مشرف کی واپسی

کیا غرور اور خود پسندی قابل تعزیر جرائم ہیں؟ کیا آپ پر حماقت کی پاداش میں عدالت میں کیس چل سکتا ہے؟ زیادہ تر کیسز میں لوگ جرائم، جو اُن سے سرزد ہوئے ہوتے ہیں، کی وجہ سے نہیں بلکہ پکڑے جانے کی وجہ سے سزا پاتے ہیں۔ اپنے دور اقتدار میں مشرف ہر آن ہمیں یہ جتاتے رہے کہ وہ حکمت عملی وضع کرنے کے ماہر ہیں لیکن جس طرح اُنہوں نے مضمرات پر غور کیے بغیر کارگل پر چڑھائی کر دی اور یہ نہ سوچا کہ وہاں سے واپس کیسے آنا ہے، بالکل اُسی دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ پاکستان بھی آ گئے اور پیش آنے والے واقعات کی پیش بینی نہ کر سکے۔ 
میں قانونی اور آئینی امور کا ماہر نہیں کہ پرویز مشرف کے خلاف چلنے والے غداری کیس کا جائزہ لے کر کوئی تبصرہ کر سکوں لیکن جس طرح ان کی پریشانی پر کچھ لوگ ٹی وی پر خوشی منا رہے ہیں، اسے دیکھ کر طبیعت مکدر ہونے لگتی ہے۔ جب سابق صدر کی توہین پر نام نہاد پارسا خوشی سے وارفتہ دکھائی دیتے ہیں تو عجیب سا احساس ہوتا ہے۔ دراصل ہم نے سابق حکمرانوں کی تذلیل کرنا اپنا شعار بنا لیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے ہم ان کے کیے ہوئے اچھے کاموں کو بھی فراموش کر دیتے ہیں اور ہماری توجہ کا ارتکاز صرف ان سے سرزد ہونے والی غلطیوں پر ہوتا ہے۔ میرے کالموں کے باقاعدہ قارئین جانتے ہیں کہ میں مشرف کا پُرجوش حامی نہیں ہوں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اکیلے ہی قصوروار ہیں اور غلطی سے انہوں نے فرشتوںکی سرزمین پر قدم رکھ دیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے دور میں بہت سے اچھے کام کیے تھے۔ یہ مشرف ہی تھے‘ جنہوں نے خواتین کو اسمبلیوں میں زیادہ نمائندگی دی۔ انہوں نے ضیا دور میں اقلیتوں کے انتخابات کے لیے بنائے گئے الگ حلقوں کے قانون کا بھی خاتمہ کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے اُس پندرہویں ترمیم کا خاتمہ کیا جس کے ذریعے نواز شریف ''امیرالمومنین‘‘ بننے کی کوشش کر رہے تھے۔ دراصل جنرل مشرف کی تمام تر برائیاں کچھ حلقوں کو اس وقت نظر آئیں جب انہوں نے افغانستان پر پالیسی کو یک لخت تبدیل کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔۔۔ اس سے پہلے پاکستان طالبان حکومت کا حامی تھا۔ اس یُوٹرن پر مشرف پر تنقید کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اس وقت امریکی کتنے مشتعل تھے اور اُنہیں 9/11 کے بعد کارروائی کرنے کے لیے کس قدر عالمی حمایت حاصل تھی؟ جب امریکی بحری بیڑا ہمارے پانیوں میں ہو تو میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی پاکستانی رہنما اس کے برعکس فیصلہ کرنے کی جسارت کرتا‘ جو مشرف نے کیا تھا۔ 
مشرف کی برائیاں تلاش کرتے ہوئے ہم یہ بھی بھول گئے ہیں کہ جب اُنہوں نے شب خون مارا تو ہماری معاشی حالت کیا تھی؟ اس سے پہلے نواز شریف حکومت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنے کی وجہ سے ہم پر معاشی پابندیاں عائد تھیں، پھر فوجی حکومت کی وجہ سے مزید پابندیاں لگ گئیں۔ اس لیے اگر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں تو دکھائی دے گا کہ 9/11 نے ہمیں موقع دیا کہ ہم کچھ سانس لے سکیں اور اس کا کریڈٹ مشرف کو ہی جاتا ہے کہ اُنہوں نے اس موقعے سے فائدہ اٹھایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک فوجی آمر تھے لیکن ہم نے ماضی میں بھی بہت سے آمروںکے ساتھ نہایت طمانیت سے نباہ کیا؛ چنانچہ یہ منافقت کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے لیے فوجی حکومت یا آمریت کا تصور بھی روح فرسا ہے۔ آج بھی ان پر تنقید کرنے والوں میں سے بہت سوں نے ان کے دور میں فائدہ اٹھایا۔ 
چاہے ہم پسند کریں یا نہ کریں، ایک عشرے تک دنیا پاکستان کو مشرف کے حوالے سے پہچانتی تھی۔ مغربی ممالک میں اُنہیں ایک سمجھدار اور باخبر حکمران کے طور پر دیکھا جاتا تھا، ایک ایسا حکمران جو القاعدہ کے خلاف جنگ میں ان کا قریبی اتحادی تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرف نے بھی دُہرا کھیل کھیلتے ہوئے ''اچھے طالبان‘‘ اور ''برے طالبان‘‘ کی اصطلاح کی پیروی کی اور اچھے طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھا جبکہ برے طالبان کو پکڑ پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کیا۔ 
آج جب مشرف کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے تو دنیا ہمیں تیسری دنیا کے ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھ رہی ہے جہاں سیاسی انتقام کوئی نئی بات نہیں۔ درحقیقت جب ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا گیا تھا اور ضیا اور ان کے حامیوں نے انہیں پھانسی پر لٹکا دیا، تب سے ہمارے ہاں سابق حکمرانوںکو انتقام کا نشانہ بنائے جانے کی ایک روایت چلتی آ رہی ہے۔ نوے کی دہائی میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کرنے کا تباہ کن کھیل کھیلا تھا۔ اس وقت ہماری جمہوریت یہ تھی کہ ایک رہنما کا تختہ الٹ کر اُس کا میڈیا ٹرائل کیا جاتا اور اس پر بدعنوانی کا الزام لگا کر قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ الزامات صرف الزامات ہی تھے اور ہم پر فرشتے حکمرانی کرتے رہے ہیں لیکن ان مقدمات سے آنے والی سیاسی انتقام کی بو نے ان کی اور سیاست دانوں کی ساکھ کو خاصا نقصان پہنچایا۔ دیکھنے میں آیا کہ لگائے گئے ان الزامات کی وجہ سے ہی فوج کے ٹرپل ون بریگیڈ کو متحرک ہونے کا موقع ملتا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کو میچور ہونے کی ضرورت ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہو گا، مذکورہ بریگیڈ کا خطرہ موجود رہے گا کیونکہ پیدا ہونے والے خلا کو کسی نہ کسی نے تو پُر کرنا ہوتا ہے۔ دفاعی اداروں کو اپنے تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دینا بہت آسان لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ فوج کی وجہ سے ہی ملک کی جغرافیائی سالمیت محفوظ ہے۔ اس کی اعلیٰ قیادت اور سیاسی قیادت کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن اس کی بنا پر بطور ادارہ اس کی توہین سے احتراز کیا جانا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ سابق صدر کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دینی چاہیے تاکہ یہ تاثر مل سکے کہ ملک میں سیاسی ادارے کام کر رہے ہیں اور یہ کہ اب کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں