انتہا پسندوں کے خلاف عارضی فتح

جب آپ پانی کے کسی تالاب میں سپرے کرتے ہیں تو آپ کو کچھ عرصے تک مچھروںسے نجات مل جاتی ہے لیکن جب تک ٹھہرے ہوئے پانی کا مکمل طور پر نکاس نہیںہوجاتا، اُس پرنقصان دہ حشرات دوبارہ پیدا ہوجائیںگے اور آپ کو دق کریں گے۔ اس وقت فوج جن دہشت گردوںکے خاتمے کے لیے شمالی وزیرستان میں کارروائی کررہی ہے، ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ اگرچہ ہمیں روزانہ کی بنیاد پر حاصل ہونے والی فوجی کامیابیوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے لیکن تاحال یہ بات غیر واضح ہے کہ جب تمام انتہا پسندوں کا علاقے سے صفایا کردیا جائے گا تو کیا ہوگا؟
مجھے اپنے فوجیوں کی عسکری صلاحیتوں پر یقین ہے کہ وہ انتہا پسندوں کو ہلاک کردیںگے یا قبائلی علاقوںسے مار بھگائیںگے لیکن اس کے بعد علاقے کا نظم و نسق ایک دوسری بات ہے۔ اس کے لیے انتظامی ڈھانچے کی ضرورت ہے تاکہ بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کی اپنے گھروںکو باعزت واپسی ممکن ہوسکے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ قبائلی علاقے بڑی حدتک خود مختار ہیں۔ یہاں ریاستی مشینری نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اس لیے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ دہشت گرد واپس نہیں آجائیں گے، وہاں مستقل سکیورٹی کا نظام قائم کرنا پڑے گا جو فوج کی جگہ لے گا۔ کیا قبائلی رہنما اس بات کی اجازت دیںگے؟ یہ بات اس لیے بھی ضروری ہے کہ طالبان کے مقابلے میں روایتی ملک اور سردار اپنی قوت اور اختیار کھو بیٹھے تھے۔ اس کے علاوہ ملکی بقا کی اس جنگ میں پوری قوم کی طرف سے فوج کے پیچھے کھڑے ہونے کی بھی ضرورت ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی قسم کے سیاست دان حکومت کو اس وقت عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش نہیںکرتے جب فوجیں ملک و قوم کے لیے زندگی اور موت کے معرکے میں مصروف ہوں۔ ان نازک حالات میں پاکستان میں لگایا جانے والا سیاسی تھیٹر یقینا حب الوطنی کے منافی ہے۔اس وقت جب ہم دہشت گردوں کو براہِ راست چیلنج کرچکے ہیں، ہمیں ملک میں سیاسی افراتفری کی مطلق ضرورت نہ تھی۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ پنجاب پولیس نے قادری صاحب اور ان کے پیروکاروں کو شور مچانے کا موقع دے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ماڈل ٹائون سانحہ، اگرچہ وہ انتہائی افسوس ناک تھا، کو سیاسی درجہ حرارت بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ 
ایک اور اہم معاملہ یہ ہے کہ بعض گروپوں کو ایک عرصے تک ''اثاثے‘‘ قرار دیا جاتا رہا۔ بہت سے لوگ اُنہیں اپنی پراکسی قوت قرار دیتے تھے جسے بعض مخصوص مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ کیا انہیں اثاثہ قرار دینے والے اس خیال سے باز آچکے ہیں؟ایسی اطلاعات ہیں کہ آپریشن سے پہلے ایک گروپ کو خبردار کردیا گیا تھا ، اس لیے اس کے جنگجو افغان سرحد کے پاس محفوظ علاقے کی طرف چلے گئے ہیں واللہ اعلم۔ 
تاہم رجائیت کادامن تھامتے ہوئے اگراس بات پر یقین کرلیا جائے کہ یہ علاقہ آنے والے کئی سالوں تک انتہا پسند جہادیوں سے پاک رہے گا پھر بھی وہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ پھر کیا ہوگا؟انتہاپسندی کے جراثیم راتوں رات پیدا نہیں ہوجاتے۔ اسی کی دہائی میں ضیاالحق نے اہلِ تشیع کے خلاف لشکر ِ جھنگوی اور افغانستان میں سوویت فورسز کے خلاف اسلامی جہادی لشکر تیار کیے ۔ اس کے بعد سے انتہا پسندی کو فروغ ملناشروع ہوگیا۔ اسے مغرب نے بھی تحفظ دیا ، لیکن اس کے اپنے سیاسی مقاصد تھے۔ سوویت انخلا کے بعد ہم نے اپنی توجہ ایک اور معاملے کی طرف مرکوز کردی اور اس کے کئی جواز پیش کیے جاتے رہے‘ فوائد گنوائے جاتے رہے۔ 
گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے اداروں اور سماجی حلقوں میں انتہا پسندانہ نظریات سرایت کرچکے ہیں۔ درحقیقت ہمارا تمام قومی دھارا دائیں بازو کی مذہبی اقدار اپناتا جارہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہاں مردہ گوشت ، جعلی ادویات اور ملاوٹ شدہ اشیا فروخت ہوتی ہیں اور خواتین سے بدسلوکی اور بدعنوانی میں ہم کسی بھی قوم کو مات دے سکتے ہیں۔اپنے ایک حالیہ کالم میں ، میں نے مائیکل گوو ، جو برطانوی سیکرٹری تعلیم ہیں، کاحوالہ دیا تھا کہ وہ کس طرح اپنے ملک کو مذہبی انتہا پسند ی سے بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ 2005ء کے لندن حملوں کے بعد لکھی جانے والی اپنی کتاب میں انہوں نے کہا ۔۔۔''اس جنگ میں صرف مگرمچھوں کا خاتمہ ہی نہیں کرنا، بلکہ دلدلی پانی کو بھی صاف کرنا ہے تاکہ اس میں مگر مچھ پیدا ہی نہ ہوسکیں۔‘‘سیدھی سی بات ہے کہ انتہاپسندانہ نظریات کی بیخ کنی کے بغیر انتہا پسندی ختم نہیںہوگی۔ 
کیا ہم بھی اپنے ہاں اس پانی کو صاف کریں گے جس میں مگر مچھ پیدا ہورہے ہیں؟ کیا ہم اتنی ہمت رکھتے ہیں؟ کیا ہم رجعت پسندانہ سوچ رکھنے والوں کو رقوم فراہم کرنے والے ممالک کے ہاتھ روک سکیں گے؟ شیخ سعدی نے کہا تھا۔۔۔''افعی کشتن و بچہ اش نگہ داشتن کارِ خرد منداں نیست‘‘(سانپ کومار دینا اور اس کے بچے کو پال لینا عقلمندوں کا کام نہیں) لیکن کیا ہم ایسا کرپائیںگے؟ اور پھر انتہا پسندوں کی حمایت کون بند کرائے گا۔ مذہب کے نام پر منافقت کا لبادہ کون چاک کرے گا؟فوج تواس ہمہ گیر جنگ کے ایک پہلو سے نمٹ رہی ہے، باقی مورچوں پر کون ایستادہ ہے؟ اگر نہیں تو پھر سب کار ِ لاحاصل ۔ 
درحقیقت جو کام ہمیں کرنا ہیں ، ان کی فہرست طویل ہی نہیں خوفناک بھی ہے۔ ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں اور مدرسوں میں بھی فرقہ واریت گھس چکی ہے۔ جو کسی مخصوص فرقے سے تعلق نہیں رکھتا، اسے دشمن اور بعض صورتوں میں غیر مسلم سمجھا جاتا ہے۔ اس ذہنیت کے خلاف جہاد کون کرے گا؟حکمران طبقے میں تو اتنا دم نہیں۔ ان سے تو یوٹیوب کھولنے کا حوصلہ نہیںہوا، اتنے جرأت مندانہ فیصلوں کی توقع عبث ہے۔یہ بات ہمیں اچھی لگے یا بری، حقیقت یہ ہے کہ ہماری سرزمین انتہا پسندی کے بیج کے لیے انتہائی ساز گار ہوچکی ہے۔ اس لیے آپریشن کے بعد کے حالات پر نظر ڈالتے ہوئے دل دہل جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آنے والی فتح پر خوشی عارضی ہوگی۔ مگر مچھ واپس آجائیںگے۔ اس جنگ میں، میں فوج کے پیچھے کھڑا ہوں لیکن حاصل ہونے والی فتح پر جشن نہیں مناسکتا کیونکہ ہم نے بہت سے اہم مورچوں پر جنگ شروع ہی نہیں کی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں