سری لنکا میں ہونے والادولت ِمشترکہ کا اجلاس

میں اکثر برطانوی سیکرٹری خارجہ ولیم ہیگ سے اتفاق نہیں کرتا لیکن جب اُنھوںنے حالیہ دنوں ’’ٹیلی گراف‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں دولتِ مشترکہ کے سربراہان کے اجلاس میں برطانیہ کی شمولیت کی وجوہ بیان کیں تو مجھے اُن کے دلائل میں وزن دکھائی دیا۔ ہیگ کا بنیادی موقف یہ تھا کہ اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے۔۔۔ (جیسا کہ کینیڈا نے کیا)۔۔۔ برطانیہ‘ سری لنکا کی حکومت کے ساتھ رابطے میں نہیں رہے گا۔ اس طرح وہ صدر راجہ پاکسی پر دبائونہیں ڈال سکے گا کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کرے۔ ہو سکتا ہے کہ کینیڈا نے اخلاقی بنیادوں پر بائیکاٹ کیا ہو کہ سری لنکا میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد چار سال کے دوران تامل شہریوں کا اندھا دھند قتل کیا گیا، لیکن سفارت کاری کے عملی تقاضوں کے مطابق بائیکاٹ‘ مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ اس کی بجائے اعلیٰ سطح پر روابط رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ سری لنکا میں ہونے والی کانفرنس کا اخلاقی بنیادوں پر بائیکاٹ کرتے ہوئے برطانیہ اپنے لیے داد و تحسین حاصل کرسکتا تھا لیکن اس نے اس کے برعکس فیصلہ کیا۔ ا ب جبکہ اجلاس ہونے میں کچھ دن رہ گئے ہیں، بھارت ابھی تک اس الجھن کا شکار ہے کہ وزیر ِا عظم من موہن سنگھ سری لنکا جائیںیا نہ جائیں۔ وزیر ِدفاع اے کے انتونی اور وزیرِ خزانہ پی چدمبرم کے علاوہ بہت سے تامل سیاست دان ڈاکٹر سنگھ کے اس اجلاس میں شرکت کی مخالفت کررہے ہیں جبکہ وزیرِ تجارت اس کے حق میں ہیں۔ تاہم، جیسا کہ ہوتا ہے، حتمی فیصلہ سونیا گاندھی ہی کریں گی۔ بھارت میں ہونے والی اس بحث میںداخلی سیاسی محرکات کارفرما ہیں۔ وہاں اگلے سال پارلیمانی انتخابات ہونے جارہے ہیں اور امکان ہے ان میں حریف جماعتوں میں کانٹے کا مقابلہ دیکھنے میں آئے گا؛ چنانچہ کانگرس اپنے تامل ناڈو کے اتحادیوں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیںلے سکتی۔ تامل ناڈو کے لوگ اس بات پر سخت غصے میں ہیںکہ جنگ کے خاتمے کے بعد ان کی نسل کے افرا د کو سری لنکا میں بدترین ریاستی تشدد کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ تاہم وہ بھول گئے ہیںکہ یہ علیحدگی پسند تامل ٹائیگرز ہی تھے جنھوںنے اس خونی خانہ جنگی کے آخری ایام میں ہزاروں نہتے آدمیوں، عورتوں او ر بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔جب عشروں پر محیط یہ خانہ جنگی فیصلہ کن مرحلے کی طرف بڑھ رہی تھی تو ایک موقع پر تامل ٹائیگرز ایک ایسی جگہ پر گھر گئے تھے جہاں ان کے سامنے سری لنکن فوجی دستے تھے جبکہ ان کی پشت پر سمند رتھا۔ جان بچانے کے لیے ٹائیگرز پیچھے ہٹتے گئے یہاں تک کہ سمند ر کنارے تک آن پہنچے۔ تامل جنگجو عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے تھے۔ اس وقت سری لنکن فوجی دستوںنے فائر کھول دیا جبکہ طیاروں نے بمباری بھی شروع کردی۔ حتمی تعداد تو معلوم نہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ آخری چند دن جاری رہنے والی لڑائی میں چالیس ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، اقوامِ متحدہ اور بہت سی حکومتوںکے دبائو کے باوجود سری لنکن حکومت نے مبصرین کو ان واقعات کی تحقیقات کرنے کی اجازت نہیںدی ہے۔ آج کل تامل باشندے ملک کے شمالی حصوں میں ہیں۔ انہیں شکایت ہے کہ جنگ کے بعد بھی انہیں معاشرے سے الگ رکھا جارہا ہے اوریہ کہ ان کے علاقوں میں بھاری فوجی دستے موجود رہتے ہیں۔ حالیہ صوبائی انتخابات میں ’’تامل نیشنل الائنس‘‘ نے سرکاری افسران کی مداخلت(یہ الزام تامل باشندوں کی طر ف سے لگایا گیا) کے باوجود زبردست کامیابی حاصل کر لی۔ تاہم نئی منتخب شدہ صوبائی حکومت کو بہت کم اختیارات حاصل ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پولیس اس کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر سری لنکن حکومت پر دولت ِمشترکہ کے سربراہان کے ہونے والے اجلاس کا دبائو نہ ہوتا تو ان انتخابات کا انعقاد بھی ممکن نہ تھا۔ اس اجلاس کا انعقاد کرتے ہوئے سری لنکا اگلے دو سال کے لیے دولتِ مشترکہ کی صدارت کرے گا۔ انسانی حقوق کے نمائندے اس پیش رفت کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیںکہ سری لنکن حکومت نے انسانی حقوق کی پامالی کی ہے، جو دولتِ مشترکہ کی اقدار کی خلاف ورزی ہے۔ تاہم اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب سری لنکا دوسال کے لیے دولتِ مشترکہ کی صدارت کرے گا تو اس پر یقینا دبائو بھی ہو گاکہ وہ اپنے ملک میں انسانی اورجمہوری اقدار کے فروغ کو یقینی بنائے۔ ہو سکتا ہے کہ وہاں پر راتوں رات انسانی حقوق کی صورت حال بہتر نہ ہوسکے اور نہ ہی پریس پر لگی ہوئی پابندیاں نرم ہو سکیں ، یا اپوزیشن یا عدلیہ کو آزادی سے کام کرنے کا موقع مل سکے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عالمی رہنما سری لنکا میں ہونے والے اجلاس کا بائیکاٹ کردیتے ہیں تو کیا یہ معاملات درست ہو سکیں گے؟ اس کی بجائے سری لنکن حکو مت سے روابط بڑھانا ہی بہترین عمل ہے۔ ایک اوربات، سری لنکا کو غیر ملکی سرمایہ کاری کی شدید ضرورت ہے۔ حکومت بے حد مقروض ہو چکی ہے؛ چنانچہ سرمایہ کار وہاں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ اس مالی بدانتظامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تمام امور حکمران خاندان کے ہاتھ میں ہیں۔ اب تک دیکھنے میں آیاہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ڈالا گیا دبائو کارگر ثابت نہیں ہوا کیونکہ سری لنکن حکومت اسے سازش قرار دے کر مسترد کرتی رہی ہے۔ مقامی این جی اوز اور سول سوسائٹی کے نمائندے، انسانی حقوق کی پامالی کی بات کریں، تو انہیں غیر ملکی قوتوں کا ایجنٹ قراردیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سری لنکا میں عوامی احتجاج کی روایت نہیں ہے۔ گزشتہ کئی عشروںسے پریس کو دیدہ و نادیدہ دبائو کا سامنا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے چیف جسٹس صاحبہ کو برطرف کر دیا گیا جب موصوفہ نے اپنی ’’حدود ‘‘ سے قدم باہر نکالنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ اپوزیشن رہنمائوں کو رشوت یا دھمکیوں کے ذریعے حکومت کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سری لنکا پارلیمانی جمہوریت، پریس ، عدلیہ اور سول سوسائٹی کو آزادی دینے کی بجائے شخصی آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے حلقوںکی طر ف سے مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ دولت ِ مشترکہ کے سربراہان کو سری لنکا میں ہونے والے اجلاس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ تاہم میرا خیال ہے کہ رابطے توڑ لینے کی بجائے جہاں تک ممکن ہو سکے عالمی برادری کو سری لنکن حکومت سے بات کرنے کے مواقعے تلاش کرنا چاہئیں۔ دولت ِمشترکہ کے سربراہان کا اجلاس تو کولمبو میں ہوگا جبکہ اس کے متوازی طور پر ساحلی قصبے ہیکادو (Hikkadua) میں ’’پیپلز فورم ‘‘ کا اجلاس ہو گا جس میں مختلف وفود کلچر سے لے کر سیاست تک مختلف موضوعات پر بات چیت کریں گے۔ ہو سکتاہے کہ وہاں کیے جانے والے اظہارِ خیا ل سے سری لنکن حکومت اتفاق نہ کرے اور نہ ہی اس کو پسند کرے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اس طرح کے فورم میں تنقیدی خیالات کا اظہار بھی اسی وقت ممکن ہے جب اسے غیر ملکی سرپرستی حاصل ہو۔ بہت سے لوگ دولتِ مشترکہ کے اجلاس کو’’نشستند، گفتند، برخاستند‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب دولت ِمشترکہ نے بنگلہ دیش کو فوراً تسلیم کرلیا تو بھٹو صاحب نے احتجاجاً دولت مشترکہ سے ناتا توڑ لیا تھا لیکن پاکستان کو اس کا کوئی نقصان نہیںہوا تھا۔ صرف اتنا فرق پڑا تھا کہ برطانیہ کا ویزہ حاصل کرنا یا طلبہ کے لیے دولت ِمشترکہ کے وظائف حاصل کرنا دشوار ہو گیا تھا۔ سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستان 54 ریاستوں تک اپنی آواز پہنچانے سے محروم ہو گیا تھا۔ ہم یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ اگر غیر ملکی سربراہان کولمبو چلے جائیں گے تو اس ملک کے سماجی اور سیاسی خدوخال میں کوئی انقلابی تبدیلی برپا نہیںہو گی لیکن اس امکان کو رد بھی نہیںکیا جاسکتا کہ یہاں ہونے والی گفتگو کی وجہ سے سری لنکا اپنا موجودہ راستہ تبدیل بھی کرسکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں