عرفیت میں کیا رکھا ہے

کہا جاتا ہے کہ عرفیت میں کیا رکھا ہے، اہمیت تو نام ہی کو حاصل ہوتی ہے؛ تاہم جب عرفیت ''طالبان خان‘‘ ہو تو پھر نام میں کیا رکھا ہے؟ جس ستم ظریف نے خان صاحب کو اس عرفیت سے نوازا، اس کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ یہ تیر نیم کش کس قدر درست نشانے پر بیٹھے گا اور جو بات وہ شاید طنزیہ کہہ رہا ہے، ایک دن حقیقت بن جائے گی۔ 
تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے پی ٹی آئی کے سربراہ کو اپنی مذاکراتی ٹیم میں شامل کرنے کا اعلان دراصل خاں صاحب کی اپنے مقاصد کی حمایت کے لیے پوری تندہی سے انجام دی جانے والی طویل خدمات کا ادنیٰ سا اعتراف ہے، لیکن ان کے انکار پر طالبان کے دل ٹوٹ گئے ہوں گے۔ طالبان کے ایک ترجمان نے افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو ان کے اچھے کاموں کی وجہ سے نامزد کیا گیا۔ یہ اچھے کام کیا ہیں؟ سب سے پہلا کام، جس نے طالبان کے دل جیت لیے، یہ ہے کہ ان کی طرف سے کیے گئے خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں پاکستان کے عام شہریوں اور سکیورٹی فورسز کے جوانوں کا خون بہایا گیا لیکن خاں صاحب نے کبھی آدھی زبان سے بھی ان کی مذمت نہیںکی بلکہ دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کے فوراً بعد وہ امریکی ڈرون حملوں (وہ واحد ہتھیار جس سے طالبان ڈرتے ہیں) کی مذمت کا راگ الاپنے لگتے۔ بھلائی کا دوسرا کام ان کی جماعت کی طرف سے خیبر پختونخوا‘ جہاں ان کی حکومت ہے‘ میں نیٹو کنٹینرز کو روکتے اور پاکستان کے معاشی مفاد کے سینے پر مونگ دلتے ہوئے طالبان کو مشکور کرنا ہے۔ 
عمران خان طالبان کی حمایت میں یکسو ہوں تو ہوں، دیگر معاملات میں ان کی کنفیوژن دیدنی ہوتی ہے۔ چند دن پہلے جب خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت نے پشاور یونیورسٹی میں ملالہ یوسف زئی کی کتاب کی تقریب رونمائی روک دی تو عمران خان نے اس پر حیرت اور افسوس کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا کہ اس تقریب کی اجازت نہ دینے کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے؛ تاہم انہوں نے اپنے وزرا کو تقریب کے انعقاد کا حکم دینے کی بجائے صرف ٹوئٹر پیغام کو ہی کافی سمجھا۔ ذرا تصور کریں کہ پی ٹی آئی ایک قومی سطح کی جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن اس کا طالبان کے حوالے سے موقف اس کے اپنے قومی اور سیاسی منشور کی نفی کرتا ہے۔ یہ جہادی تنظیمیں خواتین کو گھروں میں قید رکھنا، مخالف فرقے والوں کو قتل کرنا اور اقلیتوںکے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں کا سا سلوک کرنا روا سمجھتی ہیں‘ اس کے باوجود طالبان کو خاں صاحب کی غیرمشروط حمایت حاصل رہتی ہے تو پھر یہ ستم رسیدہ لوگ پی ٹی آئی کی حمایت میں ووٹ کیسے ڈال سکتے ہیں؟
کئی برسوں سے پی ٹی آئی کے سربراہ کا تقاضا ہے کہ طالبان سے بات چیت کی جائے؛ تاہم اس ضمن میں وہ اکیلے نہیں بلکہ دائیں بازو کی تمام جماعتوں کے پاس ''سارے مسائل کا ایک ہی حل‘‘ یہی رہا ہے۔ اس دوران تحریک طالبان پاکستان نے ہمیشہ مذاکراتی میز پر بیٹھنے سے انکار کیا۔ ہاں، یہ اور بات ہے کہ گاہے بگاہے وہ بات چیت کرنے کے بہانے جنگ بندی کرکے سیاسی اور عسکری طور پر اپنے قدم جمانے کے لیے کچھ وقت نکال کر خود کو مضبوط کر لیتے ہیں اور تاحال ان کی یہ جنگی حکمت عملی خاصی کامیاب رہی ہے۔ اس کے بعد وہ خود ہی نام نہاد معاہدے کو توڑتے ہوئے خود کش حملے کرکے پاکستانیوں کا خون بہاتے ہیں۔۔۔ اور مذاکرات اپنی جگہ لیکن چالیس ہزار سے زائد پاکستانیوں کے خون سے لکھی ہوئی اس سفاک سچائی کو کون طالبان یا ان کا کوئی حامی جھٹلا سکتا ہے؟ اس مرتبہ دہشت گردوں نے پشاور میں دو دھماکے اُس وقت کیے اور بہت سے افراد کو ہلاک اور زخمی کر دیا جب دونوں ٹیمیں پُرامن مذاکرات کے لیے اسی شہر میں موجود تھیں۔ 
طالبان کی ٹیم کے دو ارکان‘ مولانا سمیع الحق (جنہیں بابائے طالبان کہا جاتا ہے) اور مولانا عبدالعزیز (لال مسجد اور کالے برقعے والے) نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ طالبان شریعت کے نفاذ کے سوا کسی معاملے پر راضی نہیں ہوں گے۔۔۔ اور ایسا ملک کے آئینی ڈھانچے کو ختم کیے بغیر نہیںکیا جا سکتا۔ اگر طالبان کی یہ شرط بغیر کسی ابہام کے سب کے سامنے ہے تو پھر مذاکرات کس بات پر ہو رہے ہیں؟ اگرچہ وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ مذاکراتی ٹیم کو ''مکمل اختیار‘‘ حاصل ہو گا لیکن میرا نہیں خیال کہ اس ٹیم (یا کسی بھی ٹیم ) کے پاس ایسا کوئی اختیار ہے کہ وہ ریاست کو طالبان کے حوالے کر دے۔ اگر حکمران جماعت ایسا کرنا بھی چاہے تو آئین کو تبدیل تو کجا، اس میں ترمیم کرنے کے لیے بھی اس کے پاس دوتہائی اکثریت نہیں۔ طالبان کا دوسرا مطالبہ ان کے قیدیوں کی رہائی اور قبائلی علاقوں سے فوجی دستوں کی واپسی ہے۔ ان دونوں مطالبات کو، یا ان میں سے کسی ایک کو، تسلیم کرنا پاک فوج‘ جو اس جنگ میں بہت سا خون دے چکی ہے، کے لیے ممکن نہ ہو گا۔ اگرچہ اس وقت یہ خاموش ہیں لیکن جب ان کے قاتل کھلے عام گلیوں اور بازاروں میں گشت کرتے ہوئے ان کے زخموں پر نمک چھڑکیں گے یہ ناقابل برداشت ہو گا۔ فاٹا سے افواج کی واپسی کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ ریاست نے قدامت پسندوں کے گروہوں، جو ہمیں قدیم دور میں واپس لے جانا چاہتے ہیں، کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اگرچہ عوام کی یادداشت قابل رشک نہیں ہوتی لیکن یہ زیادہ دیر کی بات نہیں جب افغان طالبان نے افغانستان میں اسلامی امارت قائم کر رکھی تھی تو اس میں اُن خواتین‘ جو طبی علاج کے لیے کسی مرد ڈاکٹر کے پاس جاتیں (خواتین ڈاکٹر تو طالبان کے ہاں ہو نہیں سکتیں کیونکہ وہ خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں) یا جن کے چہرے کا ایک انچ بھی ننگا ہوتا، کو لٹا لٹا کر کوڑے مارے جاتے اور لڑکوں کو تعلیم کے نام پر صرف مذہبی کتب کا رٹا لگانے کی اجازت تھی۔۔۔ لڑکیوں کو اس ''تعلیم‘‘ کے لیے بھی سکول جانے کی اجازت نہ تھی۔ 
کیا ہم اس قسم کا پاکستان چاہتے ہیں؟ کئی سالوں سے تحریکِ طالبان پاکستان ایک طے شدہ منصوبے کے تحت تعلیمی اداروں، خاص طور پر وہ جہاں لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی تھیں، کو تباہ کر رہی ہے۔ وہ ویڈیو کی دکانوں اور وہ سیلون‘ جو مردوں کی شیو کی جسارت کریں‘ کو بموں سے اُڑا دیتے ہیں؛ چنانچہ کسی کو ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ جب وہ ریاست کا اختیار سنبھالیں گے تو پاکستانیوں کے ساتھ کیا ہو گا۔ اور پھر ہمارے پاس تو وادیِ سوات کی مثال بھی موجود ہے کہ جب طالبان نے مختصر مدت کے لیے اقتدار سنبھالا تو وہاں کیا ہوا تھا۔ مخالفین کو عوامی مقامات پر ذبح کیا جاتا اور ان کی سربریدہ لاشیں درختوں سے لٹکا دی جاتی تھیں۔ اس وقت سوات مولانا فضل اﷲ، عرف ملا ریڈیو، کے قبضے میں تھا اور وہی ملاّ اب ترقی پاتے ہوئے طالبان کی امارت کے عہدے پر فائز ہے۔ یہ ہیں وہ لوگ جن کے ساتھ کچھ ہم خیال مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ مذاکرات کی دہائی دینے والے ٹولے نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس معاملے پر طالبان سے بات کریںگے، لیکن میرا خیال ہے کہ اس کی ضرورت نہیں، کیونکہ ''ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟‘‘ اگر ہمارے سیاسی رہنمائوں نے جلد ہی اس خطرے کا احساس نہ کیا تو خدشہ ہے کہ بہت دیر ہو جائے گی اور اندھیرے کی طاقتیں اس ر یاست کو ہڑپ کر لیںگی۔
 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں