اگلے دن ایک خبر پڑھنے کو ملی کہ ہمارے وزیر ِ اعظم اپنے حالیہ دورے کے دوران نئی دہلی میں ایک عظیم الشان بھارتی پرچم دیکھ کر اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو ہدایت کی کہ وہ بھی اسلام آباد میں اتنا ہی بڑا پاکستانی پرچم لہرائیں۔ اس طرح دو سو فٹ بلند پول پر 541 فٹ وسیع پرچم لہرایا جائے گا۔ کیا یہ '' اسراف ‘‘ جائز ہے؟ کیا بڑے پرچم کا مطلب عظیم قوم ہے؟جس طرح دبئی نے کوالالمپور کے پیٹرونس ٹوئن ٹاورز (Petronas Twin Towers) کو مات دینے کے لیے 2,716 فٹ اونچی دنیا کی بلند ترین عمارت برج خلیفہ تعمیر کی، اس طرح ہم بھی پرچم کے سائز میں بھارت سے سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ رہنما‘ جو فکر و عمل کی ٹھوس صلاحیت سے عار ی ہوتے ہیں، ایسی علامات میں ہی کامیابی کا پہلو تلاش کرتے ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ پر کہ ایک بڑا پرچم پاکستانیوں کو درپیش مسائل کیسے حل کرسکتا ہے؟اس کے بڑے سائز سے ان کی زندگی میں کیا آسانیاں آجائیںگی؟ اس سے انرجی کا بحران کس طرح حل ہوگا؟ اب تک یہ بات تقریباً مستحکم ہوچکی ہے کہ نوازشریف ایک سیدھے سادے انسان ہیں اور وہ پورے خلوص اور حسن ِ نیت سے خود کو آنے والے دور کا شیر شاہ سوری دیکھتے ہیں۔ سولہویں صدی کے اُس حکمران نے کابل سے لے کر چٹاگانگ تک جی ٹی روڈ تعمیر کی تھی۔ نواز شریف بھی اس سے کم پر راضی نہ ہوںگے۔ افواہ ہے کہ نواز شریف کے پہلے دور ِ حکومت میں ان کے وزیرِ خزانہ نے ان کے کسی عظیم منصوبے پر اعتراض کرنے کی کوشش کی ، لیکن وزیر ِ خزانہ کی تجویز کو یہ کہہ کررد کردیا گیا۔۔۔''کیا شیر شاہ سوری نے سڑک تعمیر کرتے وقت مالی امور کا حساب رکھاتھا؟‘‘
ان کے سابق دور بھی ہائی پروفائل منصوبوںسے عبارت تھے۔ ان کا مقصد پاکستان میں عظمت کا احساس اجاگر کرنا تھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان میں اکثر پاکستان کی مالی پوزیشن کے حوالے سے ناقابل ِعمل تھے لیکن وزیرِ اعظم ان کی ہر صورت تکمیل چاہتے تھے۔ اب عظیم پرچم لہرانے کی موجودہ سوچ پر واپس آجائیں۔ وزیر ِ اعظم کو احساس ہونا چاہیے کہ پرچم کی بذاتِ خود کوئی حیثیت نہیںہوتی، حیثیت اس کی ہے جس کی یہ ایک علامت ہے۔ اپنے بچپن میں ، میںنے سنا تھا کہ پاکستانی پرچم میں سبز رنگ مسلمانوں، جبکہ سفید رنگ یہاں آباد غیر مسلم شہریوں کی علامت ہے۔ آج غیر مسلموںسے جیسا سلوک کیا جا رہا ہے‘ اس سے تو لگتا ہے کہ ہمارا پرچم مکمل طور پر سبز ہونا چاہیے۔
قیام ِ پاکستان کے شروع کے دنوںمیں آتش جوان اور عزم کا سورج نصف النہار پر تھا تو آزادی اور مساوات کی بہت باتیں کی جاتی تھیں۔ ہمارے قومی ترانے کی ایک لائن۔۔۔''پرچم ِ ستارہ و ہلال، رہبرِ ترقی و کمال‘‘ بہت جوش سے پڑھی جاتی تھی۔ کیا یہ لائن آج اسلام آباد کی جدید عمارتوں کے سائے میں غریب بستیوں میں رہنے والے عیسائیوں کے لیے کوئی مطلب
رکھتی ہے؟یہ عظیم لوگ ہمارے دارالحکومت کے گھر اور گلیوں کوصاف کرتے ہوئے ''نصف ایمان‘‘ یقینی بناتے ہیں لیکن اُنہیں شہری حقوق حاصل نہیں۔
ڈان میں ہما یوسف اس خراب سلوک پر قلم اٹھاتی ہیں‘ جو اقلیتوں سے روا رکھا جاتا ہے۔ برے سلوک سے تنگ آکر وہ دوسرے ممالک میںپناہ لینے پر مجبور ہیں اور ستم یہ ہے کہ دیگر ممالک میں اُنہیں پاکستانی سمجھ کر ناپسندیدہ نظروںسے دیکھا جاتا ہے۔ اُنہیں ہر آن دھڑکا لگارہتا ہے کہ اُنہیں ڈی پورٹ کردیا جائے گا؛ تاہم اس موضوع پر نہ ہمارے ٹی وی اسٹوڈیوز میں بات ہوتی ہے اور نہ ہی یونیورسٹیوں میں۔ دراصل یہ موضوع ہمارے نصاب ِ تعلیم یا معاشرے کی گفتگو کاحصہ نہیںہے۔
پرچم قومی اتحاد اور یک جہتی کی علامت ہوتا ہے، لیکن کئی برسوں سے ہمارا وفاقی ڈھانچہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہا ہے۔ پہلے ہماری بدسلوکی سے تنگ آکر بنگالیوں نے اپنی راہیں الگ کرلیں، اب کچھ اور لوگ ناخوش ہیں۔ بلوچستان اور اندورن سندھ اس حوالے سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ قبائلی علاقے تو ریاست کے اندر ریاست کی طرح ہیں کہ وہاں ریاست کی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے۔ آج وہاں آپریشن کیا جارہا ہے تاکہ وہاں موجود انتہا پسندوں کے زور کو توڑتے ہوئے ریاست کی عملداری قائم کی جاسکے۔ ایسی صورت ِ حال دنیا کے اور کس ملک کو درپیش ہے؟یہ بات بھی طے ہے کہ صرف فوجی طاقت سے کسی ملک کے وفاق کونہ تقویت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی اُسے مستقل بنیادوںپر قائم رکھا جاسکتا ہے۔ یقینا کوئی ایک چیز قومی یک جہتی قائم کرنے کے لیے کافی نہیں۔۔۔ مشرقی پاکستان کی مثال سامنے ہے۔ کسی بھی وفاق کو سلامت اور مستحکم رکھنے کے لیے ریاست اور شہریوں کے درمیان ایک سماجی بندھن اور مشترکہ مفادات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کے ذہن میں یہ تاثر تقویت پارہا ہے کہ وفاق ایک صوبے کی خواہشات کا آئینہ دارہے۔ جہاں تک نواز حکومت کا تعلق ہے تو یہ اس تاثر کی نفی کرنے میں ہرگز کوشاں نہیں دکھائی دیتی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ علامات اہمیت رکھتی ہیں۔ ہم میں سے زیادہ تر کے لیے اردو، کرکٹ ٹیم اور ہمارا پرچم ہمیں متحد رکھنے والے عناصر ہیں؛ تاہم گزشتہ چند برسوں سے پاکستانی ہونا قابل ِ فخر نہیں رہ گیا کیونکہ بیرونی دنیا میں ملک کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ہمارے سبز پاسپورٹ کو دیکھ کر ہی ایمی گریشن افسران کی پیشانی شکن آلود ہوجاتی ہے۔ اس صورت ِحال کے پیدا ہونے میں اکیلے وزیراعظم نواز شریف کو ہی موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ ہم سب ہی اس گراوٹ میں حصہ دار، اور اسے قسمت سمجھ کر قبول کررہے ہیں۔ جب ہم گاڑیوں کی نمبر پلیٹس پر ''الباکستان‘‘ لکھنے میںکوئی قباحت نہیں سمجھتے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے ملک کے نام کو عربی تلفظ کے مطابق تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم اپنی جنوبی ایشیائی شناخت کو رد کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ہماری یہ شناخت ثقافت اور روایات کے اعتبار سے پوری عرب دنیا سے زیادہ قوی ہے۔وہ تمام ممالک مل کر بھی ہمارے ادب، ہماری موسیقی، ہمارے فنون ِ لطیفہ اور ہماری روایات کی مثل نہیں لا سکتے‘ تو پھر ہم ذہنی پسماندگی کا شکار کیوں ہیں؟
جس دوران وفاق کو یکجا رکھنے والی اکائیاں کمزور ہورہی ہیں، فوج ہی اسے استحکام بخشنے کی کوشش کررہی ہے۔ تاہم اس دوران ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی میں دفاعی ا داروں نے ہی جمہوری عمل میں نقب لگا کر وفاقی یک جہتی کو نقصان پہنچایا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ تر سیاست دان ہی اس مسئلے کا حصہ ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس بے حسی کے عالم میں علامہ طاہر القادری اور عمران خان اپنے اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے نعرہ زنی کررہے ہیں۔۔۔ سینہ کوبی کی باری بعدمیں آئے گی۔ دراصل وفاق کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان سے نمٹنے کے لیے تمام سیاست دانوں کو اکٹھا ہونا پڑ ے گا۔ محض پرچم بڑا کرنے سے یہ مسائل حل نہیں ہوںگے۔