موروثی سیاست

ایسا لگتا ہے کہ فوجی جنرلوں کی طرح سیاست دان بھی اقتدار کی جان نہیں چھوڑنا چاہتے لیکن عمر بڑھے کے ساتھ رفتہ رفتہ منظر عام سے غائب ہو جاتے ہیں‘ شرط یہ ہے کہ ان کا تعلق پاکستان سے نہ ہو۔ یہاں اُنہیں عمر کی مشقت سے بچانے کے لیے پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے، گولی مار دی جاتی ہے یا تخریبی کارروائی میں دھماکے سے اُڑا دیا جاتا ہے؛ تاہم اگر پاکستانی سیاست میں آپ دانش اور احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھیں تو یہاں بھی طویل عمری پا سکتے ہیں۔ گجرات کے سیاسی گھرانے کے بڑے چوہدری صاحب ہمیشہ ہیڈ لائنز میں رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا کہ جناب سیاست میں کب سے ہیں تو پتہ نہیں جواب میں 1970ء کہا یا 1870ء واضح طور پر سمجھ نہیں آئی کہ انہوں نے کیا کہا۔ 
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے روایتی سیاست دان اپنی پارٹی کے اہم عہدوں پر ہمیشہ کے لیے براجمان ہو جاتے ہیں۔ وہ نئی نسل کو اپنی جگہ لینے کی اجازت نہیں دیتے۔ اور تو اور تبدیلی کے داعی، عمران خان نے بھی اپنے نوجوان سیاسی حامیوں کو پارٹی پوزیشنیں دینے کی بجائے دوسری پارٹیوں کے متروک شدہ، از کار رفتہ اور نہایت قدیم زمانے سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں۔۔۔ ''جن میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہوشیار بھی ہیں‘‘ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی پارٹی میں جگہ دی اور انقلابی جتھا تیار کیا۔ 
اس صورتحال پر یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کہاں ہیں وہ نئے چہرے جن کی پاکستانی سیاست کو اشد ضرورت ہے؟ صرف بھٹو، چوہدری اور شریف خاندان کی نئی نسل ہی میدان سیاست میں ہے اور ان کی اپنی جماعت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ اس خاندان میں پیدا ہوئے جو پاکستانی سیاست کا ایک بڑا نام ہے۔ کم درجے کے سیاست دان بھی اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنے آبائی انتخابی حلقوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھتے ہیں۔ اس حلقے کی سیٹ ان کے خاندان کے پاس ہی رہتی ہے۔ اگرچہ مقامی سپورٹرز نعرے لگاتے، پرچم لہراتے، ان کے جلسوں کی رونق بڑھاتے رہتے ہیں لیکن رہنما ان افراد کو سیاسی یا مشاورتی عمل میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ 
ایک وقت تھا جب پی پی پی میں نیا خون شامل ہو رہا تھا۔ نئی اور جدید سوچ رکھنے والے افراد اس کی صفوں میں شامل تھے، لیکن آج پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ آج یہ جماعت بھی روایتی سیاسی جمود کا حصہ بن چکی ہے۔ آج نئی فکر اور سوچ کا ایسا بحران ہے کہ ایک پتا بھی ہلے تو طوفان دکھائی دیتا ہے۔ ذہین اور سوچ سمجھ رکھنے والے نوجوان مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ وہ کس جماعت میں شمولیت اختیار کریں۔ میں ان کو جواب دیتا ہوں کہ وہ اس سیاسی جماعت کا انتخاب کریں جو ان کے نظریات کے قریب تر ہو۔ وہ اعتراض کرتے ہیں کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا دامن بدعنوانی کے الزامات سے پاک نہیں۔ میرے پاس ان کی تردید کے لیے کوئی دلیل نہیں ہوتی، لیکن میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ اگر وہ نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں تو اُنہیں سیاست میں آنا ہو گا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ آج سیاست نوجوانوں کے لیے شجر ممنوعہ بنا دی گئی ہے کیونکہ اس کے تمام اعلیٰ عہدے مدت ہوئی ان افراد نے اپنے قبضے میں لے رکھے ہیں‘ جن کے لیے مرزا غالب کی یہ دعا شرف قبولیت کا درجہ پاتی محسوس ہوتی ہے۔۔۔ ''تم سلامت رہو ہزار برس‘‘۔ ان سیاسی جماعتوں کے عہدے ان کے بانی خاندان کے افراد کے پاس ہی رہنے ہیں، چاہے وہ جو بھی صلاحیت رکھتے ہوں۔ علاوہ ازیں پاکستان کے عام نوجوان سیاست کو ایک گندا کھیل سمجھتے ہوئے اس سے دور رہنا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ اس لیے سفید اور رنگے ہوئے بالوں والے احباب ''سلسلہ ٔ روز و شب، نقش گر حادثات‘‘ کی عملی مثال، سیاست کے ایوانوں کی مستقل رونق بنے رہتے ہیں۔ ان کی سیاسی معراج بینک قرضے حاصل کرنے اور معاف کرانے کے سوا اور کچھ نہیں۔ ان کی ساری زندگی پرانے سنہرے گیتوں کو گنگناتے ہوئے گزری ہے‘ لیکن بڑھاپے اور قنوطیت کے باعث وہ گیت بھی یادداشت سے محو ہو چکے ہوتے ہیں۔ 
ہماری سیاست پر اثر انداز ہونے والا ایک عامل برصغیر میں عمر کا احترام ہے۔ روایت ہے کہ نوجوان اپنے سے بڑوں کی مخالفت یا ان کو چیلنج نہ کریں۔ اسی کو سعاد ت مندی کہا جاتا ہے۔ 2010ء میں اسلام آباد کے نزدیک ایک نجی کمپنی کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ کیپٹن نے گرائونڈ سٹاف کی وارننگز کو مسلسل نظر انداز کیا۔ وائس ریکارڈر سے پتہ چلتا ہے کہ فرسٹ آفیسر نے اپنے سینئر کیپٹن، کی غلطی میں مداخلت نہ کی اور پیش قدمی کرتے ہوئے جہاز کا رخ تبدیل کرنے کی کوشش نہ کی حالانکہ اُسے کیپٹن کی غلطی کا احساس ہو چکا تھا۔ ایسا ہمارے ہاں اکثر ہوتا ہے کہ ہم سینئر اتھارٹی کے غلط فیصلوں کے سامنے سرتابی کی جرات نہیں دکھاتے۔ عام طور پر ہم ہنسی خوشی تباہی کی گھاٹی میں جا گرتے ہیں۔ قارئین کی پرانی نسل کو یاد ہو گا کہ کس طرح 1965ء اور پھر1971ء کی جنگوں کے دوران عوامی جوش و جذبہ اور فخر کا احساس بام عروج پر تھا۔ وہ نسل آج بھی ان جنگوں کی مافوق الفطرت کہانیاں سنا سنا کر نئی نسل کو انڈر پریشر رکھتی ہے۔ 
اس رویے کو ہماری فطرت میں راسخ کرنے کا کار خیر گھر سے شروع ہوتا ہے جب بچوں کو بتایا جاتا ہے۔۔۔ ''پتر وڈیاں اگے نئیں بولنا‘‘ (بڑوں کے سامنے زبان نہیں کھولنی، چپ چاپ حکم ماننا ہے) اس کے بعد والدین کی جگہ سکول ٹیچر اور پھر دفتر میں باس لے لیتے ہیں۔ اس کے بعد ہم اپنے بچوں اور ماتحتوں سے بھی اسی اطاعت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پھر تعلیم یافتہ نوجوان افراد میں یہ رجحان بھی فزوں تر ہے کہ وہ سیاسی میدان میں عملی قدم رکھنے کے بجائے اپنا احتجاج سوشل میڈیا پر آن لائن ہی ریکارڈ کرا کے مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں جبکہ گلیوں اور بازاروں کی سیاست شعلہ بیان ملائوں کے ہاتھ آ جاتی ہے۔ 
کسی نظام اور ڈھانچے کی غیر موجودگی میں ہماری سیاسی جماعتیں نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شریک ہونے کی دعوت نہیں دیتیں۔ شاید ایک نظریاتی جماعت، جیسا کہ جماعت اسلامی، میں مورثی سیاست کی بجائے ایک نظام موجود ہے، لیکن دیگر جماعتیں صرف بانی خاندانوں کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ عمران خان کا پاکستانی سیاست میں سب سے بڑا کردار نوجوانوں کو تحریک دے کر سیاست کی طرف راغب کرنا اور انتخابی عمل میں شریک ہونے کی حوصلہ افزائی کرنا تھا، لیکن حکومت کی مخالفت میں ہر مرتبہ گلیوں میں احتجاج کرتے ہوئے وہ اپنے نوجوان حامیوں کو اکسا رہے ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر اس ناقص نظام، جس کا وہ خود بھی حصہ ہیں، کی بساط لپیٹ دیں۔ اپنے تمام تر غلط فیصلوں کے باوجود، ہمیں کم از کم یہ تسلی رکھنی چاہیے کہ وہ اپنی جماعت کو اپنے بیٹوںکے سپرد نہیں کریں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں