ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہونے والے جینوا مذاکرات کی وجہ سے محیر العقول اتحاد منظر ِ عام پر آئے ہیں۔ ایک عرب ملک اور اسرائیل نے ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیا جبکہ فرانس ، جو چھ بڑی طاقتوںمیںسے ایک ہے، نے عالمی طاقتوں کی طرح اپنے مفاد کا خیال رکھا۔ ان تینوں ممالک کی طرف سے خودغرضانہ رویے کا مظاہرہ کیا گیا۔ اسرائیل اور عرب ملک، دونوںکی خواہش تھی کہ ایران پر سخت پابندیاں ، جو اس کی معیشت کو مفلوج کیے رکھیں، عائد رہیں۔ ان پابندیوں نے نہ صرف ایران کی معیشت کو کمزور کر دیا ہے بلکہ اسے ایک مجہول ریاست بھی بنا دیا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے واشنگٹن میں اسرائیلی لابی اور نیتن یاہوسے لے کر اس کی حکومت کے نچلی سطح کے افسران تک، سب نے امریکی میڈیا پر اس طرح مہم جاری رکھی کہ کانگرس سے لے کر عام پبلک تک،کوئی بھی ان پابندیوں کو نرم کرنے کے حق میں نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیر ِ اعظم نے حالیہ جنیوا معاہدے کو ''صدی کا بدترین معاہدہ ‘‘قرار دیا ہے۔ اگرچہ مذکورہ عرب ملک نے دھیمے لہجے میں مخالفت کی ہے لیکن اس کے سفارت کارامریکی میڈیا کو متواتر بتاتے رہے ہیںکہ ایران عالمی امن کے لیے کتنا بڑاخطرہ بن سکتا ہے۔ عرب ملک نے اپنے دیرینہ اتحادی، امریکہ کی پالیسیوں سے ناراضگی کا اس وقت شدید اظہار کرتے ہوئے سکیورٹی کونسل کی نشست لینے سے انکار کر دیا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ واشنگٹن کے مشرق ِو سطیٰ سے تعلق رکھنے والے ملک امریکہ سے کیوں ناراض تھے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کا مسئلہ پُرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کررہا ہے؟اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ دونوں ایران کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان دونوں کی خواہش رہی ہے کہ امریکہ ایران کے خلا ف فوجی کارروائی کرے تاکہ یہ شیعہ ریاست کمزور ہوسکے۔ عرب ملک کو ایران پر عائد کردہ پابندیوں سے یہ مفاد تھا کہ ایرانی تیل کی برآمد پر پابندی کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت بلند سطح پر رہی ہے۔ اب پابندیاں ہٹنے کے بعد جب ایران کا تیل بھی مارکیٹ میں آجائے گاتو لازمی طور پر تیل کی قیمت کم ہوجائے گی۔ اس سے مشرق وسطیٰ کے اس عرب ملک جس کی تمام معیشت کا دارومدار تیل پر ہے، کو نقصان ہوگا۔ اسی لیے اس کی خارجہ پالیسی ایک خاص جہت پر رکھی جاتی ہے۔
دوسری طرف اسرائیل شروع سے ہی ایران کو اپنی سلامتی کے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے۔ اس سے پہلے امریکی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اسرائیل بڑی کامیابی سے عراق کی فوجی طاقت کو ختم کرچکا ہے۔ اس میںکوئی شک نہیںکہ ایران کے سابق صدر احمدی نژاد نے دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرکے اسرائیل کو بہت فائدہ پہنچایا تھا۔ اُس وقت اسرائیل دنیا کو یہ باور کراسکتا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے اس کی سلامتی کو خطرہ ہے، چنانچہ مغربی ممالک کے دارالحکومتوں میں یہی سوچ جاگزیں تھی جو اسرائیل دنیا کو بتانا چاہتا تھا۔ اس طرح سابق ایرانی صدر نے اپنے دشمن کا کام آسان بنا رکھا تھا۔ یہ بات صرف ایران تک ہی محدود نہیںہے بلکہ تیسری دنیا کے ممالک کے رہنما ایسا لب و لہجہ اختیار کرنے سے پرہیز نہیںکرتے جو کسی اور کی بجائے، ان کے اپنے مفاد کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ایران کے آیت اﷲ کی طرف سے حالیہ دنوں میں اسرائیل کے لیے نامناسب الفاظ کا استعمال کسی طور بھی درست پالیسی نہیںقرار دیا جاسکتا اور نہ ہی اس لہجے نے ان کی جنیوا میںکوئی مدد کی۔ یقینا مذاکرات کرنے والی ٹیم کے ذہن میں یہ الفاظ ہوں گے۔ ڈرون حملوںکے حوالے سے پاکستانی سیاست دان بھی بولنے سے پہلے کچھ سوچنے کے روادار نہیں ہوتے۔
مشرق وسطیٰ کے ان دونوں ملکوں کو اس پر بھی مایوسی ہوئی تھی جب صدر اُوباما نے آخری وقت پر شام کے کیمیائی ہتھیاروں پر میزائل حملے کر ارادہ بدل دیا تھا۔ اُس وقت یقینا روسی سفارت کاری کی وجہ سے متوقع حملہ رک گیا۔ موجودہ جنیوا معاہدہ بھی اُسی سفارت کاری کا ہی نتیجہ ہے۔ تاہم اس پیش رفت نے صدر اوباما کو مذکورہ دونوں ملکوں کے نزدیک ''کمزور اور ناقابل ِ اعتماد ‘‘ بنا دیا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حالیہ واقعات کے نتیجے میں فرانس اسرائیل اور اس عرب ملک کے زیادہ قریب آگیا ہے۔کچھ عرصہ پہلے Hollande نے اسرائیل سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایران کے جوہری عزائم کو دباکر رکھیںگے۔ اس کے نتیجے میں فرانس کو توقع ہے کہ وہ مشرق ِ وسطیٰ سے کچھ اچھے معاہدے حاصل کرنے میںکامیاب ہوجائے گا۔ گزشتہ کچھ سالوں سے اس نے سعودی عرب کے ہاتھ اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا ہے۔ اب بھی بہت پرکشش معاہدے دیکھنے میں آئیںگے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ فرانس کی مشرق ِ وسطیٰ کی پالیسی کی روح و رواں اپنے اسلحے کی فروخت ہی ہوتی ہے، چنانچہ اس کے موجودہ رویے پر کسی کو حیرت نہیںہونی چاہیے۔ جنیوا میں ایران کی طرف سے نرمی کا اظہار یقینا ایک اچھی پیش رفت ہے اور اس سے خطے میںجاری تنائو میںکمی واقع ہوگی۔
اسرائیل کی خواہش تھی کہ کسی معاہدے پر پہنچنے کی بجائے ایران کی جوہری تنصیبات کو فضائی طاقت سے تباہ کر دیا جائے۔ اس میں اسرائیل کو کامیابی دکھائی دے رہے تھی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ ایرانی ایک مغرور اور ہٹ دھرم قوم ہیں اور وہ اس معاملے پر لچک نہیں دکھائیں گے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ ایرانیوں کو یقینا علم ہوا ہوگا کہ ''موقع شناسی ہی دلیری ہے‘‘ اور پوری دنیا کو اپنا دشمن بنالینا کسی طور بھی دانائی نہیںہے۔ اسلامی دنیا کے لیے افسوس ناک بات یہ ہے کہ جس چیز میں ایران کا مفاد ہے، مذکورہ عرب ملک اُسے اپنے لیے نقصان دہ سمجھتا ہے۔ اس طرح اسلامی دنیا میں پائی جانے والی فرقہ واریت ان کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہورہی ہے۔ بعض عرب حکمرانوں کو خدشہ ہے کہ اہلِ تشیع چھوٹی ریاستوں ، جیسا کہ بحرین ، میں بغاوت کرکے مصر جیسی صورت ِ حال پیدا کرسکتے ہیں۔ اس سے یہ دائرہ مزید ممالک تک بھی پھیل سکتا ہے۔ ان کا مفاد اسرائیل سے مشترک ہے کیونکہ اسرائیل کو بھی حزب اﷲ سے خطرہ ہے۔ اسی طرح حماس کو بھی ایران کی حمایت حاصل ہے۔ اس لیے ایران کا کمزور ہونا اسرائیل اور عرب حکمرانوں کے مفاد میںہے۔ چنانچہ کہا جاسکتاہے کہ ایران کی موجودہ قیادت نے دانائی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنے ''دشمنوں ‘‘ کے عزائم کو ناکارہ بنا دیا ہے۔اس کے پاکستان کے لیے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوسکتے ہیںلیکن اس کے لیے ہمیں بہت سے معاملات کودرست کرنا ہے۔ درحقیقت عالمی سطح پر ہونے والی کسی بھی پیش رفت سے فائدہ اٹھانے سے پہلے پاکستان کو طالبان کے خطرے سے نمٹنا ہے۔