیٹ کی وجہ سے اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے سے پہلے حسین حقانی بھی واشنگٹن میں پاکستان کی نمائندگی بہت عمدہ اور موثر طریقے سے کر رہے تھے۔ اپنے مضمون میں مسٹر مرشد کامران شفیع پر، جنہیں برطانیہ میں ہائی کمشنر تعینات کیا ہے، تنقید کرتے ہیں کہ مسٹر شفیع بطور کالم نگار دفاعی اداروں کے ناقد رہے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ بھی روایت رہی ہے کہ پیشہ ور سفارت کار ہمارے خفیہ اور دفاعی اداروں کے قریب رہے ہیں لیکن ہمارے جیسے سب لوگ فوجی حکومت یا دفاعی اداروں کی حکمرانی کی تائید نہیں کر سکتے، اس لیے تنقید کی جاتی رہی ہے۔ کوئی بھی باضمیر انسان آمریت کی حمایت نہیں کر سکتا۔ افتخار مرشد نے کامران شفیع پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ جب وہ نوے کی دہائی میں پاکستان کے لندن میں سفارت خانے کے پریس اتاشی تھے تو ان کی طرف سے سفارت خانے کے فنڈز کا استعمال شفاف نہ تھا۔ میں کامران شفیع کو بہت عرصے سے جانتا ہوں اور میں پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ کبھی خورد برد یا کسی بدعنوانی میں ملوث نہیں رہے۔ درحقیقت اُنہوں نے پوری توانائی کے ساتھ جمہوری قدروں کے لیے آواز بلند کی ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور فوجی حکومتیں ان اہم افراد کو سفیر اور سفارت کار مقرر کرتی ہیں جو ان کے قریب ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میزبان حکومتیں جانتی ہیں کہ ایسے افراد کو دیا گیا پیغام حکومت تک فوراً اور بغیر کسی تبدیلی کے پہنچ جائے گا۔ مجھے بھی واشنگٹن میں پاکستان کے سفارت خانے میں خدمات سرانجام دینے کا طویل تجربہ ہے۔ اس بنا پر میں کہہ سکتا ہوں کہ سفارت کاری کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ کوئی شخص، جس میں معقول ذہانت ہو، وہ یہ کام بطریق احسن سرانجام دے سکتا ہے۔ درحقیقت کچھ سیاست دانوں کو بھی سفیر مقرر کرنے کی روایت موجود رہی ہے۔ اس کا مقصد ان افراد کی ’’سیاسی خدمات‘‘ کا اعتراف ہوتا ہے؛ تاہم امریکہ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ اُن لوگوں کو‘ جنہوں نے امریکی صدر کی انتخابی مہم میں معاونت کی ہوتی ہے‘ مختلف ممالک میں سفارت کار مقرر کر دیا جاتا ہے۔ مجھے ان میں کچھ نہایت خراب سفارت کاروں سے بھی واسطہ پڑا ہے، جبکہ کچھ بہت عمدہ اور لائق شخصیات بھی اپنے ملک کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ اب نواز شریف صاحب کے حالیہ واشنگٹن دورے پر واپس آ جائیں۔ اگر اس دورے سے وابستہ توقعات بہت کم تھیں تو نتائج اُن سے بھی کم تر درجے کے برآمد ہوئے ہیں۔ کشمیر اور ڈرون حملوں کا ذکر ملک میں ہوتا رہے گا کہ ان مسائل کے حل کی کوئی کوشش بارآور ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ ہمیں ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ دنیا کو کشمیر کے مسئلے پر کوئی تشویش نہیں ہے۔ پاکستان میں یہ مسئلہ ٹی وی اسٹوڈیوز، جی ایچ کیو اور دفتر خارجہ میں زندہ ہے۔ یہ عام آدمی کا مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی دو پاکستانی، جب وہ آپس میں ملتے ہیں، اس پر بات چیت کرتے ہیں۔ جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلق ہے تو جائزہ ظاہر کرتا ہے جب نواز شریف نے امریکہ کا دورہ کرنا تھا تو میڈیا میں اس بحث کو شدومد سے چھیڑ دیا گیا۔ مشہور اخبار ’’اکانومسٹ‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ فاٹا میں ڈرون حملوں پر حمایت پائی جاتی ہے۔ چند سال پہلے، جب میں اپنی کتاب کے سلسلے میں تحقیق کر رہا تھا تو مجھے خیبر پختونخوا کے سابق چیف سیکرٹری نے بتایا کہ ڈرون حملوں پر ان افراد نے زیادہ ہنگامہ مچا رکھا ہے جنہوں نے کبھی اٹک کا پل بھی پار نہیں کیا ہے۔ ’’اکانومسٹ‘‘ شمالی وزیرستان کے ایک سردار کا حوالہ شامل کرتا ہے۔۔۔’’ کوئی بھی سچ بولنے کی جرأت نہیںکرتا۔ یہ ڈرون ان دہشت گردوں کو ہلاک کر رہے ہیں جو بے گناہ شہریوں کے خون سے ہاتھ رنگتے ہیں‘‘۔ اس بات کے کچھ ثبوت موجود ہیں کہ ماضی میں فوجی اور سیاسی قائدین خفیہ طور پر ڈرون حملوں کی حمایت کرتے تھے۔ ان حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ واشنگٹن میں اس مسئلے کو اجاگر کرنا وقت کا زیاں تھا لیکن کیا کسی کو اس بات پر حیرت نہیں ہوئی کہ ابھی ہمارے وزیر اعظم واشنگٹن سے واپسی کے لیے طیارے میں بیٹھے بھی نہ تھے کہ امریکہ نے 1.6 بلین ڈالر کی معاشی اور دفاعی امداد بحال کر دی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں