سیاست دان پیدائشی طور قدرے ڈھیٹ ہوتے ہیں اوران کے جینز میں شرمندہ ہونے کے وصف کا ثبوت تاحال کسی سائنسی تحقیق سے نہیں ملا اور نہ ہی ایسا کوئی احتمال پایا جاتا ہے۔ تاہم ڈھیٹ ہونے کا معیار سب میں یکساں نہیںہوتا۔ کئی سیاستدان اپنی محنتِ شاقہ سے اسے اوج ِکمال تک پہنچا دیتے ہیں، اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ''ایں سعادت بزورِ بازو'است‘ ‘‘ ۔ سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر ان نابغہ روزگار ہستیوں میںسے ایک ہیںجن کے دم قدم سے بے شرمی، ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کونئے معانی ملے ہیں ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ بہت سے سروے پول ظاہرکرتے ہیں کہ ایک تہائی برطانوی شہری اُنہیں جنگی مجرم قرار دیتے ہیں ، لیکن وہ اپنے خبطی خیالات کی ترویج سے باز آنے کا نام نہیں لے رہے۔
ان کی تازہ ترین یاوہ گوئی بلوم برگ (لندن) میں ایک عوامی مقام پرکی جانے والی تقریر سے سامنے آئی جب انہوںنے مغرب پر زور دیا کہ وہ اسلامی انتہا پسندوںکا مقابلہ کرنے کے لیے روس اور چین کے ساتھ اتحاد کرلے۔ مسٹر بلیئر کے مطابق یہ انتہا پسند عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں لیکن مغرب نے ان سے چشم پوشی کی پالیسی اپنائی ہوئے ہے۔ انہوںنے مغربی دارالحکومتوں پر زور دیا کہ وہ مشرق ِوسطیٰ میں جاری کشمکش میں فریق بنتے ہوئے ان معتدل مزاج قوتوں کے ہاتھ مضبوط کریں جو بنیاد پرستوںکے خلا ف صف آراء ہیں۔ اُنہوںنے خاص طور پر مصر میں فوجی حکومت کی وکالت کرتے ہوئے اس کی اخوان کے خلاف کارروائیوں کی حمایت کی۔۔۔ یہ ہیں مسٹر بلیئرکے جمہوری تصورات !
بنیادی طور پر ان کی تقریر صدر بش کی طرف سے شروع کی جانے والی دہشت گردی کی نہ ختم ہونے والی جنگ کا '' از سرنو احیاء‘‘ کرنے کی درخواست تھی۔ اگر گزشتہ عشرے سے دنیا میں پیش آنے والے واقعات نے ہمیں کچھ سکھایا ہے ( اور اگر ہم سیکھنے کے لیے تیار ہیں ) تو حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی قدامت پسندانہ نظریات رکھنے والا اسلامی لشکرمارچ نہیں کررہا، ایسے کسی لشکر کا کوئی وجود تک نہیں ہے۔ ہاں، دنیا کے مختلف خطوں میں کچھ انتہا پسندگروہ ہیں جن کے کچھ اپنے ایجنڈے ہیں، لیکن انہیں اسلامی لشکر قرار دینا درست نہیں۔ ان گروہوں کو مقامی طور پر سیاسی عمل اور جہاںضرورت ہو، فوجی کارروائی سے قابو میں لایا جاسکتا ہے۔ ان گروہوں کے وجود میں آنے کی زیادہ تروجوہ مقامی ہیں اور انہیں مقامی طور پر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ ان کے حل واشنگٹن یا لندن سے نہیں آئیںگے اور نہ ہی ان کے بالمقابل مغرب، چین اور روس پر مشتمل کوئی الائنس بنانے کی حماقت کی ضرورت ہے۔
اس میںکوئی شک نہیں کہ القاعدہ اور اس سے ملحق گروہ عالمی سطح پر موجود ہیں لیکن یقیناً وہ خلامیں معلق کوئی طاقت نہیں ۔ نوجوان مسلمانوںکو ایسے گروہوں میں شمولیت سے روکنے کے لیے ایک جاندار مکالمے کی ضرورت ہے، لیکن ٹونی بلیئر جیسے رہنما جن کے اپنے ہاتھ خون سے آلودہ ہوں، ایسے مکالمے کو غیر موزوں قرار دیتے ہیں، لیکن کوئی ان کی بات سنے گا اور نہ ہی سمجھے گا۔انہیں متعدد بار سیاسی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جاچکا ہے، لیکن جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ، سیاست دانوں کو شرمندہ ہونے کی صلاحیت ودیعت ہی نہیں کی گئی۔
میںنے گزشتہ ایک کالم میں لکھا تھا کہ برطانیہ میں ایک تشویش کی لہر ابھر رہی ہے کہ نوجوان برطانوی مسلمان شام میں اسد حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے انتہا پسندوںکی صفوں میں شامل ہورہے ہیں۔کچھ دن پہلے شام میں 16 سالہ برطانوی مسلمان نوجوان ہلاک بھی ہوگیا تھا۔ پولیس نے برطانیہ میں رہنے والی مسلمان خواتین سے اپیل کی ہے کہ اگر وہ اپنے بچوں، بھائیوں یا شوہروں میں کوئی ایسی تحریک، جذبات یا سرگرمی دیکھیں جن سے ظاہر ہوتا ہوکہ وہ شام کی صورت ِ حال میں دلچسپی لے رہے ہیں یا انہیں مسٹر اسد ناپسند ہیں یا وہ ترکی جانا چاہتے ہیں تو وہ پولیس کوآگاہ کریں۔ تاہم برطانوی مسلمانوں کو پولیس پراتنا اعتماد نہیںکہ خواتین اپنے خاندان کے مردوں کی سرگرمیوںکے بارے میں پولیس کوآگاہ کردیں۔ پہلے ہی برطانیہ کے مسلمان شہری یہ محسوس کرتے ہیںکہ حکام اور میڈیا ان کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ اب اس پر مستزاد، خواتین کو کہا جارہا ہے کہ وہ اپنے مردوںکی نگرانی کریں۔اس اقدام کا مقصد برطانوی مسلمانوںکو شام جاکر لڑنے سے روکنا ہے، لیکن اپنائے جانے والے طریقے کی کامیابی مشکوک ہے۔
آج کل میڈیا کی توجہ ایک کیس پر مرکوز ہے جس کے مطابق ایک اسلامی گروہ برمنگھم کے پچیس سکولوں پرقبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ تحقیقات ایک گمنام خط ملنے سے شروع کی گئی جس میں لکھا تھا کہ ان سکولوں میں صرف اسلامی اقدار کی تعلیم ہی دی جاتی ہے۔ الزام لگا یا گیا کہ ان سکولوں میں تعلیم دینے والے سیکولر ٹیچرزکو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ یہاں جنسی تعلیم ممنوع اور لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ پڑھایا جاتا ہے۔ اب سیکرٹری تعلیم مائیکل گوو نے معاملے کی تحقیقات کے لیے انسپکٹرز بھجوانے کے علاوہ پیٹرکلارککو جو سکاٹ لینڈ یارڈ کے انسداد ِ دہشت گردی سیل کے سابق سربراہ ہیں، مقررکیا ہے تاکہ دیکھا جائے کہ اس تنظیم کا کسی انتہا پسند گروہ سے تو کوئی تعلق نہیں۔ تاہم اس پیش رفت پر مقامی پولیس چیف نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان تحقیقات کا برمنگھم کی مسلم کمیونٹی پرجوپرامن شہری ہیں، منفی اثر ُپڑے گا ۔ سیمس ملن '' دی گارڈین ‘‘ میں لکھتے ہیں : '' مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مسلمان خاندان، چاہے ان کا تعلق لبرل طبقے سے ہو یا روایتی خاندانوں سے، وہ اپنے بچوں کو '' اسلام مائز ‘‘ کرنے کی بجائے بہتر تعلیم دلانا چاہتے ہیں، لیکن جو شور مچایا جارہاہے اس سے عام مسلمان خاندانوںکی حوصلہ شکنی ہوگی اور وہ عام سماجی زندگی میں حصہ لینے سے کترائیںگے کہ مبادا اُنہیں انتہا پسند سمجھا جائے‘‘۔
مسٹر ملن برطانوی حکومت کی متضاد پالیسی کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جو مسلمان رضا کار شام میں اسد حکومت کے خلاف لڑنے جاتے ہیں انہیں واپسی پرگرفتار کرنا ناانصافی ہے اس لیے کہ : ''ایک طرف ان برطانوی مسلمانوں کو جو شامی حکومت کے خلاف لڑنے گئے، دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا جارہا ہے، لیکن بہت سے برطانوی شہری لیبیا میں قذافی حکومت کے خلاف لڑنے گئے تھے لیکن انہیں اس طرح کے الزام میں گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ کیا یہ صریحاً منافقت نہیں کہ ہماری حکومتوںنے گزشتہ ایک صدی سے مشرق ِو سطیٰ میں فوجی اور آمرانہ حکومتوںکی حمایت کی؟ درحقیقت2001ء کے بعد اسلامی انتہا پسندی اور جہادی سرگرمیوں میں اضافے کا باعث یہی منافقانہ پالیسیاں ہیں‘‘۔ اس وقت حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک کے علاوہ خود مسلمان ممالک بھی انتہا پسندوںکے ہاتھوںزک اٹھارہے ہیں۔ اگرچہ مغربی ممالک نے سخت قوانین بناتے ہوئے اس مسئلے کا تدارک کر لیا ہے لیکن پاکستان جیسے اسلامی ممالک میں اس پر قابو پانا ابھی باقی ہے۔ یہ سب مسئلے اپنی جگہ پر، لیکن دنیا کو ٹونی بلیئر کے اخلاقی خطبات کی کوئی ضرورت نہیں۔