ہم کمشنوں کے قیام پر بے حد یقین رکھتے ہیں۔ اس دل لگی میں کوئی مضائقہ نہ ہوتا اگر یہ الہ دین کا چراغ، جس نے جن تو کیا حاضر کرنا تھا، کبھی خود لو ہی دے دیتا یعنی جل ہی اٹھتا۔ ہوتا یہ ہے کہ اس کی وجہ سے عوامی توقعات مایوسی کے مزید اندھیروں میں کھو جاتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تمام تر مایوسی کے باوجود عوام ایک مرتبہ پھر اسی سے روشنی کے متمنی ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سون پری کی جادو کی چھڑی کو ہم ''ٹیکنالوجی‘‘ سمجھتے ہیں۔ جب کراچی میں ایک معروف صحافی پر قاتلانہ حملہ ہوا تو پورے ملک میں اس کی مذمت کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ حکومت نے فی الفور یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور ایک کمشن قائم کر دیا۔
محترم چیف جسٹس صاحب نے تین جج صاحبان کو اس حملے کی تحقیقات کرنے کے لیے متعین کر دیا۔ مجھے ان جج صاحبان کی دیانت اور انصاف پسندی پر مطلق شبہ نہیں لیکن ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ فائرنگ کے اس واقعے کے ذمہ داروں کا کھوج لگا پائیں گے ایسے ہی ہے جیسے ایک شاعر کو اس کی شاعری کی بنا پر کرکٹ ٹیم کا کپتان بنا دیا جائے۔
تمہید کے طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ جب 2011ء میں ایک نڈر صحافی کو نامعلوم افراد نے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا تو کچھ حلقوں کی طرف سے ایک ادارے پر شبے کا اظہار کیا گیا تھا۔ میڈیا میں اٹھنے والے شور کی وجہ سے قتل کی تحقیقات کے لیے جسٹس ثاقب چیمہ کی سربراہی میں جوڈیشل کمشن قائم کیا گیا۔ کئی ہفتوںکی مغز ماری کے بعد کمشن نے دس جنوری 2012ء کو اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کر دی۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ اس قتل کی ذمہ داری ''دہشت گردی کی جنگ میں شامل بعض ریاستی اور غیر ریاستی عناصر، جیسا کہ طالبان، القاعدہ کارکن اور غیر ملکی ایجنٹ، پر عائد ہوتی ہے‘‘۔
جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے تو وہ معاملہ اس نتیجے پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوا کیونکہ اس طرح کی مبہم تحقیقات کے نتیجے میں کسی کو بھی ملزم ٹھہرا کر سزا دینا تو درکنار، گرفتار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تحقیقات کے لیے بنائے گئے تقریباً تمام کمشنوں کا انجام یہی ہوا۔ لیاقت علی خان سے لے کر بے نظیر بھٹو تک، بہت سے سیاست دانوں کو قتل کیا جا چکا لیکن قوم ہرگز نہیں جان سکی کہ ان ہائی پروفائل کیسز کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ جنرل ضیا کا طیارہ کس طرح تباہ ہوا اور قوم کو آمریت سے کس نے نجات دلائی؟ ایسا تو ہرگز نہیں کہ طیارے آموں سے بدکتے ہوں اور ان کی پیٹیاں ان کی طبع نازک پر گراں گزرتی ہوں۔ کچھ تو تھا جس کا قوم کو علم نہ ہوسکا۔
پی پی پی حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے باوجود یہ پتہ نہ چلا سکی کہ بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کا ذمہ دار کون تھا۔۔۔ دراصل زرداری حکومت نے اس کیس کی ترجیحی بنیادوں پر تفتیش نہ کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔۔۔ تو کیا ہم یہ توقع لگا سکتے ہیں کہ حکومت کا قائم کردہ کمشن حامد میر پر حملے کی تحقیقات کر کے مجرموں تک پہنچ جائے گا؟ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی عمر چیمہ کے ساتھ بھی ایسا ہی اندوہناک واقعہ پیش آیا‘ جب اُسے کچھ نامعلوم افراد نے اغوا کرنے کے بعد سلیم شہزاد کی طرح بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا؛ تاہم مسٹر چیمہ کو زندہ چھوڑ دیا گیا۔
حامد میر پر حملہ کرنے والوں کو یقیناً ان کے اسلام آباد سے کراچی تک کے سفر کا علم تھا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ کس راستے سے گزریں گے اور انہوں نے ان کے راستے پر قاتلوں کا اسکواڈ مقرر کر دیا۔ چند سال پہلے اسلام آباد میں بھی حامد میر کی گاڑی کے نیچے بم نصب کر کے ان کو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کی ذمہ داری طالبان نے اٹھائی تھی لیکن ان مبہم تنظیموںکے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پیچھے کوئی ثبوت نہیں چھوڑتیں۔ بعض اہم کیسوں کی تفتیش سے تو پولیس بھی گریزاں رہتی ہے بلکہ اگرکوئی ثبوت رہ گیا ہو تو اسے بھی تلف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ بالکل ویسے ہی جس طرح بے نظیر بھٹو پر حملے کی جگہ کو چند گھنٹوں بعد دھو کر تمام ثبوت مٹا دیے گئے تھے۔ اس لیے یہ بات قابل فہم ہے کہ عوام کو پولیس کی طرف سے کی گئی تحقیقات پر کوئی اعتماد نہیں ہوتا، لیکن دوسری طرف ہم مختلف کمشنوں پر یقین کر لیتے ہیں حالانکہ اس کا ٹریک ریکارڈ پولیس سے بھی زیادہ مایوس کن ہے۔ مجھے نہیں یاد کی کسی کمشن نے کسی ہائی پروفائل کیس کے ملزمان کو بے نقاب کیا ہو۔ اور پھر ہم کمشنوں کے ارکان کو شرلک ہومز کیوں سمجھ لیتے کہ وہ ان گتھیوں کو بھی سلجھا لیں گے جو پولیس کے بس میں نہیں؟
اگر ملک میں جوڈیشل سسٹم، جس کو درست کرنا ان کے بس میں ہے اور فرض بھی، کی حالت زار پر نظر ڈالیں تو صورتحال واضح ہو جاتی ہے۔ عدالتوں میں سالہا سال سے کیسز التوا کا شکار رہتے ہیں۔ سائل اور وکلا پیشی بھگتتے رہتے ہیں لیکن فیصلے کی نوبت نہیں آتی۔ بعض اوقات ایک معمولی جائیداد کا کیس کئی عشروں تک لٹک جاتا ہے جبکہ جائز سائل خوار اور درماندہ فوت ہو جاتا ہے۔ اور اس پر ہم ان سے توقع کرتے ہیںکہ وہ ماہر جاسوس بن کر ان گمنام اور ہائی پروفائل قتل کے کیسز کی تحقیقات کرکے مجرموں کو قانو ن کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہماری پولیس اور جج تحقیقات نہیں کر پاتے تو پھر کون کرے گا؟ تمام دنیا میں جرائم کی تحقیقات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سپرد کی جاتی ہے۔ جج حضرات کو صرف ان کیسز پر نظر رکھنے کے لیے متعین کیا جاتا ہے جن کا کوئی سیاسی پہلو نکلتا ہو لیکن دنیا میں کہیں بھی جج صاحبان جرائم کی تحقیقات نہیں کرتے کیونکہ ان کے پاس اس مقصد کے لیے مطلوبہ ٹریننگ نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں حکومت کو بھی علم ہوتا ہے کہ یہ کمیشن جرائم کی تحقیقات نہیں کرسکتے لیکن انہیں اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ ایک تو کی جانے والی تحقیقات میں غیر جانبداری کا پہلو دکھائی دے اور دوسرا یہ کہ حکومت بری الذمہ ہو جائے کہ اس نے نیک نیتی سے اپنا کام کر دیا۔ اس ترکیب کا مقصد وقت گزار ی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ بہت شدومد سے تحقیقات ہو رہی ہیں اور ہم دم سادھے انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اتنی دیر میںکوئی اور واقعہ پیش آجاتا ہے اور پھر اس کی تحقیق کے لیے ایک اور کمیشن قائم کر دیا جاتا ہے۔