نج کاری ناگزیر ہے!

پاکستان کے لاکھوں افراد کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری ہے۔ لوگ مجھ سے اکثر درخواست کرتے رہتے ہیں کہ میں ان کے بیٹے یا بھتیجے کو ملازمت، خاص طور پر سرکاری ملازمت‘ دلا دوں۔ حال ہی میں کراچی میں ایک بینک میں کام کرنے والا کلرک اس وقت سخت رنجیدہ ہوا جب میں نے اُسے بتایا کہ میں اس ضمن میں اس کے بیٹے کی کوئی مدد نہیںکر سکتا۔ اس سے ایک بات کا اندازہ لگائیں کہ جب مجھ جیسے عام شخص، جس کی کوئی سرکاری یا سیاسی حیثیت نہیں، کے پاس لوگ اتنی بڑی تعداد میں درخواستیں لے کر آتے ہیں تو پھر سیاست دانوں کے سٹاف کے پاس تو درخواستوںکے انبار لگ جاتے ہوںگے۔ اب یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سیاست دان عوام کو یکسر رد بھی نہیں کر سکتے، کیونکہ اگر انہوں نے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے ہیں تو وہ عوام کی ایک بڑی تعداد کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے؛ چنانچہ ہمارے منتخب شدہ نمائندوں کا سب سے بڑا کام یہی ہے کہ وہ اپنے ساتھی وزرا اور سرکاری افسران کو جیسے تیسے قائل کریں کہ وہ ہر سال کم و بیش تیس لاکھ پاکستانی نوجوانوں (بیروزگاروںکی پہلے سے موجود تعداد میں ہر سال اتنا اضافہ ہو رہا ہے) کے لیے کسی نہ کسی ملازمت کا بندوبست کریں۔ 
حکومت ملازمت کے مواقع کیسے پیدا کرے؟ صنعتی اقوام کا اختیار کردہ راستہ ملک میں سکیورٹی اور امن و امان کی صورتحال یقینی بنانا، انفراسٹرکچر کو ترقی دینا اور دیگر اقوام کے ساتھ کاروباری شراکت داری کا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے باصلاحیت قانون سازوں، جج صاحبان اور سرکاری افسران کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن خاطر جمع رکھیں، پاکستان میں یہ عوامل موجود نہیں۔ ان حالات میں سیاست دان اپنے حلقے کے لوگوں کے لیے ملازمت کے مواقع کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ لے دے کے ان کے پاس ایک ہی آپشن رہ جاتا ہے (جس پر گزشتہ کئی عشروںسے کامیابی سے عمل جاری ہے) کہ وہ سرکاری اداروں اور سٹیٹ انٹرپرائزز (وہ ریاستی شعبے جو کمرشل بنیادوں پر چلائے جاتے ہیں) کو غیر ہنرمند اور نیم تعلیم یافتہ افراد کی کھیپ سے بھر دیں۔ پی آئی اے‘ پاکستان سٹیل ملز اور اس طرح کے دیگر اداروں میں ایسا ہی ہوا۔
''ای او بی آئی‘‘ (صنعتی مزدوروں کو پنشن دینے والا ادارہ) کو بھی اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ سینکڑوں افراد نے اس میں ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے اس کے سابق چیئرمین کو مبینہ طور پر رقوم ادا کیں۔ میں اس سکینڈل کے بارے میں کافی کچھ جانتا ہوں۔ اس کی ایک وجہ تو میڈیا کوریج ہے اور دوسری یہ کہ میں بھی اس ادارے میں کام کر چکا ہوں اور اس میں موجود میرے سابق ساتھی مجھے یہاں پنپنے والی ہوشربا بدعنوانی سے باخبر رکھتے ہیں۔ 
سرکاری اداروں کے پاس محدود تعداد میں ملازمتوںکے مواقع ہوتے ہیں۔ ان کے لیے اُنہیں مخصوص بجٹ فراہم کیا جاتا ہے‘ لہٰذا وہ ضرورت سے زیادہ سٹاف کو بھرتی نہیںکر سکتے، لیکن سٹیٹ انٹرپرائزز کے پاس زیادہ لچک اور وسائل ہوتے ہیں، اس لیے وہ زیادہ بڑی تعداد میں افراد کو ملازمتیں فراہم کر سکتے ہیں۔ بے روزگار افراد ایسے اداروں میں کسی اہم شخصیت کی خوشنودی حاصل کر کے ملازم ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں پیسے بھی دینے پڑ سکتے ہیں اور کسی کی سفارش بھی درکار ہو سکتی ہے۔ چونکہ یہ صورتحال اہم سیاسی شخصیات کے لیے منافع بخش ثابت ہوتی ہے، اس لیے زیادہ تر سیاست دان نج کاری کی مخالفت کرتے ہیں۔ برسہا برس سے ہر سال اربوں کے خسارے میں جانے کے باوجود پی آئی اے، ریلوے اور سٹیل ملز جیسے اداروں کو بھاری امدادی پیکج دے کر زندہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان رقوم کے باوجود ان کی کارکردگی میں بہتری کے کوئی آثار ہویدا نہیں‘ لیکن سیاست دان ان کی نج کاری کے خلاف ہیں۔ صورتحال کی خرابی کی سب سے بھاری ذمہ داری پی پی پی پر عائد ہوتی ہے۔ اس کی بانی قیادت نے ستر کی دہائی میں نجی شعبے میں لگائے گئے صنعتی یونٹس، جن میں بعض اتنے چھوٹے تھے جیسے چاول صاف کرنے والی مشینیں، کو قومی تحویل میں لینے کا انتہائی غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ اس سے ان یونٹس کا جو حشر ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ اب یہ جماعت نج کاری کی اس بنیاد پر مخالفت کرتی ہے کہ اس عمل کے ذریعے لاکھوں افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔ 
درحقیقت سرکاری انٹرپرائزز کا کام ملازمتیں فراہم کرنا نہیں بلکہ وہ کمرشل خدمات سرانجام دینا یا اشیا فراہم کرنا ہوتا ہے‘ جو نجی شعبے کے بس میں نہیں۔ اس طرح یہ پالیسی دراصل ریاست کی طرف سے ان امور میں معاونت کے مترادف ہے‘ جن کی تکمیل کے لیے نجی شعبے کے پاس وسائل اور تکنیکی مہارت کی کمی ہوتی ہے یا پھر وہ بوجوہ اس میں داخل نہیں ہونا چاہتا۔ جب حکومت نے پی آئی اے قائم کی تو ملک کے کسی سرمایہ دار کے پاس ایک جدید ایئرلائن کو چلانے کے لیے مناسب وسائل یا مہارت نہیں تھی‘ لیکن جب یہ ادارہ چل پڑا تھا تو پھر ریاست کو پیچھے ہٹ کر اسے منافع میں فروخت کر دینا چاہیے تھا۔ پاکستان سٹیل ملز بھی ایسی ہی مثال ہے۔ ستر کی دہائی میں ایسے عظیم پروجیکٹ کے لیے یقیناً بہت بھاری سرمایہ کاری اور انجینئرنگ کی مہارت درکار تھی، اس لیے نجی شعبہ ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ حکومت نے یہ ادارہ قائم کیا اور پھر غلطی یہ کی اسے جنرلوں اور سرکاری افسران سے بھر دیا یہاں تک کہ یہ مارکیٹ میں مسابقت کرنے کے قابل نہ رہا۔ مشرف دور میں اس کی نج کاری کی کوشش کی گئی‘ لیکن سابق چیف جسٹس نے اس عمل کو بہت کمزور بنیادوں پر روک دیا۔ اس کے بعد سے یہ ادارہ قومی دولت کے اربوں روپے ہڑپ کر چکا ہے۔ ہے کوئی کسی کو پوچھنے والا؟ 
سوویت یونین کی تباہی ریاست کی طرف سے ہر شعبے کو اپنے ہاتھ میں لینے کے انجام کی بھیانک مثال ہے۔ سرکاری افسران کو یقیناً مارکیٹ کے تقاضوں کا علم نہیںہوتا، اس لیے وہ غیرحقیقی اہداف طے کر لیتے ہیں اور پھر ان کے مینجرز غیرمعیاری اشیا تیار کرتے ہوئے وہ ہدف حاصل کر لیتے ہیں۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اکثر احباب چین کی مثال دے کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس نے معیشت پر سرکاری کنٹرول کی وجہ سے زبردست ترقی کی، لیکن ایسا کہتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ چین کی ترقی کا راز اس کے نجی شعبے میں ہے جبکہ حکومت کی پالیسیاں صرف نجی شعبے کے لیے مواقع پیدا کرتی ہیں۔ 
نواز شریف ہمارے ملک کے سب سے زیادہ کاروباری سوچ رکھنے والے وزیر اعظم ہیں۔ انہوں نے ہی نج کاری کا عمل شروع کیا۔ میں سرمایہ دارانہ نظام کا مداح نہیں‘ لیکن حقیقت پسندی سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ سرمایہ دار افراد اور گروپ ریاست کی نسبت کمرشل اداروں کو بہتر انداز میں چلاتے ہیں۔ نجی شعبے میں ہونے والا نقصان اس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ سرکاری شعبے میں ہونے والے نقصان کو ٹیکس دہندگان کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس وقت سرکاری اداروں کی سانسیں بحال رکھنے کے لیے ٹیکس دہندگان سے حاصل ہونے والے محصولات سے بھاری رقوم دی جا رہی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہی رقم تعلیم اور صحت پر خرچ کی جا سکتی تھی۔ چونکہ بینک ریاست کے کنٹرول میں ہوتے ہیں، اس لیے وہ بھی خسارے میں جانے والی انٹرپرائزز کو قرضہ دے دیتے ہیں۔ یہ رقم نجی شعبے کو بھی دی جا سکتی تھی اور وہاں سے ملازمتوںکے زیادہ مواقع پیدا ہو سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ چند ہزار افراد کو ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے علاوہ ریاست کی طرف سے کاروبار چلانے کی پالیسی کا کوئی مقصد نہیں۔ اس سے تو بہتر ہے کہ ان افراد کو گھر بیٹھے تنخواہ دے دی جائے تاکہ وہ مزید نقصان نہ کرنے پائیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں