مسلمانوںکے درمیان کشمکش کا مختصر جائزہ

آخر کار مسلمانوں کو وہ منزل نصیب ہوئی جس کی اُنہیں بہت دیر سے آرزو تھی۔۔۔ اسلامی خلافت کا قیام۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس پر جشن کیوں نہیں منارہے؟کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ عالم ِ اسلام کے خودساختہ خلیفہ ، ابوبکر البغدادی کے پاس اپنی خلافت کا اعلان کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہ تھا، کیونکہ اس کے لہو میں ڈوبے ہوئے ماضی کی وجہ سے بہت سے مسلمان اس کے سیاہ پرچم کو سلام کرنے کے لیے تیار نہیں، لیکن خلافت تو پھر ایسے ہی قائم ہونی تھی۔ پر امن آپشن جمہوریت ہے جو ہمیں غیر اسلامی دکھائی دیتی ہے۔ 
اب ابوبکر البغدادی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے، لیکن زیادہ تر مسلمانوںنے اُس کی بات سنی ان سنی کردی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج دنیا کی سوچ وہ نہیں جو پہلے تھی۔ آئی ایس آئی ایس کی برق رفتار پیش رفت کے باوجود یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ اسے بہت مقبولیت حاصل ہے۔ اس گوریلا فورس کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ اس کے مد ِ مقابل فوج میں جان نہیں۔ شام میں بشارالاسد کی فوج بہت سے گروہوں میں لڑنے میں مصروف ہونے کی وجہ سے آئی ایس آئی ایس پر توجہ نہ دے سکی، جبکہ عراق میں المالکی کی حکومت اپنے بچائو کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ اس کے علاوہ البغدادی اپنے ہم مسلک افراد، جو اس خطے میں اپنے مخالف فرقے سے نفرت کرتے ہیں، کو بھی اپنی صفوں میں شامل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اگر پاکستان میں اب تک طالبان کی امارت قائم نہیں ہوئی تو اس کی واحد وجہ پاک فوج ہے ورنہ ان کا ''انفراسٹرکچر‘‘ (مدرسے) ملک کے چپے چپے میں موجود ہے۔ 
تمام اسلامی دنیا ایسی ہی افراتفری کا شکار ہے۔ مصر میں ایک طرف فوج اور اس کے حامی گروہ ہیں تو دوسری طرف روایتی سوچ رکھنے والے اخوان ہیں۔ یہاں جس طریقے سے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں (اخوان کے رہنمائوںکو ملنے والی سزائیں) ایک بھرپور خانہ جنگی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ گزشتہ ہفتے''دی اکانومسٹ ‘‘ نے ایک سٹوری''عربوں کا سانحہ‘‘ کے نام سے پیش کی۔ اس کہانی میں ایک درجن سے زائد خانہ جنگی کے واقعات کا ذکر کیا گیا جو 1975ء سے لے کر اب تک مشرق ِ وسطیٰ میں مختلف مقامات اور مختلف مواقع پر پھوٹ پڑے۔ ان داخلی جنگوں میں کم و بیش ایک ملین افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اگر ان میں 1971ء میں مشرقی پاکستان میں ہونے والی خانہ جنگی اور 1980ء کی دہائی میں عراق اور ایران کے درمیان ہونے والی طویل او ر خونی جنگ کو بھی شامل کرلیں تو یہ سمجھنا آسان ہوجائے گا کہ مسلمانوں کا خون غیروں نے اتنانہیں بہایا جتنا اُنھوںنے ایک دوسرے کا بہایا۔۔۔ اور ستم یہ کہ الزام ہمیشہ بیرونی سازشی عناصر پر عائد کیا۔ 
اب اس موجودہ خانہ جنگی میں نئی بات یہ ہے کہ مسلم ریاستوں میں جاری ناقابلِ حل تنازعات، کشمکش اورفرقہ وارانہ منافرت نے اسے بے حد پیچیدہ بنادیا ہے۔سیاسی عزائم، جہالت اور غربت کو عقائد کا ہمنوا بناکر ہم تشدد اور ذہنی پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے جارہے ہیں۔وہ عرب ممالک جو تیل کی وجہ سے خوشحال ہیں، وہاں بھی سخت گیر قوانین عوام کی زندگی کو اجیرن بنائے رکھتے ہیں۔ اور ان معاملات میں کوئی عالمی سازش کارفرما نہیں، ہماری سوچ اسی نہج پر ڈھل چکی ہے۔ اس وقت مشرق ِو سطیٰ میں تین فالٹ لائنز ہیں۔۔۔ مسئلہ فلسطین، فرقہ وارانہ تنازع اور جمہور پسند لبرل حلقوں اور سخت گیر حکمرانوں کے درمیان کشیدگی۔ ان حکمرانوں 
میں بشار الاسد‘ جنرل سیسی‘ یو اے ای، بحرین، کویت اور قطرکے حکمران شاہی خاندان شامل ہیں۔ یہ خاندان اقتدار کو قبضے میں رکھنے کے لیے ہر قسم کے جبر کو روا سمجھتے ہیں۔ یہ دشمنوں کے ساتھ تو سمجھوتہ کرسکتے ہیں لیکن اپنے عوام کو سیاسی آزادی دینے کے لیے تیار نہیں ، مبادا ان کی خوشحالی، عیاشی اور عوام پر گرفت میں کوئی فرق آجائے۔ 
بعض عرب ممالک کے درمیان علاقائی بالا دستی کے لیے ہونے والی کشمکش میں پاکستان سے لے کر لبنان تک فرقہ واریت کا گہرا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ انتہا پسند نظریات جس نے نوجوان مسلمانو ں کے ذہن کو زہریلا بنادیا ہے، کے سوتے یہیں سے پھوٹتے ہیں۔ اپنے اداریے میں ''دی اکانومسٹ‘‘ لکھتا ہے۔۔۔''اسلام کی موجودہ تشریح، عربوں کے مسائل کی اصل وجہ ہے۔ عقائد کے رنگ میں رنگے ہوئے مذہبی اور سیاسی ادارے مسجد اور ریاست کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھتے، اس لیے ان کے ہاں سیاسی اور جمہوری رویے پروان نہیں چڑھ سکے۔ انتہا پسندی اور قتال پر آمادہ مسلمان گروہ بھی خونریزی کا جواز تلاش کر لیتے ہیں۔ اس تشدد کے ڈرسے دیگر مسلمان اپنے اپنے 
فرقے کی چھتری تلے رہنے میں ہی عافیت گردانتے ہیں۔ اسلام کی یہ انتہا پسندانہ شکل آج کل سب سے زیادہ پھیل رہی ہے۔ اس کی پہنچ نائیجریا سے لے کر شمالی انگلستان تک ہے‘‘۔ دی اکانومسٹ کا مدیر اس فہرست میں انڈونیشیا، افغانستان اور پاکستان کو بھی شامل کرسکتا تھا۔ 
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود کو اس انتہاپسندی کا شکار قرار دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم ان جہادیوں کو اسلام کے مجاہدقرار دیتے ہیں جو اسلام کی عظمت اور اسلام کے ابتدائی دور کی واپسی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ جب تک ہم اخلاقی جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنے دشمن کا سامنا نہیں کرتے اور اس کا نام لینے سے گریزاں رہتے ہیں، ہم اس تشدد اور دہشت گردی کی لپیٹ میں رہیں گے۔ اپنے مسائل پر بیرونی عناصر، خاص طور پر مغربی ممالک، پر الزام عائد کرنا بہت آسان ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ مغرب نے ہمیشہ مسلمان ریاستوں پر مسلط آمریت کی پشت پناہی کی۔ سرد جنگ کے دوران ہونے والی پیش رفت نے معاملات کو مزید بگاڑدیا، لیکن ہم بہرحال ہم اپنی قسمت کے خود مالک ہیں۔ یہ آمر، امیر، بدعنوان سیاست دان، بادشاہ اور اب خلیفہ ہم نے ہی اپنے سر پر مسلط کیے ہوئے ہیں۔ ان سب کے پاس عوام کا خون نچوڑنے کے لیے کوئی نہ کوئی جواز موجود ہے۔ اس پر واشنگٹن یا لندن کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہ ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں