حقائق کی غیر موجودگی میں افواہوںپر ہی یقین کیا جاتا ہے۔ ملائیشین ایئرلائن کی فلائٹ MH-370 کی پراسرار گمشدگی کے حوالے سے سائبر سپیس میں ہزار ہا مفروضات گردش میں ہیں۔ اخبارات، ٹی وی اور ریڈیو غیر معمولی امکانات اور دور رس توجیہات پر مبنی رپورٹس پیش کرتے ہوئے اس کے غائب ہوجانے کے نت نئے پہلو تلاش کررہے ہیں۔ کاک پٹ میں لیکیج کی وجہ سے ہوا کا دبائوکم ہوجانے اور اس کی وجہ سے پائلٹ کے علاوہ معاون عملے کے بے ہوش ہوجانے سے لے کر غیرمرئی خلائی مخلوق کی مداخلت تک ،کسی بھی پہلوکو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جارہا۔
ہمارے ہاں بھی پراسراریت کی فضا گہری ہوتی جارہی ہے، لیکن اس کا تعلق کسی گمشدگی سے نہیں، کچھ ''ملنے‘‘ سے ہے۔ ڈالر نیچے آتے ہوئے سو روپے سے بھی کم ہوگیا۔جب ڈالر 110 روپے کا تھا تو وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے وثوق سے کہا تھا کہ وہ اسے سو روپے سے نیچے لائیںگے۔ میںنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ کیا مسٹر ڈار کے پاس ہیری پوٹرکی چھڑی ہے؟ میں اپنے طنزیہ جملے کو واپس لیتا ہوں کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے وزیرِ خزانہ واقعی جادوئی طاقتوںکے حامل ہیںکیونکہ اُنہوںنے اُس وقت ناممکن دکھائی دینے والی چیزکو ممکن کر دکھایا۔بظاہرواقعتاً وہ معاشیات کے بہت بڑے ماہر ہیں کہ جن امکانات پر ان کی نگاہ تھی، باقی لوگ ان سے لاعلم تھے۔
لیکن ٹھہریں، شنید ہے کہ روپے کی قدر میں اضافے کی وجہ سعودی عرب سے ملنے والے 1.5 بلین ڈالر ہیں جبکہ اتنی مزید رقم ملنے کی بھی توقع ہے۔ اس اطلاع کے ساتھ ہی اوپن مارکیٹ میں بھی ڈالرکا ''اتوار بازار‘‘ لگ گیاکیونکہ جن سرمایہ کاروںنے ڈالر خرید رکھے تھے‘ اسے گرتا دیکھ کر فروخت کرنا شروع کردیا تاکہ مزید نقصان سے بچ جائیں۔ جب خوشی کے ابتدائی لمحات بیت گئے تو سخت سوالات نے سر اٹھانا شروع کردیا کہ یہ معاشی معجزہ کس طرح انجام دیا گیا۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے مطالبہ کیا کہ بتایا جائے حکومت نے کس شرط پر سعودی عرب سے اتنی بھاری رقم حاصل کی؟کیا شام کے حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے عوض یہ رقم ملی؟ڈالروں کی آمد سے قبل ہم نے دیکھا تھا کہ سعودی حکومت کے بہت سے اعلیٰ عہدیدارن نے پاکستان کا دورہ کیا،اسی طرح پاکستانی آرمی چیف کا ریاض کا دورہ بھی بہت اہمیت کا حامل تھا۔ جب قومی اسمبلی میں ایک فاضل رکن نے سوال کیا کہ کیا پاکستانی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرکے سعودی عرب کی مداخلت کارانہ پالیسی کے ساتھ ہم آہنگ کیا جارہا ہے تو دفترِ خارجہ کی ترجمان خاتون نے سوال کرنے والے پر تنقید کرتے ہوئے اُنہیں سطحی ذہانت کا مالک قراردیا۔
اس خاتون سے سبق نہ سیکھتے ہوئے اوراپنی ذہانت کا مذاق اُڑائے جانے کا خطرہ مول لیتے ہوئے میں بھی یہی سوال اٹھاتا ہوںکہ کیا قوم کو بتایا جائے گا کہ ہم شام کے معاملے پر کہاں کھڑے ہیں؟اس سے پہلے تو ہماری پالیسی یہ رہی تھی کہ ہم عرب دنیا کے باہمی تنازعات میں غیر جانبدار رہتے تھے ۔ یہ ایک دانشمندانہ پالیسی تھی کیونکہ عرب دنیاکے ناختم ہونے والے جھگڑوں میں خود کو الجھا کر ہمیں فائدے کے بجائے نقصان ہوجاتا۔آج غیر جانبداری کی یہ پالیسی دیگر عرب ریاستوںکی نسبت شام کے حوالے سے انتہائی ضروری تھی کیونکہ یہاں مختلف عالمی اور علاقائی طاقتیں اپنے اپنے مقاصد کے لیے پراکسی جنگ لڑرہی ہیں اوریہ خدشہ بڑھتا جارہا ہے کہ اس ملک کی جغرافیائی سالمیت کو نقصان پہنچ جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو دل دہلا دینے والا انسانی المیہ رونما ہوگا۔ بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی مہم جاری ہے۔ بعض ممالک کو جمہوریت اور انسانی حقوق سے کوئی زیادہ سروکار نہیں، اس لیے شام میں اسد حکومت کے خلاف لڑنے والے کچھ انتہا پسند اسلامی گروہوں کو مسلح کیا گیا اور اُنہیں لاکھوں ڈالرکی امداد فراہم کی گئی۔ ا ن کے مقابلے میں چونکہ شامی فوج بھی ہتھیاروںکا بے دریغ استعمال کررہی ہے، اس لیے کوشش یہ کی گئی کہ ان جنگجوئوں کو جدید ہتھیار فراہم کیے جائیں تاکہ وہ بازی پلٹ سکیں۔ اس پس ِ منظر میں افواہ ہے کہ ایک ایشیائی ملک بھی اس اکھاڑے میں کودنے کے لیے کمرکس رہا ہے اوراس نے نہ صرف عسکری تربیت دینے والے ماہرین کووہاں بھیجا بلکہ ٹینک اورطیارہ شکن میزائل بھی فراہم کیے ۔
خداکرے کہ یہ صرف افواہ ہی ہو، لیکن اگر یہ سچ ثابت ہوئی تو پھر حالات مشکل تر ہو جائیں گے۔ ایران اور روس اسد حکومت کی پشت پناہی کرتے ہوئے اسے رقم اور ہتھیار فراہم کررہے ہیں اورایران تو ''مین پاور‘‘ بھی بھیج رہا ہے۔ روس کا یہاں نیول بیس ہے جبکہ ایران مسلکی اعتبار سے علویوں کے قریب ہے۔دوسری طرف بعض ممالک شام کی حکومت کا خاتمہ کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے۔ اس ضمن میں اسرائیل اور امریکہ ایک ہی پیج پر ہیں کیونکہ موخر الذکر دونوں ممالک کی خواہش رہی ہے کہ دمشق کی طرف سے حزب اﷲاورحماس کی مددکا سلسلہ اگر رک نہیں سکتا تو بھی کم ضرور ہوجائے۔ حال ہی میں عراقی وزیر ِ اعظم نے الزام لگایا کہ ان کے ملک میں ایک خاص مسلک کو پھیلانے کے لیے دہشت گردوںکے ہاتھ مضبوط کیے جا رہے ہیں۔
ہمارا دفترِ خارجہ یقیناً ان حقائق سے آشنا ہوگا اوراگر ہم پھر بھی اس معاملے میں شام کے خلاف کھڑے ہونے کا ارادہ کر چکے ہیں تو اس کا مطلب یہ کہ ہمیں ملک میں امن سے کوئی دلچسپی نہیں۔ حالیہ دنوں میں سرحد پر ہونے والے کچھ واقعات کی وجہ سے تہران کے ساتھ ہمارے تعلقات مکدر ہوتے محسوس ہوئے۔ اس کے علاوہ ہماری موجودہ سیاسی قیادت کے بارے میں تہران کو خدشہ ہے کہ وہ ملک میں انتہا پسندوں کو ایرانی سرحد عبور کرکے کارروائیاں کرنے سے روکنے میں سنجیدہ نہیں۔ درحقیقت ایران کی طرف سے ایک غیر معمولی دھمکی بھی آچکی ہے کہ اگراس کی سرزمین پرجنداﷲ یا کسی اورگروہ کی طرف سے حملہ ہوا تو وہ ان کے تعاقب میںسرحد بھی عبورکرسکتا ہے۔
شام میں ہونے والی خانہ جنگی میں فرقہ واریت کا عنصر سب سے نمایاں ہے اورجنگجو دستے مخالف فرقے سے تعلق رکھنے والے افرادکو چن چن کر ہلاک کررہے ہیں۔ حال ہی میں باغی دستوںسے کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ وہ علوی مسلک سے تعلق رکھنے والے درجنوں دیہاتیوں کوجن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں، یر غمال بنا چکے ہیںاور وہ ان کے بدلے اپنے اُن ساتھیوںکی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں جنہیں حکومتی فورسزکے قیدکیا تھا۔اس آتش فشاں اور فرقہ واریت کا لاوہ کسی ایک جگہ محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ تمام اسلامی دنیا میں پہلے سے موجود دراڑوںکو مزیدگہراکردے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ تمام اسلامی دنیا باہم دست وگریباں ہونے والی ہے(اور اس میںیہود وہنود یا سی آئی اے کی کوئی سازش کارفرما نہیں)۔ اپنے رہنمائوں سے استدعا ہے کہ وہ ہماری خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنے سے پہلے ان معروضات پر غور کرلیں، ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہوجائے۔