حکومت کے لیے سفید پروں کا تحفہ

میں میاں نواز شریف اور عمران خان کو سفید پر بھیجنے کا سوچ رہا تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد سے سفید پر بزدلی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ وہ نوجوان جو اپنے وطن کے دفاع کے لیے اپنے دشمنوں کے خلاف نبرد آزما ہونے کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے، اُن کو بزدلی کے طعنے کے طور پر سفید پر پیش کیے جاتے تھے۔ روایتی طور پر ہمارے معاشرے میں چوڑیاں پہننے کو بزدلی کے طعنے کے طور استعمال کیا جاتا ہے ؛ تاہم جب میں نے دیکھا کہ طالبان کے خلاف حکومت کے لہجے میں کچھ تبدیلی آرہی ہے تو میں نے تحفہ بھیجنے کا ارادہ موخر کردیا۔گزشتہ کئی ماہ سے بے گناہ شہری دہشت گردی کے عفریت کی بھینٹ چڑ ھ رہے ہیں جبکہ ارباب ِ اقتدار کی طرف سے خالی وعدوں کے ساتھ مگرمچھ کے آنسو بہانے کا سلسلہ جاری ہے ، لیکن نہ تو یہ آنسو دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک ہوجانے والوںکے لواحقین کے غم کا مداوا کرپاتے ہیں نہ ہی دہشت گردوں کی درندگی کم کرسکتے ہیں۔ قتل وغارت بلاروک ٹوک جاری ہے اور قوم سیاست دانوں کی طرف دیکھ رہی ہے جو قاتلوں سے (جنہیں اب اسٹیک ہولڈرز کہا جاتا ہے) رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں۔اس صورت حال میں دہشت گرد جو شرائط چاہیں منوا سکتے ہیں۔ 
اسلام آباد میں افغانستان کی سکیورٹی کے حوالے سے ہونے والی ایک حالیہ کانفرنس میںمختلف مقررین نے یکے بعددیگرے ایک ہی لَے کا الاپ جاری رکھا کہ قاتلوںکے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔اس دوران ، جب سیاست دان اور مذہبی رہنما ان سے مذاکرات کے لیے بے چین ہورہے ہیں، وہ معصوم شہریوں اور سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں پر حملوں میں ذرہ برابر کمی لانے کے لیے تیار نہیں ہورہے جس سے ان کی بے خوفی اور ڈھٹائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ 
اس عالم میں کہ جب سیاست دان گھٹنے ٹیک چکے ہیں، صرف وہ فوج ہی ان کے خلاف لڑنے کا عزم ظاہرکرکے عوام کے دل میں امیدکی کرن روشن کر سکتی ہے جسے خوددہشت گردوںکے ہاتھوں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے ۔ حال ہی میں جب شمالی وزیرستان پر پاک فوج کے فضائی حملے میں درجنوں ملکی و غیر ملکی دہشت گرد ہلاک ہوئے تو پی ٹی آئی کی ترجمان شیریں مزاری نے سوال اٹھایاکہ حملہ کرنے سے پہلے شہریوں کو خبردار کیوں نہ کیا گیا؟کیا محترمہ مزاری یہ چاہتی ہیں کہ فوج بمباری کرنے سے پہلے وارننگ جاری کرکے دہشت گردوں کو بھاگ جانے کا موقع فراہم کرتی؟اسی کج فہمی کی وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنے پڑر ہے ہیں! حقیقت یہ ہے کہ جنگوں میں خون بہتا ہے اور عام شہری جو جنگ کا حصہ نہیں ہوتے، کراس فائرنگ کی زدمیں آجاتے ہیں۔اس سے خانہ جنگی مزید ہولناک ہوجاتی ہے کیونکہ دہشت گرد عام شہری لباس میں ہوتے ہیں اور یہ تعین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ عام شہری کون ہے اور جنگجو کون۔ اسلام آباد کانفرنس میں ''بابائے طالبان ‘‘ کا لقب پانے والے مولانا سمیع الحق نے کہا کہ فوجی کارروائی کے نتیجے میں پانچ لاکھ کے قریب افراد نقل مکانی کرنے مجبور ہوجائیںگے اوراس طرح طالبان جنگجو بھی عام شہریوں کے روپ میں ملک بھر میں پھیل جائیںگے۔ میں مولانا کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے سوچتا ہوں کہ ہم جو اتنی دیر سے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے حیل و حجت سے کام لے رہے ہیں، شاید اس کے پیچھے یہی ذہنیت کارفرما ہے۔گزشتہ حکومت بھی تمام تر دعووں کے باوجود طالبان سے نمٹنے کے لیے سیاسی طور پر قومی اتفاق ِ رائے کی ضرورت کا رونا روتی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ نہ تو کامل اتفاقِ رائے مل پائے گا اور نہ ہی کوئی سخت اقدامات کرنے کی نوبت آئے گی۔ 
ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہماری روایتی جنگوں کے لیے تیار کردہ فوج ، چند ایک یونٹس کو چھوڑ کر، دہشت گردوںسے لڑنے کے لیے خاطر خواہ تربیت کی حامل نہیں ہے۔ ہماری فوج کا ہارڈ ویئر، جیسے توپ خانہ،گن شپ ہیلی کاپٹرز اور جنگی طیارے ہدف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ نہیں بنا سکتے۔ درحقیقت ہمارے پاس ڈرون جیسا کوئی انٹیلی جنٹ ہتھیار نہیں ہے جو اپنے ہدف کی شناخت کرتے ہوئے اسے ٹارگٹ کرسکتا ہو۔ ایک اور بات بھی یادرکھنے کی ہے کہ طالبان کوئی وردی نہیں پہنتے، وہ مقامی سول آبادی میں آسانی سے گھل مل جاتے ہیں۔ لوگ بھی ان سے اتنے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ وہ ان کی نشاندہی نہیںکرتے ؛ چنانچہ یہ خطرہ اپنی جگہ موجود رہتاہے کہ اگرفاٹا میں ان انتہا پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کی جاتی ہے تو وہ آسانی سے پشاور، اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں شہری آبادی میں گم ہوجائیںگے۔ اس وقت شمالی وزیرستان سے مہاجرین کی آمدکا سلسلہ شروع ہوچکاہے اور کون جانتا ہے کہ ان میں طالبان کے کتنے جنگجو شامل ہیں۔ 
دراصل ملک کے لیے یہ صورت ِ حال انتہا ئی گمبھیرہوچکی ہے۔ کراچی میں پشتون افراد کے آباد ہونے سے طالبان کی شدید مخالف ایم کیو ایم پہلے ہی نالاں رہتی ہے، اس لیے وہ مزید افراد کو وہاں بطور مہاجر آباد کرنے کے حق میں نہیں ہے ۔ ملک کے اس اہم ترین شہر میں آبادی کا تناسب ایم کیوایم کی منشا کے خلاف بگڑ رہا ہے۔ فاٹاسے بے گھرہونے والے افراد کے لیے پہلی منزل پنجاب ہوگا۔ اس کے علاوہ جیسے ہی فاٹا میں ہونے والی ہلاکتوں کی خبریں اور تصاویر آنا شروع ہوئیں ، ہمارے ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں کئی بقراط فوجی ایکشن کے خلاف چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھالیںگے(دہشت گرد پچاس ہزار افراد کو ہلاک کردیں تو ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔)
2007 ء میں اسلام آباد کی لال مسجد میںکیاگیا آپریشن عوام کی یادسے محو نہیں ہوا حالانکہ اس آپریشن میں مسلح انتہا پسندوں اور سکیورٹی اہل کاروں سمیت صرف بانوے افراد ہلاک ہوئے تھے۔اسی سے اندازہ لگائیں کہ شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف ہونے والا متوقع آپریشن کتناخونی ہوگا۔ اس میں ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ سکتی ہے۔ لال مسجد اور فاٹا میں ایک مماثلت بھی ہے۔۔۔ جس طرح حکام نے چشم پوشی کرتے ہوئے اسلام آباد کے مرکز میں واقع لال مسجد میں انتہا پسندوں کو قدم جمانے کاموقع دیا، اسی طرح ہم نے کئی عشروں تک فاٹا کو نظر انداز کرتے ہوئے اس میں ہر قسم کے انتہاپسندوں کو ٹھکانے بنانے کی اجازت دی۔ اس کے علاوہ انتہا پسند اکثر عام شہریوںکو بطور ڈھال استعمال کرتے ہیں۔ ان کی سفاکیت کی انتہا یہ ہے کہ وہ جس گائوں پرقابض ہوتے ہیں،اس سے عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں نکلنے دیتے تاکہ سکیورٹی فورسز ان پر بمبار ی نہ کرسکیں۔ لال مسجد میں بھی انتہا پسندوں نے اسی طرز ِعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدرسے کے طلبہ اور طالبات کو بطور ڈھال استعمال کیاتھا۔ ہمیں آپریشن کا مطالبہ کرتے ہوئے ان تلخ حقائق کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ دوسری جانب،آپریشن نہ کرکے بھی ہم پچاس ہزار کے قریب ہلاکتیں برداشت کرچکے ہیں۔ فی الحقیقت ،کسی بھی جنگ میں عوام کو ہلاکتوںکے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اگر حکومت نے قدم پیچھے ہٹانے کی پالیسی جاری رکھی توپھر میں اسے سفید پربھیجنے پر مجبور ہوجائوں گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں