کوئی جائے فرار نہیں

کم و بیش تیس سال پہلے میں نے ژاں پال سارتر کا ایک کھیل 'No Exit‘ فرانس کے ایک تھیٹر فیسٹیول میں دیکھا تھا۔ اس میں تین افراد کو ایک تنگ کمرے میں قید کر دیا گیا۔ پہلے تو اُنہیں علم نہ ہوا کہ وہ وہاںکیوں ہیں لیکن پھر ان پر یہ احساس جاگزیں ہونا شروع ہو گیا کہ وہ مر چکے ہیں اور مرنے کے بعد اس کمرے میں ہمیشہ کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو دق کرتے رہتے ہیں جس سے ڈرامہ نگار یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ جہنم کا مطلب دراصل دوسرے لوگ ہیں، یعنی انسانوںکی اذیت کا باعث دوسرے انسان ہوتے ہیں۔ 
ایسا لگتا ہے کہ ہم بھی اسی اذیت ناک حالت کا شکار ہیں کیونکہ پاکستان پر یکے بعد دیگرے مختلف دروازے بند ہوتے جا رہے ہیں اور اس ''بند کمرے‘‘ میں ہم ایک دوسرے کو اذیت دینے کے لیے موجود ہیں۔ سری لنکا دنیا کے اُن چند ممالک میں سے ایک تھا جو پاکستانیوں کو آمد کے موقع پر ہی کولمبو ایئرپورٹ پر ویزا جاری کر دیتا تھا لیکن افسوس اب یہ سہولت ختم ہو گئی ہے۔ میں ذاتی طور پر اس سہولت کے ختم ہونے پر بہت شاکی ہوں کیونکہ میں گزشتہ پندرہ سال سے اس خوبصورت جزیرے پر باقاعدگی سے، خاص طور پر موسم سرما گزارنے جایا کرتا تھا۔ سری لنکن حکام کی طرف سے پالیسی میں تبدیلی کی وجہ وہ سینکڑوں پاکستانی ہیں جو سیاسی پناہ کی غرض سے اس ملک میں آجاتے ہیں۔ ان میں بعض دوسرے مذاہب کے لوگ بھی شامل ہیں کیونکہ ان کے بقول انہیں پاکستان میں نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر پناہ حاصل کرنے والوںکی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر سری لنکا اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور ہو گیا ہے تو ہم اُسے موردِ الزام کیسے ٹھہرا سکتے ہیں؟ ہر ریاست کو اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے اور کوئی بھی کسی کی وجہ سے اپنا نقصان نہیں کیا کرتا۔ 
گزشتہ کئی برسوں سے گرین پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے دنیا بھر میں ویزے کے حصول کے لیے کڑی شرائط عائد کی جاتی رہی ہیں۔ غیر قانونی تارکینِ وطن سے لے کر ہیروئن کے سمگلروں اوردہشت گردوں تک، پاکستانیوں نے ہر میدان میں اپنا لوہا منوا رکھا ہے۔ جب مجھے ویزے کے حصول کے لیے مختلف رکاوٹوں سے گزرنا پڑتا ہے تو غصہ بہت آتا ہے لیکن یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ دوسری ریاستیں پاکستانیوں کو داخلے کی اجازت دینے سے کیوں گریزاں ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی اور پشاور ایئرپورٹس پر حملوںکی وجہ سے بھی کچھ فضائی کمپنیوں نے اپنی پروازیں منسوخ کر دیں۔
دراصل ہم پاکستان میں مسلسل ہونے والے فساد اور پُرتشدد کارروائیوں کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہمارے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا ہے۔ ہم یہ سوچتے ہی نہیں کہ پاکستان کے حالات کو معمول کے مطابق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جن ممالک میں قانون کی حکمرانی اور ریاست کی عملداری موجود ہے‘ وہاں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ دہشت گردوں کے ٹولے ایئرپورٹس پر حملے کر دیں یا محوِ پرواز مسافر طیاروں پر فائرنگ ہو جائے یا 
دہشت گرد عوام کو قتل کرنے کے بعد بھی محب وطن قرار پائیں۔ اس کے علاوہ پولیو کے پھیلائو کے خطرے کی وجہ سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بیرونِ ملک سفر کرنے والے پاکستانیوںکے لیے لازم قرار دیا ہے کہ وہ پولیو سے بچائو کی ویکسین استعمال کرنے کا دستاویزی ثبوت ساتھ لائیں؛ تاہم ڈبلیو ایچ او کو بہت جلد اس بات کی تفہیم ہو جائے گی کہ یہ پاکستان ہے اور یہاں کسی بھی ڈاکٹر کو معمولی سی فیس کے عوض سرٹیفکیٹ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دنیا ہمیں دہشت گردی اور انتہا پسندی ہی نہیں، پُرفریب طریقے اپنانے کی وجہ سے بھی پہچانتی ہے۔ 
جس طرح پاکستانیوں کے لیے بیرونی دنیا کا سفر اختیار کرنا دشوار سے دشوار تر ہوتا جا رہا ہے، غیرملکی بھی پاکستان آنے سے پہلے سو مرتبہ سوچتے ہیں۔ پاکستان میں تعینات ہونے والے زیادہ تر سفارت کاروںکے لیے پاکستان ایسی جگہ نہیں جہاںکوئی شخص اپنے اہلِ خانہ کو لانے کا خطرہ مول لے سکے۔ بہت کم سرمایہ کار پاکستان آ کر اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس نانگا پربت کے دامن میں دس غیر ملکی کوہ پیمائوںکی پاکستانی طالبان کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکت کے بعد کوئی سر پھرا کوہ پیما بھی پاکستان آنے کے لیے تیار نہیں۔ تشدد اور دہشت کی وجہ سے ملک میں فنونِ لطیفہ کے سوتے بھی خشک ہو چکے ہیں۔ ملک میںکسی جگہ کھلے عام موسیقی کے شو کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 
کھیل کے میدان میں بھی پاکستان کو عالمی تنہائی کا سامنا ہے۔ 2009ء میں لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد کسی غیر ملکی ٹیم نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔ یہاں بھی ہم کس کو مورد ِ الزام ٹھہرائیں؟ ہم نے سری لنکن ٹیم سے صدرِ مملکت کے مساوی سکیورٹی فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا‘ لیکن عملی طور پر جب دن دیہاڑے، شہر کے انتہائی بارونق علاقے میں دہشت گردوں نے کھلاڑیوں کی بس پر فائرنگ کی تو سکیورٹی انچارج پولیس افسر ناشتہ کر رہا تھا۔ یہ ہے وہ نااہلی اور فرائض سے غفلت برتنے کی روایت جس کی وجہ سے دہشت گرد اور مجرم دیدہ دلیری سے اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اُنہیں گرفتار نہیں کر سکتے اور نہ ہی کوئی اُنہیں سزا دینے کی ہمت رکھتا ہے تو اُنہیں کس بات کا ڈر؟ اگر کبھی غلطی سے گرفتار ہو بھی جائیں تو وہ جیل توڑ کر بھاگ جاتے ہیں یا ضمانت پر رہا کر دیے جاتے ہیں۔ بعض مذہبی‘ سیاسی جماعتیں ان کی حمایت کے لیے کمربستہ رہتی ہیں اور ان کی پُرتشدد کارروائیوں کے جواز تلاش کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ 
سزا نہ ملنے کے اس ماحول میں تشدد اور عدم برداشت کو فروغ ملنا لازمی تھا۔ سب سے پہلے پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں اور عورتوں کو تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔ اس کے بعد ہزارہ برادری کو خون میں نہلایا گیا۔ اس برادری کے ہزاروں لوگ عام سی کمزور کشتیوں میں بیٹھ کر آسٹریلیا میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ میں نے حال ہی میں کہیں پڑھا ہے کہ چین میں رہنے والے احمدی ناخوش ہیں لیکن وہ جہاں بھی ہیں اور جس حال میں بھی ہیں، پاکستان میں رہتے ہوئے انتہا پسندوںکی گولیوں کا نشانہ بننے سے پھر بھی بہتر ہیں۔ ہمارے ہاں پائے جانے والی عدم برداشت، تشدد اور جہالت کی وجہ سے دنیا چاہتی ہے کہ کسی طرح یہ قوم کہیں غائب ہو جائے تاکہ مہذب دنیا پر اس کا سایہ نہ پڑے، لیکن جب کم و بیش بیس کروڑ افراد سے کھچاکھچ بھرا یہ ملک اپنے نظریات اور کارروائیوں سمیت نیلے آسمان تلے موجود ہے تو باقی دنیا خوفزدہ نظروں سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے سوچتی ہے کہ انہیں کس طرح خود سے دور رکھا جائے۔ 
جانی نقصان اور ناقص سکیورٹی پر بے تحاشا خرچ کی جانے والی رقم کے علاوہ ہمیں انتہاپسندی کی وجہ سے ہونے والے بالواسطہ نقصان کا بھی حساب لگانا چاہیے۔ دنیا ہم پر اپنے دروازے بند کر رہی ہے۔ ہمارے طلبہ بیرونی دنیا سے رابطہ نہیں کر پا رہے، اُنہیں مہذب افراد کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے اور کچھ سیکھنے کا موقع نہیں مل رہا جس سے ہماری ذہانت کا لیول جو پہلے ہی بہت قابل رشک نہیں تھا، مزید گر جائے گا، ہم دنیا میں ہونے والی حیرت انگیز ترقی سے بیگانہ ہو جائیں گے۔ دوسری طرف ہماری اپنی دنیا کی دیواریں بھی مزید تنگ ہوتی جائیں گی۔ ژاں پال سارتر کا نتیجہ یاد کر لیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں