تاریخ کا اُلجھا ہو ا باب

بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ ان پہلوئوں پر دبیز پردہ ڈال دیتی ہے جن کاتعلق ہماری روزمرہ زندگی سے ہوتا ہے۔اگر ہم جاننا چاہیں کہ جاپانی وزیرِ اعظم شینزو ایب کے اس مزارکے دورے نے، جہاں دوسری جنگ ِعظیم میں ہلاک ہونے والے بہت سے افراد دفن ہیں،چینیوں کو مشتعل کیوںکردیا توہمیں تاریخ میں واپس جانا پڑے گا۔''یاسوکنی وار شرائن‘‘ میں فوجیوں کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی دفن ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہاں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے اُن بارہ افرادکے جسم کی راکھ بھی دفن ہے جنہوںنے دوسری جنگ عظیم سے پہلے اوراس کے دوران چینیوں پرناقابلِ بیان مظالم ڈھائے تھے۔ 
جاپان نے 1931ء میںمن چوریا (Manchuria) پر حملہ کرکے اس پر قبضہ جمایا تو وسائل سے بھر پوراس چینی خطے پرانتہائی سفاک قسم کے غیر ملکی تسلط کا آغازہوا۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ یہاں ایک بفر زون قائم کرکے سوویت کمیونزم کے خلاف بند باندھا جائے گا؛ تاہم اس پرہونے والے عالمی احتجا ج پر جاپانی رہنما حیران رہ گئے۔'نیویارکر‘میں چھپنے والے اپنے ایک حالیہ مضمون میں پنکج مشراہمیں بتاتے ہیں کہ جب لیگ آف نیشنز کانفرنس میں اس حملے کو زیرِ بحث لایا گیا تو جاپانی نمائندے نے پرزور احتجاج کیا اوراسے مغرب کی منافقت قرار دے کر اجلاس سے واک آئوٹ کرگیا۔ 
اس سے پہلے چیانگ کائی شیک(Chiang Kai-Shek) کے قوم پرست اور مائو کے اشتراکی سپاہی متحد ہوکر جاپانی جارحیت کے خلاف لڑرہے تھے؛ تاہم 1927ء میں چیانگ اشتراکی سپاہیوں کے خلاف ہوگیا، ان کی باہم جنگ سے شنگھائی خون میں نہا گیااورمائوکو اپنے ساتھیوں سمیت وہاں سے یانن (Yan'an) کی طرف ہجرت کرنا پڑی(یہی سفر بعد میں عظیم لانگ مارچ کہلایا۔) 1937ء میں جاپان نے من چوریا بیس سے چین پر بھرپور حملہ کرتے ہوئے کئی شہروں پر قبضہ کرلیا۔ جاپانی فوجی دستوں کو ہدایات دی گئی تھیںکہ چینی عوام کو 'کم تر درجے کے افراد‘ قرار دے کر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔ جاپانی فوجی عام نہتے شہریوں کے جسموں پرتلوار چلانے کی مشق کرتے اور بعض اوقات سینکڑوں افراد کو اکٹھے باندھ کر زندہ جلادیا جاتا۔ اس وقت جاپانی پالیسی کو'تھری آلز‘(Three Alls)کا نام دیا گیا۔اس کا مطلب تھا ''سب کو ہلاک کردو، سب کو جلا دو، سب کو لوٹ لو‘‘ (Kill all, burn all, loot all)۔ 
ان ہولناک دنوں میں مائو یانن میں اپنے انقلابی نظریے کو تحریک بخش رہے تھے۔ جب جاپانی فورسز نے دسمبر 1941ء میں پرل ہاربر پر حملہ کیا تو امریکیوں کو اپنا مفاد اس میں نظر آیا کہ جاپانی فوجی دستے چین میں مصروف رہیں۔ سوویت یونین سے نبردآازماہٹلر کی فوج کا مفاد بھی اسی میں تھاکہ جاپانی فوج کو چین میں الجھائے رکھا جائے۔چنانچہ سوویت یونین اورامریکہ نے چیانگ کو مدد دی لیکن اتنی نہیں کہ وہ جاپانی افواج کو شکست دے کر اپنے علاقے سے نکال باہر کرے ۔آخرجاپان نے اُس وقت پرل ہاربر پر بمباری کرکے امریکہ کو جنگ میں کیوں گھسیٹ لیا جب کہ اس کی نصف ملین افواج چین میں تھیں؟ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ جب جاپان نے 1941ء میں اُس وقت فرانس کی کالونی انڈونیشیا پر حملہ کیا تو امریکہ اور مغربی ممالک نے جاپان پر معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں۔ اس سے پہلے جاپان اور امریکہ سماٹرا سے جو ڈچ کالونی تھی تیل حاصل کرتا تھا۔ تیل کے بغیر جاپان چین کے وسیع علاقے پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔ جب اُس پر پابندیاں لگائی گئیں تو اس کے پاس تیل کے صرف دو سال تک کے ذخائر تھے۔ اس کے سامنے دو آپشن تھے۔۔۔ وہ امریکہ سے مذاکرات کرے یا ڈچ ایسٹ انڈیز (موجوہ انڈو نیشیا) پر قبضہ کرلے۔چنانچہ جاپان نے امریکہ سے مذاکرات شروع کردیے۔ امریکہ نے مطالبہ کیا کہ جاپانی فورسز چین کے شہری علاقوںسے نکل جائیںلیکن جاپان کے لیے ایسا کرنا شکست تسلیم کرنے کے مترادف تھاکیونکہ اس نے کئی برسوں کی جنگ اور لاتعداد ہلاکتوںکے بعد چین کے ان علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ جس دوران جاپان کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات چل رہے تھے ، اس کے فوجی کمانڈر پرل ہاربر پراچانک حملے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔جاپانی نیوی کی ہائی کمان اس فتح کے بارے میں پرامید نہیںتھی؛ تاہم اُنہوںنے یہ محسوس کیاکہ اگرجاپانی طیارے اچانک حملہ کرکے امریکی بحری بیڑے کو شدید نقصان پہنچا دیتے ہیں اور پھر جب وہ انڈو نیشیا کے تیل کے میدانوں پر قبضہ کریں گے تو امریکی نیوی مداخلت کے قابل نہیں ہوگی۔ 
دوسری طرف جب چیانگ کو پرل ہاربر پر حملے کی اطلاع ملی تو وہ خوشی سے دیوانہ ہوگیاکیونکہ وہ سمجھ رہا تھا کہ امریکہ کی طر ف سے اسے کھلی امداد ملے گی تاکہ جاپانی فورسزکو شکست دی جاسکے لیکن امریکی بھی کچی گولیاں نہیں کھیلتے۔ چیانگ کو مجبور ہوکر اپنے دستوں کواس پوزیشن پر تعینات کرنا پڑا جو اتحادی افواج کے مفاد میں تھی لیکن چین کے لیے نقصان دہ تھی۔جاپانیوںکے ساتھ ہونے والی جنگ میں چیانگ کی قوم پرست فوج کا بھاری نقصان ہوا۔ اس کے بعد ہیروشیمااور ناگاساکی پر ایٹمی حملوںکے بعد جاپان نے ہتھیار ڈال دیے۔ اُس وقت تک مائو کے کمیونسٹ دستے اپنے آپ کو مستحکم کرچکے تھے؛ چنانچہ اُنھوںنے چیانگ کائی شیک کو شکست دے کر چین کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگرجاپان چین پر حملہ نہ کرتا تو مائوکی کمیونسٹ پارٹی فتح حاصل نہیں کرسکتی تھی۔ 
اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اس بات کی سمجھ آجاتی ہے کہ جب جاپانی وزیرِ اعظم شینزوایب نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے مزار پر حاضری دی اور انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا تو چینی اتنے مشتعل کیوںہوگئے۔ اس ضمن میں چینی اکیلے نہیں بلکہ جنوبی کوریا نے بھی احتجاج کیا کیونکہ ان کو بھی جاپانی فورسز کے ہاتھوں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جب مغربی باشندے برابری کی بات کرتے ہیں تو چینی اتنے غصے میں کیوںآجاتے ہیں یا وہ بیرونی دنیا کی اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کیوں پسند نہیںکرتے۔ وہ فوراً اُن وقتوںکو یاد کرتے ہیں جب چین بہت کمزور تھا اور وہ مغربی طاقتوں کے مقابلے میں اپنی خودمختاری کا تحفظ کرنے کے قابل نہیںتھا۔ 
چین اور اس کے معاملات کو سمجھنے کے لیے بیرونی دنیاکواس تاریخی حوالے کو مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ اب جب چین ایک عالمی طاقت ہے تو اس کے تاجراورشہری دنیا میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ان کے آبائواجداد نے صدیوں تک کمزور رہنے کی وجہ سے توہین اور تشدد برداشت کیا، آج وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ان کی طرف انگلی بھی نہ اٹھائے۔ جہاں تک جاپانی وزیرِ اعظم کا تعلق ہے،اُنہوںنے اس مزار پر دورہ کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصداس احساس کو اجاگر کرنا تھا کہ آئندہ ان کا ملک کبھی کسی کے خلاف جنگ نہیںکرے گا ؛ تاہم چینی اس وضاحت سے مطمئن نہیں ہوتے۔ اگر جاپانی رہنما واقعی یہی چاہتے ہیںجو ان کا بیان ہے تو پھر ان کو اپنے ملک کے دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیںکرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں