ہماری عالمی تنہائی اور اس کے مضمرات

ہسپتالوں میں جن مریضوں سے چھوت کی بیماری پھیلنے کا اندیشہ ہو، اُنہیں ''آئی سولیشن وارڈ‘‘ میں رکھا جاتا ہے۔ اس وارڈ میں ملاقاتیوں کا داخلہ ممنوع اور اس کا وینٹی لیشن سسٹم بھی دوسروںسے الگ ہوتا ہے تاکہ اُس بیماری کے خطرناک جراثیم پھیلنے نہ پائیں اور دیگر صحت مند افراد کو مریض نہ بنا دیں۔ اسی طرح جن ممالک سے عالمی برادر ی کو خطرہ ہو کہ وہ تشدد، عصبیت، تنگ نظری اور انتہا پسندی کے نظریات پھیلا کر دنیا کے امن کو تباہ کر سکتے ہیں، اُن کو بھی تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ دہشت گرد اور انتہائی نظریات کے حامل افراد کو ان کی جگہ پر محدود کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے‘ مبادا وہ اپنے متشدانہ نظریات کا پرچار کرتے ہوئے دنیا بھر میں خون کی ہولی کھیلتے پھریں۔ انتہاپسندی کی بیماری ختم تو نہیں ہو سکتی لیکن اسے محدود کیا جا سکتا ہے۔ 
اس وقت دنیا کے بہت سے مسلمان ممالک کو بلیک لسٹ کیا جا چکا کیونکہ دنیا انہیں انتہا پسندی پھیلانے والے مراکز کے طور پر دیکھتی ہے۔ ان ممالک کے شہریوں کے لیے دیگر مہذب ممالک کے ویزے کا حصول دشوار ہے، جبکہ دیگر ممالک کے شہریوں کو وارننگ جاری کی جاتی ہے کہ وہ ان خطوں میں سفر کرنے سے گریز کریں۔ جس دوران یہ دیوار بلند کی جا رہی ہے، ان دونوں دنیائوں کے شہریوں کے لیے ایک دوسرے کو سمجھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
مجھے دنیا کے بہت سے ممالک کا سفر اختیار کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ان کے شہر، ان کی عمارتیں، ان کے تاریخی مقامات کی سیر کی جبکہ دوران سفر مختلف ممالک کے عمدہ کھانوں کا ذائقہ چکھا اور ان کی آرٹ گیلریوں اور عبادت گاہوں کو بھی قریب سے دیکھا۔ مجھے تقریباً ہر جگہ غیر متوقع طور پر دوستی اور اپنائیت ملی حالانکہ میں اجنبیوں کے درمیان تھا۔ پاکستان میں بھی میری ملاقات بہت سے غیرملکیوںسے ہوئی اور ان میں سے کچھ میرے اچھے دوست بن گئے۔ ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔۔۔ خاص طور پر کام کرنا، چیزوں کا جائزہ لینا اور انجانے معاملات کی تفہیم کرنا۔ ان تجربات سے گزرنے کے بعد مجھے دنیا کے طور طریقوں کا علم ہونا شروع ہو گیا۔ 
جب میں اپنی زندگی، خاص طور پر اُس حصے پر جو میں نے سیروسیاحت میں گزارا، پر نظر ڈالتا ہوں تو اداسی کا احساس دل کو ڈسنے لگتا ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت کو یہ مواقع میسر نہیں۔ وسائل کی کمی کے علاوہ ملک کے خراب ہوتے ہوئے امیج کی وجہ سے ان کے لیے دیگر ممالک کے ویزوںکا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے؛ تاہم اس صف میں پاکستان اکیلا نہیں، افغانستان، صومالیہ، یمن، نائیجیریا، عراق اور شام بھی شامل ہیں۔ نہ صرف ان ممالک کے شہریوںکے لیے بیرونی دنیا کی سیاحت کے دروازے بند ہو رہے ہیں بلکہ جب تک انتہائی ضروری نہ ہو، غیرملکی بھی ان خطرناک علاقوں کا رخ نہیں کرتے۔ ان دونوں دنیائوں کے درمیان تفاوت بڑھنے سے حقیقت اور تصورات کے راستے بھی جدا ہو رہے ہیں۔ دنیا ہمیں تشدد پسند جنگجو قوم کے طور پر دیکھتی ہے جو دنیا بھر میں اپنی تنگ نظری پر مبنی نظام نافذکرنے کے لیے بے گناہ انسانوں کا خون بہانا بھی روا سمجھے۔ دوسری طرف ہم سمجھتے ہیں کہ مغرب اسلام سے خائف ہو کر یہ دیکھنے سے قاصر ہے کہ دنیا کے زیادہ تر مسلمان دہشت گردی کے حق میں نہیں، یہ صرف مٹھی بھر انتہا پسند ہیںجو خونریزی پر تُلے ہوئے ہیں؛ تاہم صرف مغربی ممالک ہی پاکستانیوں کو خود سے دور نہیں رکھتے، اگر آپ مشرق وسطیٰ کے ممالک کا سفر کریں تو آپ کو احساس ہو گا کہ عرب دنیا بھی نسل پرستی کا شکار ہے۔ اگر وہ ہمارے سبز پاسپورٹ پر مہر لگانے میں تذبذب کا شکار ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں‘ بہت سے نوجوان صومالیہ سے لے کر شام تک پھیلے ہوئے ''جہاد‘‘ میں مصروف ہیں۔ 
سوال یہ ہے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ کیا پیرس کے Louvre Museum کی سیرکرنا، لند ن کے Tate Modern جا کر پینٹنگز دیکھنا یا دنیا بھر کے کلبوں کی زندگی سے لطف اٹھانا ضروری ہے؟ اگر ہم Aegean Sea پر سے سورج کو طلوع ہوتے یا Bosporus پر غروب ہوتے نہیں دیکھیںگے تو کیا ہم غریب ہو جائیں گے؟ ان نظاروں سے محرومی ہماری زندگی میں کس کمی کا باعث بنے گی؟ اور پھر بہت سے ایسے افراد ہیں جو اپنی جگہ پر، چاہے وہ کہیں بھی ہوں، اپنے رشتے داروں اور دوستوں کے درمیان خوش رہتے ہیں اور ان کے لیے دیگر ممالک کا سفر تکلیف دہ ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے‘ میں سینئر سول سرونٹس کے ایک طائفے کے ساتھ پیرس میں تھا۔ ان کی دوست اور بیویاں بھی ان کے ساتھ تھیں لیکن میں یہ دیکھ کر سخت رنجور ہوا کہ وہ کھانا کھانے کے لیے پاکستانی ریستوران کا رخ کرتے تھے۔ 
جس دوران ہم اپنے خود ساختہ خول میں خود کو مزید بند کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، دنیا ہمیں چھوڑ کر آگے بڑھ رہی ہے۔ کوئی ہمیں اس گڑھے، جس میں ہم خود کودے ہیں، سے نکالنے کے لیے ہمارا ہاتھ تھامنے کو تیار نہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو ہمارے جراثیم، انتہا پسندی اور دہشت گردی، ان کو بھی متاثر کر دیں۔ ابھی چونکہ آغاز ہے، اس لیے ہمیں اس عالمی تنہائی کے سنگین مضمرات کا احساس نہیں ہو پا رہا۔ جب باقی دنیا ہمیں خود سے دور کرتے ہوئے انسان دوستی، علم اور آگاہی کا سفر جاری رکھے گی، ہم مزید جہالت، عدم برداشت اور انتہاپسندی کا شکار ہوتے جائیںگے۔ جس طرح علم اور آگاہی کا سفر نہیں رک سکتا، اسی طرح جہالت اور انتہا پسندی بھی ساکن نہیںہوتے، ان کا معکوسی سفر جاری رہتا ہے۔ 
اس عالمی تنہائی کی قیمت قوم نے مجموعی طور پر بھی چکانی ہے اور افراد نے بھی۔ ہمارے طلبہ کے لیے بیرونی ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے امکانات سکڑ رہے ہیں جبکہ غیر ملکی دانشور اور ماہرین ہماری سرزمین پر قدم رکھنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ ہماری درسگاہوں، جن کے ہاسٹلوں سے القاعدہ کے دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں، یا جن میں انتہا پسندی کی ترویج کرنے والے گروہ بلاروک ٹوک اندھیرا پھیلاتے رہتے ہیں، کا معیار تعلیم برق رفتار تنزلی کا شکار ہے۔ اس تنہائی کی وجہ سے ہماری معیشت بھی سخت متاثر ہو گی کیونکہ غیرملکی سرمایہ کار اس ملک، جہاں ان کی زندگی کو خطرہ ہو، میں قدم رکھنے کا سوچ کر بھی کانوںکو ہاتھ لگائیں گے۔ اس کے علاوہ مغربی ممالک کے سرمایہ کار اُس ملک میں سرمایہ کاری کیوں کریں جہاں ان سے نفرت کی جاتی ہے؟ ہمیں عطیات دینے والوں کی اکثریت بھی مزید امداد سے کنی کترا رہی ہے۔ کھیل کود کے حوالے سے بھی معاملات انتہائی حوصلہ شکن ہیں کیونکہ کوئی ٹیم بھی پاکستان آنے کے لیے تیار نہیں۔ آخر میں اگر ہم یہ سوچیں کہ دنیا ہمدردی جتاتے ہوئے ہمارا ہاتھ تھام کر ہمیں اس گڑھے سے کیوں نہیں نکالتی تو اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کیا ہم اس سے نکلنے کے لیے تیار بھی ہیں یا نہیں۔ کیا یہ بات ہمارے ہی ملک میں نہیں کہی گئی کہ طالبان کا مطالبہ درست لیکن طریق کار غلط ہے؟ اس کے بعد مہذب دنیا کو کیا ضرورت ہے کہ ہمارا ہاتھ تھام کر ہمیں بچانے کی کوشش کرے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں