یہاں ایک عجیب سا معاملہ درپیش ہے کہ اگر چہ ہم پاکستانی متفقہ طور پر جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہم سیاست دانوں سے نفرت کا اظہار اور فوجی جنر لوں کی تعریف کرتے ہیں۔اس عجیب وغریب رویے کا عملی ثبوت اس سرزمین پر وقتاً فوقتاً جاری رہنے والے لانگ مارچ(عام طور پر اسلام آباد کی جانب) اور منتخب شدہ حکومت پر میڈیا میں ہر آن ہونے والی تنقید کی صورت میںدیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جب عوامی شکایات اور ''مٹ جائے کی مخلوق تو انصاف کرو گے‘‘ جیسے واویلے کو جواز بناتے ہوئے کوئی فوجی آمر نہایت ''خلوص ِ نیت‘‘ سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالتا ہے تو ہم اس پر پِل پڑتے ہیں۔
اقتدار کی اس مارکیٹ میں فوجی حکومتوں کی ''شیلف لائف ‘‘ منتخب شدہ حکومتوںسے کہیں زیادہ ہوتی ہے اورسیاست دانوں کے مقابلے میں فوجی آمرزیادہ ''پائیدار ‘‘ ثابت ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پی پی پی کی سابق حکومت کسی طور اپنے پانچ سال پورے کر گئی لیکن ایسا کرنے کے لیے اس نے خود کوعدلیہ، میڈیا، اپوزیشن اور دیگر طاقتور اداروں کی مکہ بازی کے سامنے ایک punching bag بنائے رکھا اور سر اٹھانا تو کیا اُف‘ کرنے کے لیے لب کشائی کی جسارت بھی نہ کی۔ اب نواز شریف حکومت کو بمشکل ایک سال ہوا تو اس کو چلتا کرنے کا مطالبہ بہت سوںکا ورد ِ زباں بن چکا ہے۔ کبھی آف نہ ہونے والے ٹی وی اسٹوڈیوز فوجی مداخلت اور وسط مدتی انتخابات کی راگنی (جو ہمارے ہاں کبھی بھی بے وقت کی نہیں سمجھی جاتی) سے گونج رہے ہیں اور بظاہر باخبر افراد عوام کو ہر روز اندر کی نت نئی خبروںسے آشنا کرتے ہیں۔
میں موجودہ وزیر ِ اعظم کا نہ مداح ہوں اور نہ میں نے کبھی ان کی جماعت کو ووٹ دیا ، بلکہ میںاپنے کالموں میں ان پر تنقید کرتا رہتا ہوں، لیکن بات یہ ہے کہ ان کو لاکھوں افراد نے ووٹ دے کر کامیاب کیا اور ان میں سے بیشتر کی حمایت ابھی بھی اُنہیں حاصل ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ان کی جماعت نے ایک مثبت اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے پی پی پی حکومت کو گرانے کی مطلق کوشش نہیں کی تھی حالانکہ ان کو اس کے بارہا مواقع بھی ملے تھے۔ اُس جمہوری رویے کی وجہ سے اُنہیں فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ بھی سننا پڑا تھا۔ یہ رویہ نواز شریف کی سیاسی پختگی کی دلالت کرتا ہے۔ اس سے پہلے اُنھوںنے پی پی پی کی دونوں حکومتوں ( محترمہ کے دور میں) کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی عملی کوشش کی تھی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ اقتدار کے بھوکے سیاست دانوں کی چالبازیوں سے بھری ہوئی ہے کہ کس طرح وہ اپنے مقاصد کے لیے فوج اور طالع آزماجنرلوں کا کندھا استعمال کرتے رہے ہیں۔ بعض سرکاری افسراور صحافی بھی اس طرح کی صورت ِ حال میں خوش رہتے ہیں کیونکہ اُنہیں آمریت کے دسترخوان سے کیک کا زیادہ بڑا ٹکڑا مل جاتا ہے۔ یہ افسوس نا ک ماضی رکھتے ہوئے گزشتہ سال ایک جمہوری حکومت کو اپنی مدت پوری کرتے دیکھنا سکون کا باعث تھا، لیکن ایسا لگتاہے کہ اب ایک سال بعد ہی عمران خان، طاہر القادری، گجرات کے چوہدری صاحبان اور کچھ موقع پرست سیاست دانوں کے صبر کا
پیمانہ لبریز ہوچکا۔ ایسا لگتا ہے کہ انتخابات کے ایک سال بعد اِ نہیں ایسا محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ اب ان کی باری آیا ہی چاہتی ہے اور اب لوگ اُنہیں اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
جہاں تک عمران خان کے کچھ متنازع حلقوں میں ووٹوںکی دوبارہ گنتی کے مطالبے کا تعلق ہے تو وہ اس میں حق بجانب ہیں ۔ میں ان کے انتخابی عمل میں اصلاحات لانے کے مطالبے کی بھی حمایت کرتا ہوں کیونکہ ہر انتخابات پر دھاندلی کے الزامات کا تسلسل کوئی مستحسن صورت ِحال نہیں اور نہ ہی یہ جمہوریت کے لیے کوئی بہتری لائے گی ، لیکن میں عمران خان کے اس موقف کی مخالفت کروں گا کہ وہ چودہ اگست کو ایک ''فیصلہ کن جنگ ‘‘ کرتے ہوئے حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ میرے دوست کالم نگار عباس ناصر اپنے ایک حالیہ کالم میں تجویز کرتے ہیں کہ لانگ مارچ کی بجائے عمران خان کو اپنی توانائی اور وقت خیبر پختونخوا کے عوام کی بہتری اور صوبے میں اپنی جماعت کی کارکردگی میں بہتری لانے کی کوشش میں صرف کرنا چاہیے، لیکن جب ان کی نظر وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر مرکوز ہے، ان کے لیے2018ء کا انتظار کرنا مشکل ہورہا ہے۔ مسلم لیگ کے کچھ دھڑے عمران خان کے ساتھ مل چکے ہیں اور کچھ سیاسی جماعتیں دیکھو اور انتظار کروکی پالیسی پر گامزن ہیں، جبکہ حال ہی میں زرداری صاحب نے بھی یہ کہہ کر اپنا پتھر پھینک دیا کہ لوگوںنے ایک وزیر ِ اعظم ، نہ کہ بادشاہ، کو منتخب کیا تھا۔
اس دوران اگرچہ دفاعی ادارے مناسب خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن اس بات میںکوئی شک نہیں کہ فوج مشرف کیس کے حوالے سے نواز شریف سے ناراض ہے کیونکہ اُنھوںنے سابق جنرل کی رہائی کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ اگرچہ اسٹیبلشمنٹ نے مشرف کی وطن واپسی کی مخالفت کی تھی، لیکن اب وہ انہیں تنہا نہیںچھوڑیں گے۔ ان کے رویے سے ایسا لگتا ہے کہ مشرف کا ہرقیمت پر تحفظ کیا جائے گا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود نوازشریف کی کارکردگی بری نہیںہے۔۔۔ کم از کم پی پی پی کی سابق حکومت کے مقابلے میں۔ ایسا نہیں کہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر چل نکلا ، لیکن روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہے جبکہ سٹاک مارکیٹ بھی 30,000 مارک کا ہدف عبور کرچکی ہے۔ اس دوران انتہا پسندوںکے خلاف شمالی وزیرستان میں آپریشن بھی جاری ہے۔ اس لیے ایسی کوئی بات نہیں کہ اس حکومت کو اس کی آئینی مدت سے چار سال پہلے ہی فارغ کردیا جائے۔
اس وقت پاکستان کو جن مسائل نے گھیرا ہوا ہے،اُنہیں چند ماہ میں حل نہیں کیا جاسکتا ۔ مثال کے طور پر موجود بجلی کا بحران دور کرنے کا کوئی مختصر مدت کا منصوبہ نہیں اور نہ ہی لاکھوں بے روز گا ر افراد کو راتوں رات ملازمتیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ کئی عشروںسے عوام کے خون پر پلنے والا دہشت گردی کا جن آسانی سے واپس بوتل میں نہیںجائے گا۔ اس ہائیڈرا کے بہت سے سر ہیں، تاہم اچھی بات یہ ہے کہ ایک ایک کرکے کٹنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان مسائل کے ہوتے ہوئے آپ کسی کو بھی، چاہے عمران خان کو، وزیر ِ اعظم بنا دیں، راتوں رات بہتری آہی نہیں سکتی۔ اگر پاکستان تحریک ِ انصاف کسی فوری بہتری کا وعدہ کررہی ہے تو یہ پانی کے بلبلے کے سوا کچھ نہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم پاکستانی فطرتاً بے صبرے اور جلد باز ہیں۔ اس جلد بازی کا مظاہرہ ہم اپنی تمام زندگی، خاص طور پر اس کا وہ حصہ جو سڑکوں پر بسر ہوتا ہے، میں کرتے رہتے ہیں۔ عصر ِحاضر کے کسی دانشور نے کہا تھا۔۔۔''پاکستانی ہر آن بہت جلدی میںہوتے ہیں لیکن اُنہیں جانا کہیں بھی نہیں ہوتا۔‘‘قطار بناکر اپنی باری کا انتظار کرنے سے ہمیں پیدائشی نفرت ہے۔ ہم چھلانگ لگا کر دوسروں کو پھلانگتے ہوئے سب سے پہلے کائونٹر تک پہنچ جانا چاہتے ہیں۔ سیاست دان بھی اسی رویے کا اظہار کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی ناسمجھی کہہ لیں کہ اس کی زیادہ تر توجہ مسائل کو حل کرنے کی بجائے خود پر ہونے والے حملوں کا جواب دینے پر مرکوز ہے، حالانکہ اس کی ضرورت نہیں ۔ اس وقت ضروری ہے کہ آپ نوا ز شریف کو جتنا بھی ناپسند کرتے ہوں، اُنہیں مزید چار سال اس بات کا موقع دیں کہ وہ اس ملک کے لیے جو بھی کرنا چاہتے ہیں کرلیں ۔ اس کے علاوہ دوسری جماعتوں کوپی ایم ایل (ن) کو ملنے والے لاکھوں ووٹوں کا احترام بھی کرنا چاہیے۔