مثالیت پسندی اور جہاد

گزشتہ دنوں برطانوی میڈیا میں اس مضمون کی کچھ رپورٹیں شائع ہوئیں کہ جوشہری شام کے صدربشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ کرنے کی خاطر جہاد کے لیے شام گئے ہیں، وہ ملک کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ خدشہ یہ کہ ان میں کچھ انتہا پسند مسلمان جو تربیت یافتہ اورجنگ آزمودہ بن چکے ہوں گے، زندہ بچ کر واپس لوٹ آئیںگے اور پھر وہ برطانیہ میں بھی جہادی کارروائیاں شروع کردیںگے۔ بہت سے یورپی ممالک جن میں مسلمانوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے اورجن میںسے کچھ شام میں ہونے والی خانہ جنگی میں شریک ہیں، وہ بھی ان خدشات کا اظہارکررہے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے دوہزار شہری شام میں جنگ لڑرہے ہیں۔ حال ہی میں ان میںسے ایک جنگجو ابو سلیمان البرطانی نے دھماکہ خیز مواد سے بھرا ہوا ٹرک حلب کی جیل سے ٹکرا دیا ۔ اس خودکش حملے میں جو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ایک گروہ النصرہ فرنٹ نے کیا، تین سوکے قریب قیدیوںکو رہاکرا لیاگیا۔ 
ان غیر ملکی جنگجوئوںمیں سے زیادہ تر پہلے ترکی جاتے ہیں اور پھر وہاں سے سرحد پارکرکے شام میں داخل ہوتے ہیںجہاں مختلف جنگجو گروہ اُنہیں اپنے دستوںمیں شامل کرلیتے ہیں۔ دو مسلمان عالموں کی نشاندہی کی گئی جو انٹر نیٹ کے ذریعے جہاد کی تبلیغ کرتے ہوئے مسلمان نوجوانوں کو جہاد کی ترغیب دیتے ہیں۔ گزشتہ جنوری میں شام سے واپس لوٹنے والے سولہ برطانوی نوجوانوںکوگرفتارکیا گیااور ان کے خلاف دہشت گردی ایکٹ 2006ء کی شق 5 کے تحت مقدمہ درج کرلیاگیا۔ اس شق کے تحت کسی بھی ملک میں جاکر سیاسی، نظریاتی ، نسلی یا مذہبی مقاصد کے لیے لڑنا جرم ہے جس کی سزا عمر قید ہے۔ ''دی گارڈین‘‘ میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون میں جارج مونبیوٹ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ 1937ء میں سپین کی منتخب سوشلسٹ حکومت کے خلاف لڑنے والے '' انٹر نیشنل بریگیڈ ‘‘ کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے ہزاروں غیر ملکی رضاکار وہاں گئے۔ ان میں مشہور ناول نگار جارج اورول بھی شامل تھے۔ اگر یہ انسدادِدہشت گردی ایکٹ اُس وقت نافذہوتا تو مسٹر اورول گرفتار ہوجاتے اور دنیا ان کے عظیم ناولوں بشمول ''انیمل فارم ‘‘ سے محروم رہتی۔ اگرچہ برطانوی شہریوں کو سپین کی خانہ جنگی میں جانے سے روکنے کے لیے 1870ء کا '' فارن این لِسٹمنٹ ایکٹ ‘‘ متحرک کیا گیا تھا لیکن عملی طور پر کسی کو بھی اس ایکٹ کے تحت گرفتار نہ کیا گیا۔ 
ایک اور مشہور مصنف جوسپین کی خانہ جنگی میں حصہ لینے کے لیے گئے ، وہ نوبل انعام یافتہ امریکی ناول نگارارنسٹ ہیمنگ وے تھے۔ ان کا ناول ''For Whom the Bell Tolls‘‘ اس خونی خانہ جنگی میںہونے والے تجربات کی عکاسی کرتا ہے۔ اُن دنوں میرے والد صاحب Sorbonne University میں سنسکرت ڈرامے پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے تحقیق کر رہے تھے۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ اُس وقت پیرس کے بائیں بازو کے حلقوں میں بہت جوش وخروش پایا جاتا تھا ، ان کے کچھ دوستوں نے سرحد پارکی اور سپین جاکر خانہ جنگی میں حصہ لیا۔ 
کیا آج مثالیت پسندی کا دور ختم ہوچکا ہے؟ یاکچھ جنگوںکے ساتھ ہمارے ضمیر کی اخلاقی وابستگی زیادہ ہوتی ہے؟کیا سیاسی طور پر اس کا زیادہ جواز نکلتا ہے کہ جو سماجی انصاف اور انسانی حقوق کی برابری کے لیے جنگ کریںان کی حمایت کی جائے جبکہ جو خلافت یا شریعت کی خاطر جنگ کریں اُنہیں ردکردیا جائے ؟ ہم انتہا پسندوں کی طر ف سے کیے جانے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کو جواز بنا کر ان کی پوری تحریک کومسترد کردیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تشدد پر صرف ان جہادیوں کی ہی اجارہ داری نہیں، دوسری اقوام نے بھی اس '' کارِ خیر‘‘ میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا ہے۔ انیسویں صدی میں ''انارکسٹ‘‘ تحریک نے پورے یورپ کو پرتشدد کارروائیوں سے ہلا کررکھ دیا تھا۔ ان کے سامنے بھی '' اعلیٰ ترین اخلاقی مقاصد ‘‘ تھے اور ان کا خیال تھا کہ ان کے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ریاستی ڈھانچے کو ختم کرنا ضروری ہے۔ موجودہ دور میں ویت نام سے لے کر افغانستان تک، امریکی فورسز کے ہاتھوں لاتعداد پرامن شہریوںکی ہلاکتیں ہوئیں۔سوال یہ ہے کہ اس پرکسی کی پیشانی شکن آلود کیوں نہیںہوتی ؟
اس میںکوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کمزوروں کا ہتھیار ہے۔ خود کش بمبار دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی جیکٹ اس لیے پہنتا ہے کہ اس کے پاس ریاست سے لڑنے کے لیے ٹینک، میزائل اور لڑاکا طیارے نہیںہوتے۔ جنگی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی دو متحارب گروہوں کے درمیان فوجی طاقت میں شدید عدم توازن پایا جاتا ہے ،کمزورگروہ آخری چارے کے طور پر تخریبی کارروائیوں کا سہارا لیتا ہے۔ اس طرزِ حرب میں کمزور گروہ کے پاس اپنے جنگجوئوں کو موت سے گلے لگانے کے لیے ایک تحریک کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ مثالیت پسندی کی صورت میں اجاگرکی جاتی ہے۔ ان برطانوی مسلمان نوجوانوں کو جو اپنے آرام دہ گھروں میں سکون کی زندگی بسر کرتے تھے، تحریک دینے والوں نے ان کے سامنے کس قسم کی مثالی دنیا کی جھلک رکھی ہوگی، اس کا اندازہ لگانے کے لیے بہت داناہونے کی ضرورت نہیں۔ 
شام میں جہادی کارروائیوںمیں حصہ لینے والے نوجوانوں کے حوالے سے یورپی حکومتوں کے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں اس لیے کہ شام کی خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے بہت سے مغربی ممالک میں نوجوان مسلمانوں کی طرف سے تخریبی کارروائیاں کی گئی تھیں ، اس لیے ان کو بجا طور پر شک ہے کہ جب شام میں جہادی سرگرمیوںمیں شامل جہادی واپس وطن آئیں گے تو وہ بہت کچھ سیکھ چکے ہوںگے۔ حال ہی میں سامنے آنے والی کچھ اخباری رپورٹوں کے مطابق النصرہ فرنٹ کا ایک یونٹ مغربی ممالک سے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ مغربی ممالک کے نوجوانوں پر انتہا پسند تنظیموں کی نگاہ ِ انتخاب اس لیے بھی پڑتی ہے کہ وہ یورپی یونین کے شہریت رکھتے ہوئے یورپ کے تمام ممالک میں بغیر ویزے کے سفرکرسکتے ہیں۔ چنانچہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سوشل میڈیا، جیسے فیس بک پر شاید ہی کسی خانہ جنگی کواتنی '' کوریج ‘‘ ملی ہو جتنی شام میں جاری تصادم کو مل رہی ہے۔ دراصل اس مہم کے ذریعے نوجوانوں کو اس خانہ جنگی میں شرکت کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ مشین گنوں ، راکٹ لانچروں اور دوسرے خودکار ہتھیاروںسے مسلح نوجوانوں کی ''پرکشش‘‘ تصاویر دیکھ کر بہت سوں کا خون جوش مارنے لگتا ہے۔۔۔ اس کے بعد وہ ہوائی جہاز کا ٹکٹ خرید کر ترکی چلے جاتے ہیں اور پھر وہاں سے سرحد عبورکرکے شام پہنچ جاتے ہیں۔ 
اس صورتِ حال کو سامنے رکھیں تو امکان یہی نظر آتاہے کہ یورپی حکومتیں شام سے واپس آنے والے کسی بھی جہادی کے لیے ہرگز نرمی نہیں برتیںگی ؛ تاہم پاکستان میںایسا نہیںہے ، ہم جہادیوں بلکہ ان کے '' استادوں ‘‘ سے بھی مذاکرات کے شغل سے دل بہلا رہے ہیں ۔ ہمارے حکام نے آنکھیں بند کررکھی ہیں کہ یہ جنگجو ہمارے لیے کس قدر خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ وہی گردنیں کاٹنے والا گروہ ہے جس سے کچھ سال پہلے ہم نے اغماض برتا تھا۔ موجودہ جہادی نوجوان وہی ہیں جنہوںنے آخر کار ہمارے گلے پر ہی خنجر رکھنا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں