امریکیوں نے افغانستان سے افواج نکالنے کے لیے یکایک Retrograde کو بطور فعل استعمال کرنا شروع کردیا ہے ۔ اگرچہ اسے بطور فعل استعمال کرنے میں گرائمر کا کوئی اصول مانع نہیںہوتا لیکن یہ عام مستعمل نہیںہے، اور اس کی بجائے بہت سے دیگر الفاظ ، جیسا کہ Retreat اورPull out افواج کی واپسی کے مفہوم کو بخوبی ادا کرتے ہیں۔ امریکی اس لفظ کو بطور فعل استعمال کیوں کر رہے ہیں ؟اصل میں بات یہ ہے کہ Retreat اورPull Out شکست کے مترادف لگتے ہیں اور افغانستان کے حوالے سے امریکی انتظامیہ یہ تسلیم کرنے کی ہمت نہیں کرسکتی کہ وہ شکست کھا کر واپس جارہے ہیں؛چنانچہ امریکی اس ملک سے Retrograde کررہے ہیں (اس کا مطلب شکست نہیں بلکہ ترقی کے راستے سے واپسی ہے) ۔
الفاظ کچھ نہ کچھ معانی رکھتے ہیں جبکہ کچھ الفاظ دوسروں سے زیادہ بامعانی ہوتے ہیں، اس لیے ان سے ملنے والا تاثر بھی وسیع ہوتا ہے۔اسی طرحExtraordinary rendition (غیر معمولی تحقیق)کی اصطلاح اُس وقت استعمال کی جاتی ہے جب کیے جانے والے تشدد کو الفاظ کی گرد میں چھپانا مقصود ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام لوگ تشدد سے نفرت کرتے ہیں، لیکن وہ تحقیق کے خلا ف نہیں ہیں، چنانچہ ''غیرمعمولی‘‘ بھی اُنہیں معمول کی کارروائی ہی دکھائی دیتی ہے۔ الفاظ کے اسی ہیرپھیر کا سہارا لے کر دنیا بھر سے سینکڑوں افراد کو اٹھا کر خفیہ تہہ خانوں میں لے جایا جاتا ہے اور تفتیش کے نام پر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اس میں اکثر برطانوی اور امریکی ایجنٹ ملوث ہوتے ہیں یا کم از کم وہ ان سرگرمیوں سے واقف ضرور ہوتے ہیں۔ تشدد کا شکار ہونے والے بہت سے افراد کا جرائم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ ان میں سے کچھ کومحض شبے میںپکڑ لیا جاتا ہے۔ بعض اوقات کسی کو کسی اور کے دھوکے میں پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جب تک اُس کی اصل شناخت ظاہر ہوتی ہے، وہ غریب اس جہنم سے گزرچکا ہوتا ہے۔اس طرح انسانیت سوز سلوک کو الفاظ کی آڑ میں چھپانے کے لیے Extraordinary Rendition کی اصطلاح متعارف کرائی گئی ہے۔ امریکہ کی سرکاری زبان میں ایک اور لفظی ترکیب ، جو تشدد کو چھپانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، وہ Enhanced Interrogation ہے۔ اس کا مطلب ''بہت زیادہ پوچھ گچھ‘‘ہے اور ظاہر ہے کہ پوچھ گچھ کرنا ایک معمول کی کارروائی ہے، چاہے یہ Enhanced ہی کیوںنہ ہو۔
ہمارے ہاں پولیس والے بھی اس'' طرز ِ تحقیق اور پوچھ گچھ‘‘ میںدنیاکی کسی ایجنسی سے پیچھے نہیںہیں۔بعض اوقات وہ دنیا میں موجود اپنے دیگر ''ہم منصبوں‘‘ سے دو ہاتھ بڑھ کر ہوتے ہیں۔ ہمارے تھانوں میں ہونے والے تشدد کی اصلیت سے عام لوگ واقف نہیں ہوتے ، وہی جانتے ہیں،جو اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں خود کو دوسروںسے نیک یا خدا کی زیادہ مقدس مخلوق ہونے کا دعویٰ کرنے سے باز رکھنا چاہیے۔ چند سال پہلے برطانوی میڈیا نے پاکستان میں ایک برطانوی شہری پر ہونے والے تشدد کی رپورٹ پیش کی تھی۔ اس کے مطابق پاکستانی نژاد برطانوی شہری کو پاکستان کے خفیہ اداروں نے دہشت گردوںسے روابط کے الزام میں پکڑ کر ''پوچھ گچھ ‘‘ کی۔ اس کی ناخنوں کے بغیر انگلیاں اس پوچھ گچھ کے غیر معمولی ہونے کی تصدیق کرتی تھیں۔
میڈیاکا سرسری سا جائزہ بھی یہ ظاہر کر دیتا ہے کہ ارباب ِاختیار کی طرف سے الفاظ کو توڑ مروڑ کر کسی بھی صورت ِ حال کی یک طرفہ عکاسی کی جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر جب اسرائیلی فورسز کسی فلسطینی کو پکڑ لیں تو وہ'' قیدی‘‘ کہلاتا ہے لیکن اگر فلسطینی کسی اسرائیلی کو پکڑ لیں تو کہا جاتا ہے کہ فلسطینی تنظیم نے بے گناہ شہری کو ''یرغمال ‘‘بنا لیا ہے۔جب اسرائیلی فورسز فلسطینی علاقے میں جاتی ہیں تو اسے'' سرحد پار کرنا‘‘ کہتے ہیں لیکن فلسطینی ایسا کریں تو اسے ''چوری ‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ امریکہ کے اہم اخبارات میں بھی اکثر الفاظ کے ساتھ اسی طرح ہی کھیلا جاتا ہے۔ خبروں کے علاوہ ادارتی نوٹ بھی اسی طرح الفاظ سے کھیلتے ہوئے من پسند حقائق پیش کرتے ہیں۔
الفاظ اور ان سے ابھرنے والے تاثرات عوام کی رائے پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ کئی سالوں سے ہالی ووڈ کی فلموںمیں ایسے ظالم ، گمراہ اور شیطانی دہشت گردوں کو پیش کیاجارہا ہے جو وضع قطع سے عرب ہوتے ہیں۔ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ نائن الیون سے بھی پہلے انسانیت کے یہ دشمن امریکہ پر حملہ کرنے کی کوشش میں تھے لیکن سی آئی اے کے بہادر ایجنٹوںنے جان پر کھیل کر ان کو اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہونے دیا۔نائن الیون کے بعد تو فلم سازوںکو لائسنس مل گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کریں ۔ اب جبکہ ٹاور گرائے جاچکے ہیں، ان فلم سازوں کا محبوب موضوع ان دہشت گردوںکی طرف سے جوہری ہتھیاروں تک رسائی اور اُن کے ذریعے امریکہ کو تباہی سے دوچار کرنے کی کوشش ہے۔
یہ انہی الفاظ اور فلموں کی طرف سے پیش کیا جانے والے تاثر ہے جس کی وجہ سے امریکہ میں اسلام کے بارے میں منفی تاثر عام ہوا ہے۔ اسے ''اسلام فوبیا‘‘ کا نام بھی دیا گیا۔ میڈیا اور تفریحی صنعت کسی بھی گروہ کو دہشت گردبنا کر پیش کرنے کے لیے آزاد ہے۔تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ مغرب ہمارے بارے میں جو کچھ پیش کرتا ہے، ہم اپنے قول و فعل سے اس کی تصدیق کرتے رہتے ہیں۔ جب اسلامی ممالک میں پر تشدد واقعات ہوتے ہیں یا سڑکوں پر گاڑیوں کو نذر ِ آتش کیا جارہا ہوتا ہے تو ہالی ووڈ کی فلموں میں دکھائے جانے والے مناظر حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔
دیگر اقوام کو منفی انداز میں پیش کرنے کی روایت نئی نہیںہے۔ کارٹونوں کے ذریعے برائی کی طاقتوں کو اچھائی کی طاقتوںسے برسرپیکار دکھایا جاتا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران جرمن سپاہیوں کی بربریت کی کہانیاں عام تھیں۔ اُنہیں Hunکہا جاتا تھا۔ان کی طر ف سے معصوم اور نوخیز راہبائوںکی آبروریزی کی خبریں میڈیا میں ہیڈلائنز بنتی تھیں۔ اس پراپیگنڈے کا مقصد یہ تھا کہ دنیا یقین کر لے کہ جرمن انسانیت کے دشمن ہیں اور اتحادی افواج انسانیت کو بچانے کے لیے جنگ کررہی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ برطانوی اور جرمنی باشندوں کے ''کلچر ‘‘ میں زیادہ فرق نہ تھا۔ امریکہ میں کتابی کہانیوں ، کارٹونوں اور فلموں میں ریڈ انڈینز کو وحشی اور مکار بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔اس کا مقصد ان کی نسل کشی کرتے ہوئے ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے جرم کو جائزقرار دینا تھا۔ اسی طرح نوآبادیاتی دور کے مصنفین ، جیساکہ کپلنگ، کی طرف سے انگریز افسران کا ساتھ دینے والے مقامی ہندوستانیوں کو بہادر اورہیرو بنا کر پیش کیا جاتا جب کہ ان مخالفت کرنے والے مجرم ٹھہرتے۔اس دوران تعلیم یافتہ اور سوچ سمجھ رکھنے والے ہندوستانیوں کو پیش نہیں کیا گیا۔ افریقہ میں مقامی سیاہ فاموں ، جن کو آدم خور بنا کر پیش کیا گیا، کی درندگی کی داستانیں پھیلائی گئیں جبکہ بیلجئم کی طرف سے کانگو میں کیا جانے والا وحشیانہ قتل ِ عام دنیا کی نظروںسے اوجھل رکھا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم جرمن یا جاپانی ادب کا مطالعہ کریں تو اس میں اتحادی فوجی بھی اُنہی گناہوں کا ارتکاب کرتے ملیںگے جن کا الزام نازی فورسز پر لگایا جاتا ہے۔ اس طرح جنگ ،میدان کے علاوہ ذہنوںمیں بھی لڑ ی جاتی ہے۔
مسلمان ممالک میں مغربی فورسز کے لیے ''صلیبی فوج‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے کئی صدیاں پہلے ہونے والی جنگوں کی ، جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہوئیں، یاد تازہ کی جاتی ہے ۔ دراصل اس کا مقصد یہ ہے کہ مخصوص گروہ پورے عالم ِ اسلام کو عیسائی دنیا کے مقابلے پر لا کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ جارج اورول کے شاہکار ناول ''1984ء‘‘ میں یہ بات بخوبی بیان کی گئی ہے کہ کس طرح زبان کو استعمال کرتے ہوئے حقائق کو مسخ کیا جاتا ہے۔ حقیقت کی دنیا میں بھی حکومتیں مبہم الفاظ کے ذریعے عوام کو حقائق سے بے خبر رکھتی ہیں۔۔۔ اسے سیاست قرار دیا جاتا ہے ۔ زبان نے دنیا کو تہذیب دی لیکن تہذیب یافتہ اقوام زبان کو مسخ کررہی ہیں۔
آخر میں ، میں اپنے عیسائی قارئین کرام کو کرسمس کی مبارک باد پیش کرتا ہوں!