امریکہ پر تنقید کریں لیکن

پاکستان میں کسی کو بھی بحث میں مات دینے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ اپنے حریف پر امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا دیں۔ یہ فیصلہ کُن دائو ثابت ہوتا ہے اور اس کے بعد مزید کسی دلیل یا حقائق ثابت کرنے کی ضرورت با قی نہیںرہتی۔ چنانچہ عمران خان نے حال ہی میں پی ایم ایل (ن) پر امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ''نواز شریف کو امریکہ نے عالمی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے بھیجا ہے۔‘‘ یہ کہہ چکنے کے بعد خان صاحب نے سرشاری کے عالم میں آنکھیں بند کرلیں کیونکہ ایسے الزام کا ثبوت دینے کی مطلق ضرورت نہیںہوتی، کیونکہ دنیا کے ا س خطّے میں امریکی ایجنٹ ہونے کا الزام اپنی سند خود رکھتا ہے۔ شاید جلدی میں خان صاحب اس بات کا ذکر کرنا بھول گئے کہ امریکیوںنے میاں صاحب کو نہ صرف متعین کیا بلکہ ان کے لیے بھاری مینڈیٹ کا اہتمام بھی کردیا۔
کئی ایک عوامی جائزوں سے ظاہرہوتا ہے کہ پاکستان میں امریکہ ایک غیر مقبول ملک بن رہا ہے۔ اگرچہ دیگر اسلامی ممالک میں بھی ایسے ہی جذبات پائے جاتے ہیں لیکن پاکستان بطور ِ خاص امریکہ مخالف جذبات کا مرکز بن چکا ہے۔ یہاں جس چیز پر امریکی برانڈ ہونے کی مہر لگ جائے (جو بات بات پر لگ جاتی ہے) وہ معاشرے کے لیے قابلِ نفرت ہوجاتی ہے، اس لیے حیرت ہوتی ہے کہ عوام نے ایک ''امریکی ایجنٹ ‘‘ کو اتنے ووٹ دے دیے؟ دراصل افغانستان اور عراق میں لڑی گئی طویل اور تباہ کن جنگوں اور موجودہ معاشی بحران کے نتیجے میں امریکہ کی طاقت زوال پذیر ہونے پر عالمی سطح پر مخصوص طبقوں میں ایک طرح کی طمانیت پائی جاتی ہے۔ دنیا کی واحد سپرپاور کو مسائل میں گھرا ہوا دیکھ کر ویسی ہی خوشی ہورہی ہے جب کسی سرپھرے غنڈے کو حالات کا شکنجہ اُس کی اوقات یاددلاتا ہے تو اس کی چیرہ دستیوںکے ستائے ہوئے لوگ سکون کا سانس لیتے ہیں۔ اس دوران چین کو عالمی افق پر زور پکڑتا دیکھ کر پاکستان اطمینان کا سانس لے رہا ہے۔ تاہم ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ امریکہ بطور ایک سپر پاور اپنی حیثیت کھونے والا ہے۔ درحقیقت ملٹری ہارڈ وئیر میں امریکہ کا دور دور تک کوئی حریف نہیں۔ 
اگرچہ مسلمان امریکی قوت کو قدرے ماند پڑتا دیکھ کر خوش ہورہے ہیں لیکن اُنہیں یہ بات فراموش نہیںکرنی چاہیے کہ عالمی سطح پر کسی طاقت ور فوج کی ضرورت رہتی ہے۔ جب بوسنیا کے مسلمانوں کاسرب دستوں کے ہاتھوں قتل ِ عام ہورہاتھا تو تمام یورپ اور اسلامی دنیا بے بسی سے دیکھ رہی تھی۔ اُس وقت یہ امریکہ تھا جس نے اُس قتل وغار ت کو بند کرایا تھا۔ اسی طرح کسووو (Kosovo) کے مسلمان بھی امریکی افواج، جنہوں نے اُنہیں سربیا کے ہاتھوں سے بچایا تھا، کے ممنون ہوں گے ۔ اسی طرح قدرتی آفات کے مواقع پر امریکی افواج دنیا بھر میں خطرناک حالات سے لڑتے ہوئے مصائب کا شکار عام شہریوںکو بچاتی ہیں۔ 2004ء کے بدترین سونامی کے بعد امریکی بحری جہازوں اور ہیلی کاپٹروںنے بحر ِ ہند کے ساحلوں پر متاثرہ افراد، جن کا تعلق بہت سے ممالک سے تھا، کو خوراک اور دیگر امداد ی سامان پہنچایا۔ ابھی حال ہی میں یہ امریکی بحری بیڑا تھا جس نے فلپائن میں تباہ کن سائیکلون سے متاثرہ افراد کے لیے سینکڑوں ٹن سامان پہنچایا۔ 
اگرچہ ہم پاکستانیوں کی یادداشت اتنی قابل ِ رشک نہیںہے لیکن ہمیں شاید ابھی تک یادہوگا کہ 2005ء کے ہولناک زلزلے کے بعد امریکہ نے کس سرعت سے گھرے ہوئے افراد کی مدد کی تھی۔ چند دنوں کے اندراندر ( جب کہ ہم ابھی چندہ جمع کرنے میں ہی مصروف تھے) متاثرہ علاقوں میں ایک امریکی فوجی ہسپتال قائم کر دیا گیا اور ہیلی کاپٹروں نے بیسیوں پروازیں کرتے ہوئے عوام کی جان بچائی اور انسانی المیے کو مزید گہرا نہ ہونے دیا۔2010ء میں یہ امریکی ہیلی کاپٹر ز ہی تھے جنھوںنے سیلاب میں گھرے ہوئے بے شمار افراد کی جان بچائی تھی۔ جب ہماری افواج فضل اﷲ اور اس کے قاتل گروہ کے خاتمے کے لیے سوات میں گئیں تو امدادی اور دفاعی سامان بھیجنے میں امریکہ پیش پیش تھا۔ تاہم ہمارے ہاں پائے جانے والے قنوطی افراد، اور ان کی تعداد کم نہیںہے، یہ کہیںگے کہ امریکہ کی طرف سے دی جانے والی امداد کے پیچھے کوئی نہ کوئی خفیہ ایجنڈا ہوتا ہے، لیکن کیا کسی نے ان سے کبھی پوچھا ہے کہ آزاد کشمیر اورسندھ کے بے گھر اور قحط زدہ افراد کو مدد دے کر امریکہ کو کیا فائدہ ہوا ہے؟
اس وقت مصر میں نہایت مضحکہ خیز صورت ِ حال ہے ۔ ایک طرف اخوان المسلمون امریکہ پر تنقید کرتی ہے کہ اس نے ان کی معاونت کرتے ہوئے سرکاری فوج کے خلاف کارروائی کیوں نہیںکی ، جبکہ دوسری طرف لبرل مصری الزام لگاتے ہیں کہ امریکہ نے اس شب خون کی حمایت کیوں نہیںکی جس نے مرسی کا تختہ الٹا۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی کے بارے میں ''دی اکانومسٹ ‘‘ میں شائع ہونے والی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق دنیا میں امریکی زوال کے بارے میں پایا جانے والا تاثر درست نہیںہے۔ اس رپورٹ میں مصنف کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکہ نے دفاعی بجٹ میں خاطر خواہ کمی کردی ہے لیکن اب بھی امریکی افواج کو دنیا بھر کی افواج پر واضح برتری حاصل ہے۔ تاہم رپورٹ میں یہ بات بھی کی گئی ہے کہ امریکہ کو آئندہ جنگ کے میدان میں سوچ سمجھ کر قدم رکھنا ہوگا۔ چنانچہ جب صدر اوباما نے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو میزائل سے نشانہ بنانے سے اجتناب کیا تھا تو اس سے تل ابیب، ریاض اور واشنگٹن کے جنگجو عناصر (Hawks) کو مایوسی ہوئی تھی۔ امریکی صدر نے قوت ِ بازو کی بجائے سفارت کاری کو موقع دینا بہتر سمجھا۔ ایک مرتبہ پھرواشنگٹن نے تہران کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے انہی مذکورہ عناصر کو صدمے سے دوچار کیا۔ 
حالیہ دنوں سفارت کاری کے ذریعے عالمی معاملات طے کرنے کی پالیسی دراصل اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ہر مسئلہ فوجی طاقت سے حل نہیںہوسکتا۔ اس وقت امریکی جنرل بھی محسوس کررہے ہیں کہ لڑی گئی بہت سی جنگوں میں اُس وقت کی فوجی قیادت نے سفارت کاری کو پورا موقع دیے بغیر فوجی دستے بھیج دیے۔''دی اکانومسٹ ‘‘ ایڈمرل مولن کا حوالہ دیتا ہے۔۔۔ ''طاقت کا استعمال بہت آسان ہے ۔ یہ اتنا آسان ہے کہ یہ پہلی ترجیح بن جاتا ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اچھے مقاصد و افعال کے باوجود ہم امریکہ کے بارے میں دائمی شکوک و شبہات سے جان نہیں چھڑا سکتے۔ یہ بھی غلط نہیں کہ امریکہ کی بہت سی پالیسیاں اور کارروائیاں ہمارے شکوک کی تصدیق کرتی ہیں۔ ان میںسے سب سے بڑی امریکی کارروائی عراق جنگ تھی۔ اس میں ہونے والے وسیع جانی نقصان نے واشنگٹن کے کردار پر بہت سے سنگین سوالات اٹھا دیے۔ ابوغرائب جیل سے آنے والی تصاویر نے درحقیقت امریکہ کوعالمی برادری کے سامنے عریاں کر دیا۔ اس کے علاوہ امریکہ نہایت سنگ دل آمرحکمرانوں کی حمایت کرتا ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے وہ انسانی اقدار اور جمہوری نظریات سے صرف ِ نظر کرجاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ کے سامنے اکثر اوقات صورت ِ حال ایسی ہوتی ہے کہ اگر وہ اس میں قدم رکھے تو بھی اسے گالیاں پڑتی ہیں اور اگر اس سے اجتناب کرے تو بھی اسے برا بھلا کہا جاتا ہے۔ گزشتہ ستمبر کو صدر اوباما نے جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔'' جب امریکہ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ دنیا کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔۔۔۔ بالکل اُس وقت اس پر تنقید بھی کی جاتی ہے کہ وہ عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے کچھ نہیںکررہا۔‘‘ چنانچہ جب ہم امریکہ پر اپنی تنقید کے نشتر وا کیے ہوتے ہیں کہ وہ عالمی پولیس مین کا کردار اداکررہا ہے تو اس وقت ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کم از کم کوئی تو ہے جو دنیا میں پولیس مین کا کردار ادا کرنے کے قابل ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں