ذہن میں سنجیدہ سو چ ابھرتی ہے کہ اگر آج جارج ڈبلیو بش امریکہ کے صدر ہوتے تو اب تک ایران، شام اور عراق اور نہ جانے اور کہاں کہاں امریکی بم، میزائل اور راکٹ برس رہے ہوتے۔ ان کے نتیجے میں مشرق ِو سطیٰ موجودہ صورت ِ حال سے کہیں زیادہ تشویش ناک حالات سے دوچار ہوتا۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ ہمیں شکر کرنا چاہیے کہ آج اوباما امریکی صدر ہیں؛ تاہم یہ پہلو بھی پیش نظر رہے کہ ناقدین کو خوش کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے سے احتراز کر تو رہے ہیں لیکن پیش آنے والے واقعات بتاتے ہیں کہ شام اور عراق میں صورت ِ حال تیزی سے قابو سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ اب معاملہ صرف مسلح جنگجوئوں کی طر ف سے ''آئی ایس آئی ایس‘‘ (شام اور عراق پر مشتمل ایک اسلامی ریاست) کے قیام کے لیے زمین پر قبضہ کرنے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کی وجہ سے مشرق ِ وسطیٰ ، بلکہ اس سے باہربھی، فرقہ وارانہ اختلافات کی خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں انتہائی ہولناک فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ بھڑک سکتی ہے۔
اگرچہ عراق کے بحران پر صدر اوباما نے سمجھداری سے کام لیتے ہوئے بہت محتاط رویہ اپنایا ، لیکن امریکہ اور برطانیہ میں بہت سی سنجیدہ آوازیں آئی ایس آئی ایس کی پیش قدمی روکنے اور عراقی ریاست کوتباہی سے بچانے کے لیے فضائی حملوں کا مطالبہ کررہی ہیں۔ یہ جنگجو دانشور نہیں جانتے کہ ان ریاستوں میں موجودہ خراب صورت ِ حال کی ذمہ داری ان کی طرف سے ماضی کی مہم جوئی اور مداخلت کارانہ پالیسی پر عائد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مسٹر ٹونی بلیئر نے 2003ء میں عراق پر حملے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی توانگلینڈ کے تقریباً تمام سیاسی حلقوں نے اسے دوٹوک انداز میں مسترد کردیا۔ مسٹر بلیئر آئی ایس آئی ایس کے حوالے سے اپنی ویب سائٹ پرلکھتے ہیں۔۔۔''ہمیں اس خیال سے خود کو آزادکرانے کی ضرورت ہے کہ یہ ہماری وجہ سے ہے۔ یقینا ہم اس کی وجہ نہیں ۔‘‘اس کا جوا ب دیتے ہوئے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لند ن کے دلچسپ مئیر بورس جانسن ''ڈیلی ٹیلی گراف ‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔''میں اب حتمی طور پر اس نتیجے پر پہنچ گیا ہوں کہ ٹونی بلیئر پاگل ہوچکے ہیں۔‘‘اپنی دلکش انگلش میں سابق وزیر ِ اعظم کی دماغی صحت کے لیے کچھ علاج تجویز کرنے کے علاوہ مسٹر جانسن اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عراقی فوج کو تباہ اور حکمران بعث پارٹی (Ba'ath Party)کے پچاس ہزار ارکان کو منتشر کرتے ہوئے قابض افواج نے عراق میں وہ بحران پیداکردیا جس کا نتیجہ آج انتہاپسندی کی صورت دیکھ رہے ہیں۔
دراصل 2003ء میں عراق پر کیے گئے حملے کے مضمرات طویل عرصے تک یکے بعد دیگرے سامنے آتے رہیںگے۔ جب 2011ء میں امریکی افواج نے عراق سے انخلا کیا تو یہ جنگ امریکہ میں انتہائی غیر مقبول ہوچکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صورت ِحال بگڑنے کے باوجود اوباما احتیاط کا دامن چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے علاوہ ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ اگر امریکہ انتہا پسندوں پر بمباری کرتا ہے اور غیر مقبول ہوتی ہوئی نوری المالکی کی حکومت کو سہارا دیتا ہے تو اسے ایک فرقے کے خلاف دوسرے کی حمایت کے مترادف سمجھا جائے گا اور عراق، شام اور ایران میں امریکہ کے کردار کو ایک خاص جہت سے دیکھا جائے گا۔ یہ صورت ِحال یقینا واشنگٹن کے دیرینہ اتحادیوں، سعودی عرب، کویت ، قطر اور یو اے ای ، کے لیے پسندیدہ نہیں ہوگی۔ یہ وہ ریاستیں ہیں جو اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر براہ ِراست یا بالواسطہ طور پر آئی ایس آئی ایس سمیت دیگر انتہا پسند تنظیموں کی مدد کررہی ہیں ، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب انتہا پسندی کا جہادی جن بوتل سے باہر آجاتا ہے تو پھر وہ بے قابو ہوجاتا ہے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ اب تک ایک اور عرب ملک بھی آئی ایس آئی ایس کے پھیلائوکو اپنے لیے خطرہ سمجھنا شروع ہو چکا ہے۔
یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ آئی ایس آئی ایس کو شکست دینے میں امریکہ اور ایران، دونوں کا مفاد وابستہ ہے، لیکن ان پر کی گئی فضائی بمباری سے شہری نقصان زیادہ ہوگا۔ عرب اور غیر ملکی جنگجوئوں کے علاوہ عراقی سنی بھی آئی ایس آئی ایس میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔ انھوںنے بہت سے قصبوں پر قبضہ بھی جما رکھا ہے۔ اب اگر ان پر بمباری کی جاتی ہے تو ان قصبوں میں رہنے والے عام شہریوں کا نقصان زیادہ ہوجائے گا۔ اس طرح امریکی چاہتے ہیںکہ کسی فوج کے بوٹ اس سرزمین پر ہوں لیکن یہ فوج اس کی اپنی نہ ہو۔ پھر کس ملک کی فوج۔۔۔۔ ایران کی؟ یقیناامریکہ یہی چاہتا ہے کہ ایران وہاں اپنی فوج اتارے اور آئی ایس آئی ایس کے خلاف جنگ کرے۔ تاہم ایران نے اس پر بہت واضح اور دوٹوک انداز میں اپنا موقف واضح کردیا کہ اگر چہ وہ عراق میں موجود مقاماتِ مقدسہ کی حفاظت تو کرے گا لیکن اس کے فوجی دستے لڑائی میں حصہ نہیں لیںگے جب تک وہاں موجود شیعہ آبادی کی جان کو خطرہ نہ ہو۔ آئی ایس آئی ایس کے خلاف لڑنے کے لیے تیسرا آپشن کردوں کے گروہ ہوسکتے ہیں۔ ان کے پیش مرگ (Peshmerga) جنگجوئوںنے کرکوک (Kirkuk) اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں پر پہلے ہی قبضہ کرلیا ہے اور وہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ یہ علاقے تاریخی طور پر ان کی ملکیت ہیں۔ تاہم کرد اپنے علاقوں کا دفاع کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں لیکن وہ امریکیوں کی خاطر یا المالکی کی حکومت کو انتہا پسندوںسے بچانے کے لیے ''پرائی آگ ‘‘ میںکودنا پسند نہیںکریںگے۔
خطے میں لگی آگ کا ایک خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکہ اور یورپ سے سینکڑوں نوجوان اور نوعمر لڑکے جہاد کرنے کے لیے آئی ایس آئی ایس کی صفوں میں شامل ہورہے ہیں۔ ایک ویڈیو میں ایک برطانوی مسلمان دیگر مسلمان لڑکوں کو ترغیب دے رہا ہے کہ وہ جہاد کرنے کے لیے ان کے ساتھ شامل ہوجائیں۔ یہ بات مغرب کے سکیورٹی اداروں کے لیے ڈرائونا خواب بنتی جارہی ہے کہ جب یہ لڑکے جہاد کے ماہرہوکر واپس اپنے وطن آئیںگے تو کیا ہوگا۔
ایک حقیقت جس کے براہ ِ راست ذکر سے میڈیا میں اجتناب کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ چاہے القاعدہ ہو یا آئی ایس آئی ایس، عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بعض انتہا پسندانہ گروہ ہی ہیں۔ ان کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ ریاستوں پر قبضہ کرکے وہاں اپنی مرضی کی شریعت نافذ کریں اور اس ریاست پر کسی خلیفہ کی حکومت ہو۔ اس مقصد کی خاطر وہ ہر اس قوت کے خلاف جہاد پر آمادہ ہیںجو ان کے راستے میں مزاحم ہو۔ ان کے مقابلے میں جو ہیں وہ بڑی حدتک مقامی اور مخصوص علاقوں تک ہی اپنی رسائی چاہتے ہیں۔ عالمی جہاد ان کا ایجنڈا نہیں۔ مشرق ِو سطیٰ میں یہی دو گروہ برسر ِ پیکار ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ پراکسی جنگ ہے جس کا مقصد لبنان سے بحرین تک اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرناہے۔ کیا اس کا کریڈٹ صدام حسین کو نہیںدیا جانا چاہیے کہ اس نے ان دونوں فرقوں کو اپنے ملک میں ''امن ‘‘ سے رکھا ہوا تھا اور 2003 ء کی عراقی جنگ سے پہلے یہاں فرقہ وارانہ فساد کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو اس کے پاس اس خانہ جنگی کے خاتمے کے بہت کم آپشنز ہیں۔اگرچہ اس نے سپیشل فورسز کے تین سو جوان بھیجے ہیں تاکہ وہ عراقی فوج کو مشورہ دینے کے علاوہ ان کا حوصلہ بڑھا سکیںلیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ کچھ انٹیلی جنس معلومات کی فراہمی کے علاوہ اور کچھ نہیں کر پائیں گے۔ بہرحال، آئی ایس آئی ایس تمام عراق پر قبضہ نہیںکرسکتی کیونکہ اس کے پاس اتنی افرادی قوت موجود نہیں ۔ اس کی کوشش ہے کہ وہ جتنے حصے پر قبضہ کرچکے ہیں، اسے عراق سے کاٹ دیں اور پھر آگے بڑھیں۔