گراوٹ کا شکار برطانوی معاشرہ

گزشتہ ایک دو برسوں سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ برطانیہ کے ادارے، جن کی دیگر ممالک میں مثالیں دی جاتی تھیں، اپنا وہ معیار برقرار نہیں رکھ پا رہے جس کے لیے وہ مشہور تھے۔ سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں پر عدم اعتماد کیا جاتا ہے، جبکہ میڈیا کو، خاص طور پر فون ہیکنگ اسکینڈل کے بعد، بدعنوان اور منفی اقدار کو فروغ دینے والے شعبے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کچھ ہسپتالوں کی خراب صورت ِحال کے منظر ِعام پر آنے کی وجہ سے نیشنل ہیلتھ سروس بھی اپنی ساکھ کھو رہی ہے۔ ان اداروں کے روبہ زوال ہونے کے باوجود برطانوی پولیس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ پولیس کا احترام اتنا تھا کہ نیلی وردی میں ملبوس ہیلمٹ پہنے ہوئے پولیس کے سپاہی آتشیں اسلحے کے بغیر عوام کے ہجوم کو کنٹرول کر لیتے تھے، لیکن افسوس، آج پولیس کی ساکھ بھی داغدار ہو چکی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ کہ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے پولیس کے طریق ِکار میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ کچھ واقعات کی وجہ سے بھی یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ برطانوی پولیس قابل ِ اعتبار نہیںرہی۔ اب حال یہ ہے کہ کرخت چہروں والے پولیس افسران تیز رفتار ی سے سائرن بجاتی ہوئی گاڑیوں میں آتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ کسی پراسرار مشن پر ہیں۔ اب بہت سے پولیس افسران کے پاس ہتھیار بھی دیکھے جاتے ہیں جبکہ ان کے سر پر روایتی ہیلمٹ کی بجائے شیشے والے ہیلمٹ ہوتے ہیں جن میں ’’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کا شائبہ ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے سے ہونے والی ان تمام تبدیلیوںکے باوجود، پولیس ابھی بھی میڈیا اور سیاست کے ایوانوں میں احترام کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یکے بعد دیگرے نمودار ہونے والے بہت سے سکینڈلز نے اس کے امیج کو داغدار کر دیا ہے۔ ان میں سے تازہ ترین سکینڈل میں کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والا ایک رکن ِ پارلیمنٹ ، اینڈریو مچل ملوث ہے۔ اس کو گزشتہ سال استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔ اس سے پہلے وہ اپنی جماعت کا Chief Whip (ایسا رکن جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ میں موجود ہوں) تھا اور اس کا دفتر 9 ڈائوننگ اسٹریٹ پر تھا۔ جب بیس ستمبر 2012ء کو مچل اپنے دفتر سے سائیکل پر واپس جا رہا تھا تو ڈیوٹی پر موجود پولیس آفیسر نے اُسے بتایا کہ وہ مرکزی دروازہ استعمال نہیں کر سکتا۔ کچھ بحث و تکرار کے بعد مچل تسلیم کرتا ہے کہ وہ آپے سے باہر ہوگیا تھااور سخت الفاظ ادا کرنے کے بعد ذیلی دروازے سے باہر چلا جاتا ہے۔ جس چیز نے اس معاملے کو دھماکہ خیز بنا دیا اور جس کے نتیجے میں مچل کو استعفیٰ دینا پڑا وہ یہ الزام تھا کہ اُس نے غصے میں بحث کرتے ہوئے ڈیوٹی پر موجود دو پولیس والوں کو Pleb (کم تر طبقے کے افراد) قرار دیا تھا۔ برطانوی معاشرے میں اسے اشتعال انگیز زبان قرار دیا جاتا ہے۔ مچل اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اُس نے غلط الفاظ کا استعمال کیا لیکن اُس کا کہنا ہے کہ اُس نے پولیس والوں کو کمتر قرار نہیں دیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ عام طور پر توہین آمیز لفظ لکھے اور بولے جاتے ہیں لیکن ان کا کوئی برا نہیں مناتا لیکن Pleb نچلے طبقے کے لیے بولا جاتا ہے، اس لیے اسے گالی سے بھی زیادہ سنگین بدتہذیبی سمجھا جاتا ہے۔ جب یہ معاملہ میڈیا میں آیا تو مچل کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ تین پولیس افسران نے گواہی دی تھی کہ مچل نے یہ لفظ استعمال کیا ہے۔ مچل کی تردید کے باوجود پولیس نے اُس کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ پولیس فائونڈیشن کے چیئرمین نے کہا۔۔۔’’ یہ تصور کرنا محال ہے کہ اگر کوئی شخص پولیس کے لیے اتنے حقارت آمیز الفاظ استعمال کرے اور عوامی عہدہ بھی اپنے پاس رکھے۔ اُسے ایسا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی‘‘۔ ڈپٹی چیف وہپ کو بھیجی گئی ایک ای میل پولیس کے بیان کے تصدیق کرتی تھی۔ ای میل بھیجنے والے شخص نے کہا کہ وہ واقعے کے وقت ڈائوننگ اسٹریٹ پر سے گزر رہا تھا اور وہ تصدیق کرتا ہے کہ ایسا واقعہ پیش آیا۔ اس کے علاوہ وہاں کچھ سیاح بھی موجود تھے اور انہوں نے بھی اس واقعے کی فلم بنائی تھی۔ تحقیقات کے ایک ماہ بعد مچل نے عہدہ چھوڑ دیا۔ تاہم بعد میں علم ہوا کہ سی سی ٹی وی سے لیے گئے مناظر یہ ظاہر کرتے تھے کہ اُس تلخ کلامی کے وقت وہاں سیاح موجود نہ تھے۔ بعد میں یہ بھی پتہ چل گیا کہ وہ ای میل بھیجنے والا ’’شہری ‘‘ دراصل ایک پولیس آفیسر تھا۔ اس پر Independent Police Complaints Commission نے انکوائری کی۔ اس دوران مچل اُن پولیس افسران سے ملا جنہوںنے کہا تھا کہ وہ خود پر لگائے گئے الزام کا تسلی بخش جواب نہیں دے پایا ہے۔ مچل نے جب بیان دیا تھا تو اُس نے خفیہ طور پر اس کی ریکارڈنگ کا انتظام کر لیا تھا۔ اس ریکارڈنگ سے اُس نے ثابت کر دیا کہ اُس کا جواب تسلی بخش تھا۔ ان انکشافات پر سیاست دان، بشمول وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، سٹپٹا اٹھے۔ ہوم سیکرٹری تریسامے نے کارروائی کا مطالبہ کیا کہ وہ پولیس افسران ، جو اس معاملے میں ملوث تھے، مچل سے باضابطہ معذرت کریں، لیکن پولیس یونین نے ثابت قدمی سے اپنے ساتھیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مزید کی کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔ پولیس فورس کے سربراہ نے معذرت کی لیکن ڈیوٹی پر موجود پولیس افسران کو معذرت کرنے پر مجبور نہ کیا جا سکا۔ بہت سے سیاسی مبصرین اور اخبارات کے مدیر پولیس پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ اپنے غلطیوں پر پردہ ڈال جاتی ہے ۔ ایک طویل فہرست یہ ظاہر کرتی ہے کہ پولیس نے جانتے بوجھتے ہوئے غیر قانونی کاموں سے اغماض برتا۔ برطانیہ میں مقیم تارکین وطن بھی اکثر شکایت کرتے ہیں کہ پولیس کا رویہ غیر جانبدارانہ نہیںہوتا۔ پولیس کی طر ف سے تشدد کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ اب عوام بھی غصے میں ہیں اور پولیس افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جب مچل نے شروع میں کہا تھا کہ وہ سچ بول رہا ہے اور پولیس افسران جھوٹے ہیں تو کسی نے اُس کی بات پر اعتبار نہیںکیا تھا۔ تاہم اب معاملے کی جہت ہی تبدیل ہو گئی ہے۔ اگر کسی کو برطانوی معاشرے Pleb کہا جائے تواسے برطانوی معاشرے میں طبقاتی حوالے سے اشتعال انگیز قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور الفاظ بھی اشتعال انگیز ہیں، جیسا کہ یاھوز اور یوبز اور لوگ ان معاملات اور لفاظ پر حساس ہیں۔ تاہم پاکستان میں اس کی کوئی مثال تلاش نہیںکی جا سکتی۔ یہاںیہ تصور بھی نہیںکیا جاسکتا کہ کوئی عوامی نمائندہ سائیکل چلائے گا یا ڈیوٹی پر موجود پولیس افسران کسی رکن پارلیمنٹ کو روکنے کی جسارت کریں گے۔ مچل کے معاملے پر اٹھنے والا طوفان ظاہر کرتا ہے کہ گراوٹ کا شکار برطانوی معاشرہ بھی ہم سے بہت بہتر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں