اردوان۔۔۔ ایک ترک شہنشاہ

بیشترجمہوری ممالک میں قومی قیادت مقامی کونسل کے انتخابات میں مداخلت نہیںکرتی۔ عام طور پر چھوٹی سطح پر ہونے والے ایسے انتخابات مقامی سیاست دانوں کے سپرد کردیے جاتے ہیں ؛ تاہم ترکی میں لوکل کونسلوں کے لیے ہونے والے حالیہ انتخابات اس حوالے سے غیر معمولی تھے کہ ان میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی کامیابی کے لیے وزیراعظم طیب اردوان نے ذاتی طور پرکئی ہفتوں پر محیط بھرپور مہم چلائی۔ انتخابی نتائج ان کی محنت ِ شاقہ کا ثمر لائے اوران کی جماعت ڈالے گئے ووٹوں میںسے 45 فیصد حاصل کرتے ہوئے کامیابی کی حقدار ٹھہری۔ ان کی حریف اپوزیشن جماعتوں میںسے ری پبلکن پارٹی کو30 فیصد جبکہ نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کو صرف 15 فیصد ووٹ ملے۔ اس طرح وزیرِ اعظم کی پارٹی اپنے حریفوںسے کہیں آگے تھی۔ 
مقامی کونسلوںکے لیے ترکی میں ہونے والے موجودہ انتخابات ترکوں کے ساتھ عالمی برادری کی توجہ کا بھی مرکز بن گئے کیونکہ انہیں ایک حوالے سے طیب اردوان کے لیے ریفرنڈم کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ مبینہ طور پر بدعنوانی اورآمرانہ طرز حکومت کے الزامات کی زد میں آنے کی وجہ سے ترک وزیراعظم کی مقبولیت کاگراف، خاص طور پر سول سوسائٹی اور دانشور طبقے کی نظر میں، تنزلی کا شکار تھا۔ اس سے پہلے استنبول اور انقرہ کا طبقۂ اشرافیہ طیب اردوان کی بڑھتی ہوئی اسلام پسندی کو اس لیے گوارا کررہا تھاکہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ترک معیشت ترقی کی طرف گامزن تھی اور پھر وہ عالمی سطح پر ایک مقبول رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے ؛ تاہم گزشتہ سال غازی پارک میں ہونے والے احتجاجی مظاہروںاورحالیہ دنوں حکمران جماعت کی ہوشربا بدعنوانی کی کہانیاں منظرعام پر آنے سے لبرل اور تعلیم یافتہ طبقے ان کے خلاف ہوگئے۔ 
لوکل انتخابات سے یہ بات بھی ظاہر ہوئی کہ طیب اردوان کے ووٹ بنک کوروایتی مسلمان حلقوں میں، جن کا زیادہ ترکا تعلق اناطولیہ سے ہے، کوئی نقصان نہیں پہنچا،اس لیے کہ وہاں آباد ترکوں کے لیے وزیراعظم کی پالیسیاں بے پناہ معاشی خوشحالی اور ترقی کا باعث بنیں۔ وہ بہت سے شہر جو ماضی میں نظراندازکیے گئے تھے، جیسے غازیان تپ (Gaziantep) اور ماردین(Mardin)، ان میں عوام کی آمدنی میںاضافہ ہوا اور ان میں کثیر منزلہ عمارتیں دکھائی دینے لگیں جبکہ چھوٹے تاجر اورکارخانہ دارکروڑ پتی ہوگئے۔
ان انتخابات میں ترک معاشرے کے حوالے سے اگر کوئی تشویش ناک پہلو ہے تو وہ روایتی مسلمانوں اور مغرب نواز لبرل طبقوں کے درمیان بڑھتا ہوا تنائو ہے۔ ترکی کے لبرل طبقوں نے جو مصطفی کمال کے سیکولر نظریات کے وارث ہونے کے دعویدار ہیں، طاقتور فوج کی مدد سے کئی عشروںتک حکومت کی۔ اس دوران استنبول اورانقرہ کے اعلیٰ طبقوںنے اناطولیہ کے قدامت پسند ترکوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا۔ طیب اردوان نے اسی پسے ہوئے طبقے کو طاقت اور اعتماد بخشا۔ چند سال پہلے جب میں استنبول گیا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مہنگے ریستورانوں میںکھانا کھانے اور اعلیٰ ترین شاپنگ سنٹرز میں خریداری کرنے والی خواتین نے بھی سر پر سکارف لیا ہوا تھا۔ ترک معاشرے پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ماضی قریب میں استنبول ایسا نہ تھا، لیکن اب اس میں حیران کن تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔ عشروںکے پسے ہوئے اناطولین باشندوں کو اختیار ملا ہے تو وہ اسے آسانی سے ہاتھ سے نہیں جانے دیںگے۔ 
ستم ظریفی یہ ہے کہ طیب اردوان کواصل سیاسی چیلنج استنبول کے لبرل طبقوںکی طرف سے نہیں بلکہ اپنے ایک سابق اتحادی، عالم ِدین فتح اﷲ گولن کی طرف سے سامنے آرہا ہے۔ فتح اﷲ گولن انتہائی قابلِ احترام دینی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ان کی قائم کردہ درسگاہوں کے وسیع نیٹ ورک کی وجہ سے بھاری تعداد میں ان کے حامی ریاست کے ہر شعبے میں موجود ہیں۔ حالیہ دنوں میں حکمران جماعت کی بدعنوانی کی کہانی جس طرح سوشل میڈیا پر پھیلی، اس کے پیچھے یقیناً کوئی باخبر ایجنٹ ہوگا جس نے وہ تباہ کن گفتگو ریکارڈ کرکے عوام تک پہنچا دی۔ 
ترک معاشرے میںگولن کا اثرنظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی تنظیم کی جڑیں یونیورسٹیوں سے لے کر بیوروکریسی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ سب سے بڑی با ت یہ ہے کہ وہ کوئی روایتی مولوی نہیں بلکہ اُنہوںنے اسلام کا لبرل ویژن پیش کیا۔ ان کی تعلیمات میں جدید سائنس اور سماجی سطح پر ہونے والی پیش رفت کو خصوصی مقام حاصل ہے۔ دراصل اردوان اورگولن کے درمیان کشیدگی اس وقت دیکھنے میں آئی جب ترک حکومت نے ان ہزاروں سکولوں کو بند کرنے کا حکم دیا جنہیں گولن کی تنظیم چلاتی تھی۔ یہ سکول جن میں یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے طلبہ کو ابتدائی تعلیم دی جاتی ہے، گولن کی تنظیم کو مستقبل کی افرادی قوت کے ساتھ ساتھ مالی وسائل بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ کشیدگی ہنوز جاری ہے۔ حالیہ انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کرنے کے بعد طیب اردوان نے اپنے حریف کا نام لیے بغیر دھمکی دی کہ اب انہیں اپنی حرکتوں کا مزہ چکھنا ہوگا اور وہ ان کا ان کے گھر تک پیچھاکریںگے۔ 
ترک رہنماکو جس گفتگو کے فاش ہونے سے زیادہ نقصان پہنچا وہ غالباًکچھ اہم سفارت کاروں، فوجی افسروں اور دیگر حکومتی اہل کاروںکے درمیان تھی۔ اس گفتگوسے یہ تاثر ابھرا کہ وہ ایسے حالات پیداکرنا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے ترکی کو شام میں مداخلت کا جواز مل جائے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسی کارروائی کا مقصد بدعنوانی کے پے در پے سامنے آنے والے سکینڈلز سے توجہ ہٹانا مقصود تھا۔ اس پس منظر میں ترک وزیراعظم کا اشتعال قابلِ فہم ہے ؛ تاہم ان کی طر ف سے سوشل میڈیا جیسے فیس بک اور ٹوئیٹر پر پابندی لگانے کے عمل نے اُنہیں ایک آمر حکمران بنا دیا ہے۔ یقیناً سیاسی عمل کے ذریعے وہ مزید طاقت حاصل کررہے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ماضی کے عثمانی بادشاہ بنتے جارہے ہیں جن کے افعال کو چیلنج نہیںکیا جاسکتا تھا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لوکل انتخابات میں کامیابی سے اعتماد پاتے ہوئے وہ اگست میں صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لینے کا سوچیں۔ ترکی میں پہلی مرتبہ ایسا صدارتی انتخاب ہونے جارہا ہے جس میں صدرکے منصب کے لیے براہ ِ راست ووٹ ڈالے جائیںگے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والا صدارتی عہدہ امریکہ اورفرانس کے صدرکے مساوی طاقتوراوربااختیار ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ ترکی کی معاشی حالت میں رونما ہونے والی گراوٹ ان کے عزائم کے راستے میں رکاوٹ پیداکرے۔ اگرچہ ترک معیشت اتنی تباہی سے دوچار نہیںہوئی جتنی مغربی ممالک کی معیشت لیکن سودکی شرح میں اضافہ، غیر ملکی قرضے اور بیرونی سرمایہ کاروںکی طرف سے رقم نکالنے کی وجہ سے ترقی کی شرح میں خاطر خواہ کمی ضرورآئی ہے۔ اس سے بیروزگاری میںہونے والا اضافہ عوام کو ہیجان میں مبتلاکرسکتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اردوان صدارتی انتخابات سے پہلے پارلیمانی انتخابات کے انعقادکا اعلان کردیں ؛ تاہم جوکچھ بھی ہو وہ ترک سیاست کے منظر نامے سے محو ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں