اگر آپ برطانیہ میں شائع ہونے والے میگزین پڑھتے تو شاید آپ یہ گمان کرنے پر مجبور ہوجاتے کہ کوئی دن جاتا ہے کہ یہاں اسلامی انقلاب آجائے گا ۔ شریعت کورٹس کے قیام اور خوراک میں حلال گوشت کی شمولیت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اسلام کا کوئی خفیہ لشکر گھات لگائے انتظارکررہا ہے اور موقع پاتے ہی برطانیہ میں اسلامی نظام نافذ ہو جائے گا۔ موجودہ شور وغوغا پیزا ایکسپریس کے بارے میں ہونے والے اس انکشاف پر ہے کہ وہ اپنی مصنوعات میں حلال چکن استعمال کرتی ہے۔ پیزا ایکسپریس کی ملک بھر میں فرنچائز برانچیںہیں ؛ تاہم یہ کوئی نیا انکشاف نہیںکیونکہ یہ اعتراف اس کی ویب سائٹ پر دوسال سے موجود ہے۔ اس کے علاوہ دی گارڈین میں اپنے مضمون میں نسرین ملک ہمیں بتاتی ہیں کہ برطانیہ میں 96 فیصد حلال پولٹری کو ذبح کرنے سے پہلے بے سدھ (بے ہوش) کرلیا جاتا ہے۔
مغرب کا حلال گوشت پر اعتراض یہ رہا ہے کہ اس طریقے سے جانوروںکوغیرضروری تکلیف ہوتی ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسری اسلامی دنیا کے برعکس برطانیہ میں جانوروںکواسلامی طریقے سے ذبح کرنے سے پہلے بجلی کے شاک سے بے سدھ کرلیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اُنہیں ذبح ہوتے ہوئے تکلیف نہیں ہوتی۔ ذبح ہونے کے عمل کے دوران رسمی دعا بھی پڑھی جاتی ہے ،اس طرح اس گوشت کو حلال قرار دیا جاتا ہے۔ اس پر ناقدین کا کہنا یہ ہے : '' اگر ہم نہیں چاہتے کہ ہمارا گوشت حلال ہو یا ہم اس طریقے پر یقین نہیں رکھتے اور ہمارا مطالبہ ہوکہ گوشت کوکسی اور طریقے سے تیارکیا جائے تو پھر ؟ ‘‘ یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی برسوں سے اہلِ برطانیہ حلال گوشت ہی کھارہے ہیں، وہ بھی جو دائیں بازو کے اخبارات پڑھتے ہیں ۔ اس پرکسی کوکوئی اعتراض نہ تھا لیکن اب یکایک پیزے میں حلال چکن کی شمولیت نے تنقیدکی توپوں کے دہانے واکردیے ہیں۔
نسرین ملک اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں کہ '' برطانیہ میں اسلام کے فروغ سے متعلق کہانیاں بہت تواترکے ساتھ لرزا دینے والے انداز میں پیش کی جارہی ہیں ۔گزشتہ موسمِ سرما میں نقاب پر زور و شور سے گرماگرم بحث ہوئی اور اس موسمِ بہار میں حلال گوشت پر بحث کی آمد آمد ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موسموں کی تبدیلی کے ساتھ بحث کا موضوع بھی تبدیل ہوجائے گا۔ موجودہ حلال گوشت پر تنازع سے پہلے برمنگھم کے کئی سکولوں پر ایک اسلامی گروپ کی طرف سے قبضہ کرنے کی سازش نے سراٹھایا تھا۔ سیکرٹری تعلیم مائیکل گوو نے اس معاملے کی تحقیق کے لیے کئی انسپکٹروں کو مقررکیا۔ اُنہوں نے بہت جارحانہ انداز میں تحقیق کا آغازکیا لیکن فی الحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے۔ ایک دلچسپ حقیقت کا علم ہوا ہے کہ ان سکولوں نے گزشتہ کئی برسوں سے بہت اچھے نتائج ظاہرکیے ہیں ۔
دراصل نقاب کے مسئلے نے اہلِ برطانیہ کو بے حد چراغ پاکردیا تھا۔ میرے بہت سے انگریز دوست جولبرل نظریات رکھتے ہیںکا کہنا ہے کہ جب وہ کسی عورت کو سرسے پائوں تک برقعے میں چھپا ہوا دیکھتے ہیں تواُنہیں شدید تائو آتا ہے اور وہ سوال کرتے ہیں :'' آخر انہوںنے خودکو اس دبیز تہہ کے پیچھے کیوں چھپایا ہوا ہے؟‘‘ میںنے کئی مواقع پر یہ وضاحت کی کہ یہ ملبوسات شناخت کو چھپانے نہیں بلکہ شناخت کے اظہارکے لیے پہنے جاتے ہیں۔ برطانوی معاشرے میںہی پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والی بہت سے خواتین صرف اس لیے نقاب پہنتی ہیں کہ اُنہیں اس معاشرے میں نظراندازکیا جاتا تھا ، اس طرح نقاب پہننا ان کی طرف سے برطانوی رسوم ورواج کے خلاف بغاوت کی ایک قسم ہے ؛ تاہم ان کی تعداد اتنی کم ہے کہ یہ مسئلہ قومی سطح پر زیرِ بحث لائے جانے والے موضوعات میں جگہ نہیں پاتا۔
اب معاملہ یہ ہے کہ انفرادی طو ر پر تو یہ تمام مسائل اتنے زیادہ گمبھیر نہیں لیکن ان کی وجہ سے پیداہونے والے اختلافات کو اجتماعیت کی شکل دی جارہی ہے ۔ ان میں حلا ل گوشت، نقاب، شرعی عدالتیں اور اسلامی بینکاری وغیرہ شامل ہیں ۔ اس سے ایک پریشان کن حقیقت بھی بے نقاب ہوتی ہے کہ نائن الیون اورسات جولائی کے واقعات کے بعد سے مسلمانوں کو شکوک و شبہات کی نظرسے دیکھا جاتا ہے۔ ایک حالیہ سروے میں سولہ سے چوبیس سال کی عمر کے نوجوان انگریز باشندوں میں سے ستر فیصد کا کہنا تھا کہ اُنہیں مسلمانوں پر اعتماد نہیں ہے۔اس کا دوسرا رخ یہ بتاتا ہے کہ نوجوان برطانوی مسلمان اپنے والدین سے زیادہ کٹر مذہبی ہیں۔ مثال کے طور پر75 فیصد نوجوان برطانوی مسلمان لڑکیوں نے حجاب کے حق میں رائے دی جبکہ ان کی پرانی نسل میں سے صرف انیس فیصد نے اس کی حمایت کی تھی۔ برطانیہ میں رہنے والی 40 فیصد مسلمان عورتیں اسلامی شریعت کا نفاذ چاہتی ہیں ، 36فیصدکا خیال ہے کہ مرتدکی سزا موت ہے جبکہ 30 فیصد سے زائد مذہب کی حفاظت کی خاطر قتل کرنے کی حمایت کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک فیصد نے بھی ہم جنس پرستی کی حمایت نہیں کی۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نوجوان مسلمانوں اور برطانوی شہریوں کے سیاسی اور سماجی معروضات میں وسیع تفاوت موجود ہے۔ میں اس پر حتمی رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، اس لیے کہ ان کے درمیان تنائوکا باعث بننے والے کتنے معاملات لازمی ہیں اور کتنے فرضی ، لیکن یہ بات طے ہے کہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کی یورپی معاشروں میں موجودگی کو مقامی باشندے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اہلِ برطانیہ مذہب سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں، اس لیے وہاں زیادہ تر افراد اس بات کا فہم نہیں رکھتے کہ مسلمانوں کے لیے عقیدہ اتنی اہمیت کاحامل کیوںہے ؟ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیںکہ توہین کے بعض معاملات پرمسلمان اپنے ملکوں میں پرتشدد احتجاج کیوں شروع کردیتے ہیں یا بعض ممالک نے یوٹیوب بندکیوںکررکھی ہے جبکہ کئی مسلمان ممالک میں اس پرکوئی پابندی نہیں ہے۔
مسلمانوں کے بارے میںاس منفی تاثرکو ابھارنے میںکچھ مخصوص واقعات اہم کردار اداکرتے ہیں۔ بوکو حرام کا جنونی لیڈر سینکڑوں لڑکیوں کواغوا کرکے انہیں جنسی غلام بناکر فروخت کرنے کی دھمکی دیتا ہے تو اس سے اہلِ برطانیہ کے ذہن میں مسلمانوںکا نہایت منفی امیج ابھرتا ہے۔ وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اسلامی دنیا نے اس پرتشدد جنونی گروہ کی انسانیت سوز حرکت کی خاطرخواہ مذمت بھی نہیں کی تو وہ اسے اس گھنائونے فعل کی خاموش حمایت کے مترادف گردانتے ہیں۔ دراصل اس وقت ہم عمل اور ردِ عمل کے چکر میں الجھ گئے ہیں۔یورپی معاشرے مسلمانوں کو ان کے افعال کی وجہ سے خود سے جتنے دور رکھتے ہیں وہ اتنے ہی انتہا پسندی کی دلدل میں دھنستے جاتے ہیں۔ یہ نہ ختم ہونے والا چکرجاری ہے۔ دوسری طرف ہمارے ہاں بھی مغرب سے شدید نفرت کی جاتی ہے لیکن ترجیح مغربی زندگی کو ہی دی جاتی ہے، سائنسی ایجادات سے استفادہ بھی کیا جاتا ہے اور سائنسی علوم کوکافرعلوم کہہ کر رد بھی کیا جاتا ہے۔ اپنے مذہب کو خواتین کے حقوق کا سب سے بڑا محافظ بھی قراردیا جاتا ہے اور مذہب کے نام پر عورتوں پر جبر بھی کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کہاں جاکررکے گا؟