حقیقت اور التباس

امریکہ کی ریاست کینٹکی میں ایک محاورہ مشہور ہے۔۔۔ ’’گھوڑے سے دوسری ٹانگ کھانے کے بعد آپ کوئی دانائی نہیں سیکھ سکتے‘‘۔ اگر بعض سیاست دانوں کے افعال و اقوال کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ گھوڑے سے ایک ہزار ٹانگیں (یعنی دہشت گردوں کے ہزاروں حملوں) کھانے کے بعد بھی کوئی سبق نہیں سیکھیں گے۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ تب تک گھوڑا کوئی سبق سیکھ چکا ہو۔ ڈرون حملوں پر ہونے والی تمام تر بحث اب اعدادوشمار تک محدود ہو چکی ہے۔ جب وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے نام سینٹ کو بتائے تو اپوزیشن نے ایک طوفان کھڑا کر دیا اور الزام لگایا کہ وزیر موصوف نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد تبدیل کر دی ہے۔ وزارت دفاع اور خیبر پختونخوا کی حکومت کے اندازے کے مطابق ڈرون حملوں میں اب تک کل 2,160 جبکہ 67 عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ چوہدری نثار کے پیش کردہ اعدادوشمار ان سے کم تھے۔ عام آدمی سوچتا ہے کہ جب شہری ہلاکتوں کی تعداد کم ہو اور دہشت گرد زیادہ تعداد میں مارے جا رہے ہوں تو پھر اچھی بات ہے لیکن بعض سیاست دانوںکے لیے یہ تعداد راس نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ شہری ہلاکتوں کی تعداد کو بڑھا کر بتایا جائے تاکہ پاکستان اور امریکی حکومت پر دبائو ڈالا جائے اور یہ حملے بند کیے جائیں۔ اس کے بعد دفتر خارجہ بھی اس تنازع میں شامل ہو گیا اور بیان دیا کہ شہری ہلاکتوںکی تعداد بہت زیادہ ہے۔ میں نہیں جانتا تھا ہمارے سفارت کار اتنے مستعد ہیں کہ وہ دور افتادہ مقامات پر ہلاک ہونے والوں کی نعشوں کو اسلام آباد یا دیگر ممالک میں بیٹھ کر ہی گن لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن علاقوں میں صحافی حضرات کا داخلہ بھی ممنوع ہے(جان کی حفاظت کی غرض سے) جبکہ ہمیں وہاں پیش آنے والے واقعات کی اطلاع صرف مقامی افراد یا فوج کے توسط سے ہی مل پاتی ہے؛ چنانچہ ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کی تصدیق صرف وہی افراد کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ، جب کہیں ڈرون حملہ ہوتا ہے تو طالبان اس مقام کا گھیرائو کر لیتے ہیں اور ہلاک یا زخمی ہونے والوں کو کہیں لے جاتے ہیں۔ اس طرح ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے۔ نہ ہی اس بات کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے دہشت گرد کتنے تھے اور عام شہری کتنے۔ شاید سب سے قابل اعتماد اعدادوشمار ’’بی آئی جے‘‘ (Bureau of Investigative Journalism) سے موصول ہوتے ہیں۔ بی آئی جے کے پاس معلومات کے بہت سے ذرائع ہیں۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق ۔۔ ’’اب تک ہونے والے 378 ڈرون حملوں میں 2,525 سے لے کر 3,613 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ ان میں 407 سے لے کر 926 شہری ہلاک ہوئے‘‘۔ ویسے تو ایک شہری کی بلاوجہ جان جانا بھی بہت بڑا سانحہ ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جنگوں میں شہریوں کا جانی نقصان فوجیوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں سوویت یونین کے بیس ملین افراد موت کے گھاٹ اتر گئے تھے۔ کارپٹ بمباری اور ایٹمی حملوں سے ہیروشیما سے لے کر ہمبرگ تک کروڑوں بے گناہ شہری مارے گئے تھے۔ جنگوں میں ایسا ہی ہوتا ہے، اور یہ بات سمجھنے میں غلطی نہ کریں کہ ہم بھی حالت جنگ میں ہیں۔ عمران خان جو مرضی کہتے رہیں، اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔ چاہے یہ جنگ پرویز مشرف کے کسی فیصلے کے نتیجے میں شروع ہوئی، چاہے اس کی وجہ کچھ بھی تھی، اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب یہ ہماری جنگ ہے ۔۔۔ بلکہ اب یہ ہمارے بچائو کی جنگ ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں کو انسان دوستی اور عدم تشدد کا درس دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ رسید کرے تو دوسرا گال بھی آگے کر دیں۔ مگر ہمارے پاس یہ آپشن بھی نہیں ہے کیونکہ یہ تھپڑ ہمارے دوسرے گال پر ہی لگ رہے ہیں۔ طالبان ہماری جان کو آئے ہوئے ہیں اور ریاست پر قبضہ کرنے کا خواب ان کی آنکھوں میں صاف دکھائی دے رہا ہے لیکن حکومت ہو یا اپوزیشن، سب اُن کو خوش کرنے پر کمربستہ ہیں۔ سب اس حقیقت کو جان بوجھ کر نظرانداز کر رہے ہیں کہ وہ پانچ ہزار قانون نافذ کرنے والے افراد کے علاوہ چالیس ہزار عام شہریوں کو ہلاک کر چکے ہیں (اب فضل اﷲ بھی واپس آ گیا ہے) اور دہشت گرد کسی قسم کے مذاکرات نہیںکرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے لیے لفظ سٹیک ہولڈرز استعمال کیا جا رہا ہے۔ کوئی سیاسی قوت اُنہیں قاتل کہنے کو تیار نہیں۔ ڈرون حملوں کے مخالفین ایک دلیل دیتے ہیں کہ ان کی وجہ سے دہشت گردوں کے حامیوں میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ جو عام شہری ان حملوں میں ہلاک ہو جاتے ہیں‘ ان کے رشتہ دار انتقام لینے کے لیے دہشت گردوں کی صفوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ توجیہہ درست مان لی جائے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ان جہادیوں کے خلاف لڑنے والے عام شہریوں کا بھی بہت بڑا لشکر تیار ہو چکا ہو گا کیونکہ ان دہشت گردوںکے ہاتھوں اس سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے ہیں جو ڈرون حملوں میں مارے گئے ہیں۔ درحقیقت اس بے بنیاد دلیل کا مقصد ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کر کے دہشت گردوں کی مدد کرنے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ کالم نگار اعجاز حیدر نے اپنے حالیہ مضمون میں حقیقت اور جھوٹ کو بہت عمدگی سے بے نقاب کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ 2007ء میں مشرف پر دبائو ڈال رہے تھے کہ ان لوگوں‘ جنھوں نے مسجد میں مورچے بنائے ہوئے ہیں‘ کے خلاف جلد از جلد کارروائی کی جائے، اب وہ مشرف کو مجرم اور اُن انتہا پسندوں کو شہدا بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ پروفیسر عالیہ علوی نے ایک اخبار میں خط لکھ کر بتایا ہے کہ وہ لال مسجد کے واقعات کی چشم دید گواہ ہے۔ اُن کے مطابق ان لوگوں نے قرب وجوار کی زندگی کو مفلوج کر رکھا تھا۔ یہ واقعہ صرف چھ سال پہلے پیش آیا تھا اور سب نے ٹی وی پر دیکھا تھا کہ یہ کارروائی کس طرح ہوئی۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ عوامی حافظے سے سب کچھ اتر چکا ہے۔ کیا ہم ریاست کو انتہا پسندوںکے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتے ہیں؟ اب حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت پر آنسو بہائے جا رہے ہیں اور بعض لوگوں نے تو اُسے شہید کا درجہ دے دیا ہے۔ وہ شخصیت، جس کے ہاتھ پر ہزاروں شہریوں کا خون ہے، جس نے بے شمار سکیورٹی کے جوانوںکو ہلاک کیا، جس نے ملالہ پر گولی چلانے کا حکم دیا اور جو بہت دیر سے ڈرون کے Hellfire میزائل سے بچ رہا تھا، آخر اس کا شکار ہوا۔ شکر ہے کہ اس دنیا میں انصاف بھی ہوتا دکھائی دیا ہے۔ حکیم اﷲ گیا اور۔۔۔ ’’کچھ لوگ پہچانے گئے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں