گھٹیا پن کے مختلف درجے

بدعنوانی کی تاریک دنیا میں بھی گھٹیا پن کے مختلف درجے ہوتے ہیں۔۔۔ رشوت، غبن، کمیشن‘ لیکن میرے نزدیک پینشن یافتہ افراد کی رقم پر ہاتھ صاف کرنا گھٹیا ترین فعل ہے۔ گزشتہ چند برسوںسے وہ واقعات سلسلہ وار ہمارے سامنے آرہے ہیں جنہوں نے پاکستان کے سب سے بڑے پینشن فنڈ کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ یہ ادارہ 1976ء میں قائم ہوا تھا۔ اس کا مقصد نجی شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد مالی معاونت فراہم کرنا تھا۔ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کا بہت بڑا اقدام تھا۔ اس کا مقصد اُن افراد کو تحفظ دینا تھا جو باقاعدہ ملازمت کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ اس مقصد کے لیے بتدریج ایک بہت بڑا پنشن فنڈ قائم کیا گیا۔ اس رقم سے کی جانے والی سرمایہ کاری سے ان لاکھوں مزدوروںکا چولھا جلتا تھا جو ریٹائر ہو چکے ہیں۔ 
میں نوّے کی دہائی میں عام مزدور کے لیے بہت فائدہ مند اس ادار ے میں تین سال تک مالی مشیر کے طور پر خدمات سرانجام دے چکا ہوں۔ اب اس ادارے کے بارے میں بہت سی خوفناک کہانیا ں پڑھنے کو مل رہی ہیں کہ کس طرح گزشتہ حکومت کی طرف سے لگائے گئے چیئرمین نے اس کے فنڈ سے کی گئی سرمایہ کاری میں غبن کیا۔ انہوں نے اس ادارے کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ادارے کے میرے کچھ سابق ساتھی مجھے اُن کے ''طریقِ کار‘‘ کے بارے میں بتاتے رہے ہیں کہ کس طرح بورڈ کو خوشامدی اور من پسند افراد سے بھر لیا گیا اور کس طرح اربوں روپے سے وہ جائیداد خریدی گئی جس کی مارکیٹ میں مالیت بہت کم تھی۔ مزید یہ کہ اس ادارے میں سیاسی بنیادوں پر یا رشوت لے کر بھاری تنخواہ پر نااہل افراد کو تعینات کیا گیا۔ یہ تمام افراد اس ادارے پر بوجھ ہیں۔ درحقیقت ایسے ادارے میں پیشہ ور اہل افراد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن چوردروازے سے ہونے والی بھرتیاں باصلاحیت افراد کو آگے نہیں آنے دیتیں؛ تاہم بدعنوانی سے جو پاکستان میں معمول کی بات ہے، سب کچھ ممکن ہو جاتا ہے۔
یہ کہانی اس لیے اہم ہے کہ کس طرح ملازمین کا ایک گروہ ثابت قدمی سے کھڑا ہو گیا اور نااہل اور بدعنوان افسران کے خلاف مزاحمت کی۔ اگر وہ مزاحمت نہ کرتے تو یہ ادارہ اب تک ختم ہو چکا ہوتا۔ میرے دور میں 'ای او بی آئی‘ کے ملازم مبشر علی ہوتے تھے جو قواعدوضوابط کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ وہ اصولوں پر کوئی لچک نہیں دکھاتے تھے، لیکن جب اُن سے کوئی معقول بات کی جاتی تو وہ سن لیتے تھے۔ درحقیقت ایسے افراد کی وجہ سے ہی یہ ادارہ بچا ہوا ہے۔ ایک مرتبہ جب سابق چیئرمین نے 'ای او بی آئی‘ کو ذاتی 'اے ٹی ایم‘ سمجھنے کی کوشش کی تو وزارت محنت میں جرأت نہ ہوئی کہ وہ اس بااثر شخص کو چیلنج کرے۔ اس پر مبشر علی سپریم کورٹ میں چلے گئے اور غیر قانونی تعیناتیوں اور فنڈز کی خورد برد کو چیلنج کر دیا؛ تاہم ان کی آئینی درخواست کو نظر انداز کر دیا گیا یہاں تک کہ ایک ٹی وی چینل ان کے الزامات کو منظرعام پر لے آیا؛ چنانچہ سابق چیف جسٹس نے‘ جو ان درخواستوں پر زیادہ ایکشن لینا پسند کرتے تھے جن کو میڈیا میں اجاگرکیا گیا ہو کہ ان میں شہرت کا پہلو نکلتا ہے، اس پرفوراً سوئوموٹو نوٹس لے لیا۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ پہلے ایک جائز درخواست پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تھا۔ 
اس کے بعد کچھ تکلیف دہ حقائق ہیں۔ مبشر کا کہنا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے رویے نے اُسے سخت مایوس کیا۔ اُنہوں نے کسی ذاتی مفاد کی غرض سے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا تھا بلکہ ان کے پیش نظر لاکھوں غریب افرادکا مفاد تھا لیکن بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سابق چیف جسٹس کا اُن کے ساتھ رویہ بہت ہی نامناسب تھا۔ اس کی وجہ سے ساری عدالتی کارروائی کا یہ نتیجہ نکلا کہ مبشرکو برطرف کر دیا گیا۔ اس پر بھی مبشر نے ہمت نہ ہاری اور وہ اپنے وسائل سے کیس لڑتا رہا؛ تاہم عدالت نے صرف رسمی انکوائری کا ہی حکم دیا، حتیٰ کہ موجودہ حکومت نے بھی اس ادارے میںکچھ افسران کو تبدیل کرنے کے سوا کچھ نہیںکیا۔ آج کل ظفر گوندل آزاد ہیں اور غالباً کسی سیاست دان نے اُسے پناہ دے رکھی ہے۔ اگرچہ اُس کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں لیکن ملک کی کئی ایجنسیاں اُسے گرفتار کرنے سے قاصر ہیں۔ ملک کا قانون صرف عام آدمی کو ہی گرفت میں لیتا ہے۔ 
دنیا بھر میں پنشنر حضرات کو ادائیگی ان کی ضرورت کے مطابق نہیں بلکہ سرمایہ کاری میں لگائے گئے فنڈز سے حاصل ہونے والی رقم سے کی جاتی ہے۔ اس کے لیے اوسط عمر اور افراد کی تعداد کا حساب لگایا جاتا ہے۔ اس میں یقیناً بہت پیچیدہ حساب کتاب ہوتا ہے اور اس مقصد کے لیے قابل ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، اس لیے اُنہیں بھاری تنخواہ بھی دی جاتی ہے۔ میں اس عمل کو بخوبی جانتا ہوں کہ کس طرح ہمیں ہر سال دو سال بعد ضروریات اور ادائیگی کے نئے پیمانے طے کرنا پڑتے تھے۔ 
اب جبکہ اربوں روپے گمنام سرمایہ کاری کی نذر ہو چکے ہیں، 'ای او بی آئی‘ کے مستقبل کا سوال کھڑا ہو چکا ہے۔ سابق چیئرمین نے سیاسی دائو کھیلتے ہوئے پینشن کی کم از کم رقم 3,600 روپے کر دی تھی۔ اس دوران سود کے نرخ کم ہو چکے تھے اور حکومت کی سکیورٹی کی آمدن کم ہو چکی تھی؛ چنانچہ اس سیاسی اقدام کا ادارے کو نقصان اٹھانا پڑا۔ موصوف کی سرمایہ کاری کی کہانی ایک دوست نے سنائی کہ کس طرح اُس نے لاہور کے مرکز میں واقع کچھ زمین ایک ادارے کے ہاتھ فروخت کی۔ اُس سے درخواست کی گئی کہ وہ ان کاغذات پر دستخط کر دے جن میں زمین کی مالیت خریدی گئی رقم سے بہت زیادہ بنتی تھی۔ خوش قسمتی سے اُس نے انکار کر دیا، ورنہ آج اُس کا کیس بھی نیب کے پاس ہوتا۔ اس طرح کی مالی بے ضابطگیوں میں وہ اکیلا نہیں تھا۔ سابق حکومت کے بہت سے افسران نے اسی طرح لوٹ مار کی ہے اور سپریم کورٹ کی طرف سے کیے گئے تمام تر دعووں کے باوجود کوئی بھی جیل نہیںگیا‘ اس لیے یقین رکھیں، ای او بی آئی کو لوٹنے والے بھی باعزت بری ہو جائیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں