جغرافیائی حقائق اور قسمت

اگرجغرافیائی محل ِ وقوع کسی ملک کی قسمت کا تعین کرتا ہے تو اس ضمن میں پاکستان کسی حدتک خوش قسمت ہے لیکن بدقسمتی اس کا پیچھا کررہی ہے۔ ایک طرف ہم جنوبی ایشیا او ر وسطی ایشیا کے درمیان ایک فالٹ لائن پرموجود ہیں۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں صدیوں تک بیرونی افواج اور مقامی جنگجوئوں کے درمیان جنگیں ہوتی رہیں اور یہاں امن ایک خواب ہی رہا۔ اگر دوسرے زاویے سے دیکھیں تو اس کا محل ِ وقوع انتہائی اہم ہے۔ اس کی وجہ سے یکے بعد دیگرے ہماری حکومتیں مغربی ممالک اور چین کو کچھ علاقے کرائے پر دے کربھاری رقم کماتی رہی ہیں۔ 
پاکستان سرد جنگ کے زمانے کا صف ِ اول کا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ کا اہم ترین نان نیٹو اتحادی رہا ۔ ہم مغربی ممالک اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ پاکستان کے حوالے سے چین کی پالیسی اس پرانے محاورے کی روشنی میں استوار کی گئی: ''دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔‘‘چنانچہ دیکھنے میں آیا کہ جب تک بھارت اور چین کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے، چین پاکستان کی حمایت کرتا رہا۔ تاہم خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات اتار چڑھائو کا شکار رہے۔ان ممالک میں بھارت کو مستقل طور پر دشمن سمجھا گیا اورگزشتہ کئی عشرے اسی دشمنی کی نذر ہوگئے۔ یہ دونوں ممالک، جن کے درمیان تاریخ نے ایک لکیر کھینچ کر الگ کر دیا تھا، اب تک تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں جبکہ سرحد پر ہونے والی چھوٹی موٹی جھڑپوں کے علاوہ کارگل کاخونی باب بھی رقم ہوا۔دنیا کا بلند ترین جنگی تھیٹر، سیاچن کا سرد اور سفاک محاذ، پاکستانی اور بھارتی جوانوں کے لہو سے اپنی پیاس بجھا رہا ہے۔ 
بھارت کے ساتھ دشمنی افسوس ناک سہی، لیکن طاقت کی سیاست اور جغرافیائی تنازعات کے حوالے سے قابل ِ فہم ، لیکن ایران اور افغانستان کے ساتھ کشیدگی کیوں ؟یقینا ہم خلا میں زندگی بسر نہیں کررہے، اس لیے ہم اپنے ہمسایوںکے ساتھ کشیدہ تعلقات کے متحمل نہیںہوسکتے۔ حتیٰ کہ چین میں بھی پاکستان کے حوالے سے گہری تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ الزام ہے کہ Uighur علیحدگی پسندپاکستانی انتہا پسندوں سے روابط رکھتے ہیں۔ ہمارے دوستوں کی ناراضگی کا باعث ہماری طرف سے ان کے دشمن گروہوں، جو ہماری سرزمین پر اپنی موجودگی رکھتے ہیں، کے خلاف کارروائی کرنے میں تساہل سے کام لینا ہے۔ حال ہی میں ایران نے اپنے سرحدی محافظوں کی بازیابی کے لیے یواین سے رجوع کیا۔ یہ گروہ ایرانی سرحد کے نزدیک بلوچستان کے علاقے میں کارروائیاں کرتا ہے۔ اغواکیے گئے ایک محافظ کو ہلاک کیے جانے کی اطلاع نے ایران کو مشتعل کردیا۔ اس کے خیال میں پاکستان اس گروہ کے خلاف کارروائی کرنے اور اس کے محافظوںکی رہائی میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیںکررہا۔ 
شمالی وزیرستان میں موجودحقانی گروپ، جس کے جنگجو سرحد پار کرکے افغان فورسز اور نیٹو افواج کو نشانہ بناتے ہیں، کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر افغانستان بھی پاکستان سے ناراض رہا ہے۔ اگرچہ کابل اور واشنگٹن پاکستان پر دبائو ڈالتے رہے ہیں لیکن اسلام آباد میں مختلف حکومتیں ٹس سے مس نہیںہوئیں اور حقانی گروپ کے خلاف کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے بھارت کے ساتھ مشرقی سرحد کو سیل کیے رکھا لیکن ہمارے ہاں سے جہادی دستے، سمگلر اور دیگر قانون شکن عناصر کے ساتھ ساتھ عام افراد بھی دیگر ممالک میں بلاروک ٹوک آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ہمسایہ ممالک سے کچھ گروہوں کی وقتی ہجرت ، زیارت اور غیر قانونی تجارت کے لیے ایک دوسرے ممالک میں آنے جانے کی صدیوں پرانی روایت ہے۔ ہمارے شمال میں ڈیورنڈلائن ، جو 1892 ء میں انگریزکے زمانے میں کھینچی گئی، کا کابل میں موجود کسی حکومت نے احترام نہیںکیا ۔یہ لائن قانونی طور پر درست تھی یا غلط، حقیقت یہ کہ دونوں ممالک میں رہنے والے پشتون قبائل اس کو نہیں مانتے، چنانچہ روزانہ کی بنیاد پربلااجازت قبائلی افراد اس کو عبور کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح یہ جہادیوں‘ سمگلروں اورا غوا کاروں کے لیے بھی کھلی ہے۔ پاکستان کے دوردراز مقامات، جیسا کہ کراچی سے افراد کو اغوا کر کے افغانستان پہنچا دیا جاتا ہے۔ 
اس بارڈر کا کمزور اور غیر واضح ہونااس حقیقت کو تقویت دیتاہے کہ پاکستانی ریاست کا اس علاقے پر کوئی کنٹرول نہیں ، چنانچہ پتہ نہیں وہ کون سی قومی خودمختاری تھی جو ڈرون کی جھلک دیکھتے ہی مجروح ہوجایا کرتی تھی جبکہ انتہاپسند اسے رات دن روندتے رہتے ہیں لیکن اس کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا ؟ واجبی سی عقل رکھنے والا شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ عرب ، چیچن اور خدا جانے دنیا کے کس کس خطے سے جنگجو دستے یہاںٹھاٹھ سے رہتے ہوئے مقامی طالبان، جنھوں نے ہزاروں پاکستانیوں کو ہلاک کیا ، کو تقویت پہنچاتے ہیں تو ہم کس منہ سے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں ؟یہ بات ثابت ہے کہ ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر انتہاپسند ہی تھے، تاہم کچھ شہری ہلاکتیں بھی ہوئیںلیکن اتنی نہیں جتنے پاکستانی ان انتہا پسندوںکے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ چونکہ اس سرحد پر ریاست ِ پاکستان کا کوئی کنٹرول نہیں اور یہاں انتہاپسندوں کے لیے محفوظ ٹھکانوں کی کمی نہیں،چنانچہ آج اگر پاکستان دنیا بھر کے انتہا پسندوں اور جہادیوں کا محبوب ترین خطہ بن چکا تو اس میں حیرت کیسی ؟ اگر عالمی برادری ہمیں جہاد کا مرکز مان رہی ہے تو ہمیں کسی سے گلہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ کچھ چیزیں قسمت کی طرح اٹل ہوتی ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کی دوسری طرف افغانستان میں بھی قانون نامی کوئی چیز نہیں۔ 
پاکستان میں موجود انتہا پسند گروہ نظریاتی اختلاف کی بنا پر دوسرے ممالک میں کارروائیاں کرکے واپس پاکستانی علاقوں میں روپوش ہوجاتے ہیں۔ چند سال پہلے سی آئی اے اور جند اﷲ کے درمیان ایران دشمنی کی بنا پر اشتراکِ عمل کے بارے میں ایک رپورٹ سامنے آئی تھی۔ جب انتہا پسند ایرانیوںکے ہاتھ آجاتے ہیں تو وہ ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹتے ہیں۔ تاہم انہیں شکایت ہے کہ پاکستان ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے ، یا پھر وہ ان دہشت گردوںکے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ اس دوران باقی دنیا بھی اُن کی ہم خیال دکھائی دیتی ہے۔ ذاتی طور پر میں ایسا نہیں سمجھتا کہ یہ ریاست کی پالیسی ہے ، لیکن ان انتہا پسندوںسے نمٹنے میں پاکستان سستی او ر غفلت کا ارتکاب کررہا ہے۔ جب ہم اپنے علاقوں پر سے کنٹرول ختم کرتے ہوئے انہیں انتہا پسندوں کے حوالے کرتے جائیں گے تو پھر ہمیں یہ شکایت نہیں کرنی چاہیے کہ ہمارے ہمسائے ہم سے ناراض ہیں۔ دنیا کا دوسرا کون ساملک اپنی سرزمین پراپنی عملداری ختم کرتے ہوئے اسے انتہا پسندوں کے حوالے کرنے کی حماقت کرسکتا ہے؟ ہم غفلت کی اس راہ پر کہاں تک اور کب تک چلنے کے متحمل ہوسکتے ہیں ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں