کوئی کسر باقی ہے؟

کابینہ کمیٹی کا نیشنل سکیورٹی پر اجلاس طلب کریں... کور کمانڈر کانفرنس بلائیں... کراچی ایئرپورٹ پر طالبان کے حالیہ حملے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی قائم کریں۔ اس فقیدالمثال فعالیت کا دعویٰ کرنے کے بعد حکومت یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتی ہے کہ اس نے بہت کچھ کر لیا۔ گزشتہ دو عشروں سے یہاں برسر اقتدار رہنے والی حکومتوں نے دہشت گردی کی ہر لہر کے بعد یہی طرز عمل اپنائے رکھا اور اس طرح خود کو کچھ کرنے کی مشکلات سے بچائے رکھا۔ اس کے بعد جیسے ہی بہنے والا لہو خشک، بیانات ہوا اور زندگی اپنے معمول پر آتی ہے‘ پاکستان اسی خواب خرامی میں محو ہو جاتا ہے‘ یہاں تک کہ ایک اور حملہ ہو جاتا ہے۔ 
پڑنے والی پیہم مار، ضائع ہونے والی قیمتی جانوں اور برباد ہونے والی معیشت کے باوجود ہم نے سبق نہ سیکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ یہ وہ واحد عزم ہے جس کے متزلزل ہونے کا کوئی امکان ہویدا نہیں؛ چنانچہ دہشت گردوں کے مقابلے کے لیے نہ ہماری کوئی تیاری ہے اور نہ ہی سکیورٹی کے انتظامات کو بہتر بنانا ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ مشہور سائنسدان آئن سٹائن نے پاگل پن کی یہ تعریف کی تھی۔۔۔ ''ایک ہی عمل کو بار بار دہرانا اور ہر بار اس سے مختلف نتائج کی توقع کرنا‘‘۔ ہر مرتبہ پیش آنے والے خونچکاں واقعات پر ایک ہی رد عمل ظاہر کرنا، سست روی اور کاہلی سے دست کش نہ ہونا اور بے حسی اور سنگدلی کا مظاہرہ کرنے سے باز نہ آنا ہماری قومی قیادت کا وصف بن چکا ہے۔ جہاں تک ہماری تیاریوں کا تعلق ہے تو ان دو عشروںکے دوران پیش آنے والے واقعات کے نتیجے میں یہ بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ یہ دہشت گردوں کی سفاکیت، پلاننگ اور تحریک کے مقابلے کی نہیں۔ 
گزشتہ سال ہم میں سے بہت سوں نے یہ امید لگالی تھی کہ نئے وزیر اعظم طالبان کے خطرے پر زیادہ توجہ مرکوز کریں گے۔ سابق حکومت نے پانچ سال تک نااہلی اور غیر فعالیت کا سکہ اس طرح بٹھایا کہ کس کی مجال‘ ان اصناف میں ان کی ہمسری کا دعوے دار ہو۔ اس لیے میاں محمد نواز شریف کے اقتدار میں آنے پر سوچ پیدا ہوئی تھی کہ کاروباری ذہن رکھنے والے وزیر اعظم طالبان سے نمٹنے کی بھرپور کوشش کریں گے کیونکہ دہشت گردی کے ہوتے ہوئے سرمایہ کاری کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا۔ خواب دیکھنے میں کوئی حرج نہیں، اس لیے اُس وقت پیدا ہونے والی یہ روشن امید سابق تلخ تجربات کے اندھیرے دور کرتی دکھائی دیتی تھی‘ لیکن جب آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ یہ امید ''تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ‘‘ کے مترادف تھی۔ سکیورٹی کے معاملات بہتر بنانے اور طالبان سے لڑنے کے مسئلے سے سابق حکومتیں بھی پہلو تہی کرتی رہی ہیں لیکن موجود حکومت نے تو سابق تمام ریکارڈ ہی توڑ ڈالے ہیں۔ 
لڑنا تو درکنار، شروع کیے گئے نام نہاد مذاکرات کا مذاق بھی ختم ہوئے مدت گزری۔ اب تو مذاکرات کی نعش بے کفن بھی تعفن زدہ ہو چکی ہے۔ حال یہ ہے کہ اب میاں محمد نواز شریف اور عمران خان بھی طالبان کے ساتھ امن کے امکانات کی بات نہیں کرتے۔ بہت سے لوگ پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کے قاتلوں سے پنہاں خوف اور بظاہر ہمدردی رکھتے ہیں۔ انسانی تاریخ اس بے حسی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ 
کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد میں نے ایک صاحب کو ٹی وی پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایسے حملوں کو روکنا مشکل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے نائن الیون اور سات جولائی کو لندن میں ہونے والے حملوں کا ذکر کیا۔ اگر تجزیہ کاروں کی دانائی کا یہ معیار ہے تو پھر ہم اس سے کہیں زیادہ خطرے میں ہیں جتنے دکھائی دیتے ہیں۔ جن حملوں کا ان صاحب نے ذکر کیا، وہ سویلین اہداف تھے، اس لیے دہشت گرد ایک مرتبہ کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد ان ممالک کی طرف سے دہشت گردوںکو کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ ہمارے ملک میں تو جی ایچ کیو، نیول بیس اور ایئرفورس کی تنصیبات بھی دہشت گردوں سے محفوظ نہیں۔ ہماری نااہلی اور بزدلی کا یہ عالم ہے کہ وہ جب چاہتے ہیں‘ حساس ترین مقامات کو بے خوفی سے نشانہ بنا لیتے ہیں؛ تاہم ہمیں اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔ حال ہی میں کسی نے ٹویٹر پیغام میں کہا۔۔۔ ''پاکستان ایک ایسی سکیورٹی سٹیٹ ہے جس میں سکیورٹی نام کی بھی نہیں‘‘۔
کبھی ذہن میں یہ سوچ جاگزیں رہتی تھی کہ چونکہ ماضی میں ہم نے خود جہاد کی طرح ڈالی تھی، اس لیے انتہا پسندوں کا تدارک کیا جا سکتا ہے، لیکن اب تک ہونے والے تجربات ظاہر کرتے ہیں کہ اس ضمن میں بھی نااہلی آڑے آ رہی ہے یا پھر ابھی تک عسکریت پسندوں سے اغماض کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ کراچی حملے کے بعد ایک مرتبہ پھر سندھ حکومت اور وفاق کے مابین الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ چند ہفتے پہلے اس حملے کی پیشگی اطلاع بھیج دی گئی تھی جبکہ سندھ حکومت کا موقف ہے کہ ایئرپورٹ سکیورٹی کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اس بیان بازی سے جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کی ذرہ بھر تشفی نہیں ہو گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت کراچی میں طالبان کی خفیہ پناہ گاہوں کو ختم کرنے میں ناکام رہی۔ وہ اس حملے میں استعمال ہونے والے اسلحے کی بھاری کھیپ کا سراغ لگانے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی، لیکن وفاقی حکومت کی کوتاہی اس سے بھی کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اگر اس کے پاس پیشگی اطلاع تھی تو اس نے ایئرپورٹ کی سکیورٹی کو سخت کیوں نہ کیا یا پھر حملے کی تیاری کرنے والے دہشت گردوں کی سرکوبی کیوں نہ کی۔ کیا یہ قانون بن چکا ہے کہ جب تک دہشت گرد ہمارا خون نہ بہائیں، ہم اُنہیں کچھ نہیں کہیں گے؟
ہر حملے کے بعد ٹریننگ اور سازوسامان کی کمی اور پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیاسی قیادت کی غفلت اور نااہلی آشکار ہوتی ہے۔ جہاں تک اے ایس ایف کا تعلق ہے تو یہ بات حماقت کے زمرے میں آتی ہے کہ یہ ابھی تک اسی explosives detector کو استعمال کر رہے ہیں جو ایک برطانوی شہری، جسے فراڈ کے الزام میں سزا بھی ہو چکی ہے، کے فراہم کردہ ہیں۔ دراصل یہ میٹل راڈ دنیا کی مختلف ایجنسیوں نے خریدے اور فراڈ ثابت ہوئے۔ ان کا فراڈ آشکار ہو چکا، انہیں فراہم کرنے والے شخص کو سزا ہو چکی لیکن ہم ابھی تک ان کا استعمال کر رہے ہیں۔ 
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ دہشت گرد سکیورٹی فورسز کی یونیفارم استعمال کرتے ہوئے حساس مقامات پر داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یقیناً اس حربے کو روکنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ جب ہم مہنگی گاڑیوں اور افسر شاہی کے اخراجات پر بھاری رقم خرچ کرنے میں کوئی تامل نہیں سمجھتے تو کچھ رقم جدید سکیورٹی آلات پر خرچ کرنے سے کیا قیامت آ جائے گی؟۔ یہ سوچ بھی پروان چڑھ رہی ہے کہ بیرونی دنیا سے سکیورٹی ماہرین منگوانے میں کیا حرج ہے۔ ویسے بھی کنسلٹنٹس کی بھاری کھیپ ہر شعبے میں فعال دکھائی دیتی ہے، سکیورٹی کے امور میں بھی سہی۔ اس مشورے کو ہمارے خود پسند افسران یہ کہہ کر مسترد کر دیں گے کہ وہ خود ہی اتنی صلاحیتوں کے مالک ہیں کہ اُنہیں غیرملکیوں سے کچھ بھی سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ جب ریٹائر ہونے کے بعد یہ افراد ٹی وی پر گل فشانی کرتے ہیں تو ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ آئن سٹائن نے یہ بھی کہا تھا۔۔۔ ''دو چیزیں لامحدود ہیں، کائنات اور انسانی حماقتیں۔ تاہم اول الذکر کے لامتناہی ہونے پر شبہ ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں