فرانس میں دائیں بازوکے نظریات میں اضافہ

یکم مئی کو فرانس میں میڈیا نے میرین لی پن (Marine Le Pan) کی پیرس میں بیسٹیل(Bastille) کے مقام پر کی جانے والی تقریر کو بھرپور کوریج دی۔ دنیا کے سب سے بڑے اخبارات میں سے ایک لی موند (Le Monde) نے لی پن کی تقریر اور ان کی پارٹی ایف این ( فرنٹ نیشنل) کے موقف اور بائیس مئی کو یورپی پارلیمانی انتخابات میں اس کی کامیابی کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے اپنا ایک پوراصفحہ وقف کردیا۔ گزشتہ ہفتے میں نے شائع ہونے والے اپنے کالم میں نیگل فاریج اور ان کی جماعت ''یوکے آئی پی‘‘ کے برطانوی سیاسی افق پر ابھرنے اور اس سے رونما ہونے والے متوقع سیاسی امکانات کا جائزہ لیا تھا۔ 
مقبولیت میں اضافے نے لی پن کو مجبورکیا کہ وہ اس کے کٹر دائیں بازو کے نظریات کی حامل جماعت ہونے کا وہ تاثر زائل کر ے جو ان کے والد جین میری لی پن کے دور میں قائم ہوگیا تھا۔ یہودیت مخالف مسٹر جین لی پن نے کبھی نسل پرستی کے جذبات کو چھپانے کی کوشش نہیںکی تھی، اس لیے عام لوگ ایف این میں شمولیت کی طرف مائل نہ ہوسکے ؛ تاہم مس لی پن نے ایف این کے نظریات کو تبدیل کرنا شروع کردیا ہے۔ 2011ء میں پارٹی میںہونے والے انتخابات میں کامیابی کے بعد مس لی پن نے اسے فرانس کی تیسری بڑی سیاسی جماعت قرار پانے کے قابل بنا دیا۔ اب یہ جماعت دائیں اور بائیں بازو کی مرکزی جماعتوںکے درمیان عوام کے لیے ایک قابل ِ قبول چوائس ہے۔ اگرچہ اُنہوںنے اپنے والدکی تارکینِ وطن کی بھرپور مخالفت کرنے کی پالیسی تبدیل کردی ہے لیکن ناقدین 
کا کہنا ہے کہ ان کے دل سے مسلمانوں کے بارے میں تعصبات کا خاتمہ ہونا ابھی باقی ہے۔ مثال کے طور پر جب وہ پارٹی کی قائد منتخب ہونے کے لیے انتخابی مہم چلارہی تھیں تو ایک موقع پر اُنہوںنے کہا تھا کہ جمعہ کی نمازکے وقت مسلمانوں کی طر ف سے گلیوں اور سڑکوں تک عبادت کے سلسلے کو وسیع کر دینا ''غیر ملکی قبضے‘‘ کے مترادف ہے۔ 
حال ہی میں فرانس کے مختلف شہروں میں ایف این کی مقامی کونسل کی انتخابات میں کامیابی کے موقع پر لی پن نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ فرانس میں سیکولرازم کی روایات کے مطابق سکول کے تمام طلبہ کو ایک جیسا کھانا فراہم کیا جانا چاہیے۔ اس کے مضمرات انتہائی ہنگامہ خیز ہوسکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم پیرس کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھتے تھے تو دیگر طلبہ کو لنچ میں سورکے گوشت سے بنی ڈشزدی جاتی تھیں جبکہ مجھے اور میرے بھائیوں اور دوسرے مسلمان طلبہ کو اس کا متبادل فراہم کیا جاتا تھا۔ مس لی پن کی تجویزکے مطابق مسلمان طلبہ کے لیے حلال کھانے کا کوئی آپشن نہیںہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو فرانس کی مسلمان آبادی کے جذبات مشتعل ہوجائیںگے۔ 
بدقسمتی سے فرانس میں ایسے پیغامات تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ اس ملک کے بہت سے باشندے مسلمان تارکینِ وطن کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے مشتعل ہیں۔ اگرچہ فرانسیسی قوانین کسی شخص سے اس کے مذہب کے بارے میں سوال کرنے کی اجازت نہیں دیتے لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق فرانس میں مسلمانوں کی تعداد پینتیس سے پچاس لاکھ کے درمیان ہوگی۔ ان میں سے زیادہ ترکا تعلق شمالی افریقہ میں فرانس کی کالونیوں سے ہے جبکہ بہت سے فرانس میں ہی مسلمان والدین کے گھر پیدا ہوئے۔اس سے پہلے فرانس میں حجاب پر پابندی کے فیصلے کی مقبولیت سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ فرانس کے زیادہ تر باشندے مسلمانوںکے قدیم رہن سہن سے کس قدرنالاں ہیں۔ مقامی باشندوںاور تارکین ِو طن کے درمیان تنائوکی وجہ سے ہم آہنگی کا فقدان پایا جاتا ہے۔ شہروںکے مضافات میں قائم ہونے والی غریب آبادیوں اور سستے علاقوں میں کبھی کبھار پھوٹ پڑنے والے فسادات اس تنائوکی عکاسی کرتے ہیں۔ مسلمان نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں معاشرے میں دوسرے درجے کے شہری سمجھا جاتا ہے اور پولیس بھی مسلسل ان پر نظر رکھے ہوئے ہے جبکہ عام فرانسیسی آبادی مسلمانوں کو جھگڑالو،خود پسند اور بن بلائے مہمان سمجھتی ہے۔ 
تقسیم کی گہری ہوتی ہوئی اس لکیرکے تناظر میں مرین لی پن کو یقین ہے کہ ان کا پیغام فرانسیسی رائے دہندگان کو بہت بھائے گا۔ اگرچہ یورپی یونین کے پارلیمانی انتخابات کی زیادہ اہمیت نہیںہوتی لیکن لی پن ان انتخابات کوایک طرح کے ریفرنڈم میں بدلنا چاہتی ہیں۔ وہ بھی برطانوی سیاست دان نیگل فاریج کی طرح یورپی یونین کی سخت مخالف ہیں اور اپنے ملک کو اس بندھن سے آزاد دیکھنا چاہتی ہیں۔ انہیں امیدہے کہ بائیس مئی کو ہونے والے انتخابات میں وہ فرانسیسی صدرکی کمزوریوں کو بے نقاب کریںگی۔ یکم مئی کو اپنی تقریر میں اُنہوں نے فرانکو ھولینڈ (Francois Holland) کو تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہاتھا کہ '' فرانس کے لوگ شیر ہیں لیکن بدقسمتی سے ان پر گدھوں کی حکومت ہے‘‘۔ ایسے نوکیلے الفاظ اُنہیں شاید فرانس کے شہری علاقوںسے ووٹ حاصل کرنے کے قابل بنا دیں لیکن دیہی علاقوں میں مقیم کسان یورپی یونین کی طر ف سے ملنی والی امدادی قیمت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ اپنے مالی فائدے پر لات مارنا پسند نہیں کریںگے۔ اس کے علاوہ بڑی بڑی کارپوریشنز بھی یورو سے دستبردار ہونے میں اپنا نقصان دیکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ فرانس کے لبرل حلقے لی پن کے انتہائی دائیں بازوکے نظریات سے خائف ہیں۔ 
اس سے قطع ِ نظر کہ لی پن کا پیغام فیصلہ کن عامل بن پاتا ہے یا نہیں، درحقیقت فرانس میں ان کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ فرانس میں ہونے والے اگلے صدارتی انتخابا ت میں وہ ایک تہائی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ ایسا ہونے کی صورت میں فرانس کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوجائے گا اور ملک ایک غیریقینی راستے پر گامزن ہوجائے گا۔ ایک حوالے سے لی پن اور فاریج کا سیاسی طور پر ابھرنا یورپ میں تارکین ِ وطن اور مسلمانوں کے خلاف پائے جانے والے جذبات کا سیاسی اظہار ہے۔ اس کے پیچھے معاشی عوامل بھی کارفرما ہیں ۔ طویل معاشی بحران کے دوران یورپ کے مقامی باشندوںنے دیکھا کہ تارکینِ وطن کم تنخواہ پر بھی کام کرنے پر راضی ہوجاتے تھے،اس لیے اُنہیںبے روزگاری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بہرحال جو بھی وجہ ہو، وہ ایک افسوس ناک دن ہو گا جب فرانس جو برداشت اور سیکولر نظریات کی روشن مثال تھا، دائیں بازو کے نظریات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ 
آخر میں بتاتاچلوں کہ میرا حال ہی میں فرانس کا مختصر دورہ اسلام آباد میں فرانسیسی سفارت خانے کی مہربانی سے ممکن ہوا ، مجھے چھ ماہ کا Schengen visa مل گیا۔ مجھے توقع تھی کہ چونکہ میں روانی سے فرانسیسی زبان بول سکتا ہوں، اس لیے مجھے زیادہ مدت کے لیے ویزہ مل جائے گا لیکن جب میں کراچی سے فرانس آیا تو میرے فنگر پرنٹس اور آنکھوںکے پرنٹ ریکارڈ ہونا شروع ہوئے جس سے احساس ہوا کہ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں یورپی لوگ دوست اور دشمن میں تمیزکرنا بھول گئے ہیں اور سفارتی روایات بھی دم توڑ رہی ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں