جب ہیرو سیمسن (Samson) نے اپنے سر سے مندرکوگرایا، اپنے دشمنوں اور حریفوں کوہلاک کیا تو وہ تاریخ میں پہلا انسان ثابت ہوا جس نے اپنے دشمنوں کو ہلاک کرنے کے لیے خود کشی کی۔ اسرائیل نے اپنی ایٹمی حکمتِ عملی اسی اصول پر وضع کررکھی ہے کہ اگر اُسے اپنے ہمسایوں سے حملے یا جارحیت کا ہلکا سا بھی خطرہ ہوا تو وہ اپنے ایٹمی ہتھیاروںکو استعمال کرنے میں ہرگزہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو نہیں چھوڑے گا چاہے اُس کا اپنا کتنا ہی نقصان ہوجائے۔ اس حکمت ِعملی کو''سیمسن آپشن‘‘ کہتے ہیں۔
عرب رہنما اسرائیل کی اس حکمت ِعملی اور صلاحیت سے بخوبی واقف ہیں۔ پچاس کی دہائی میں اسرائیل نے فرانس کے خفیہ تعاون سے اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانا شروع کیا ؛ تاہم اب اس پر مزید کام بند کردیا گیا ہے کیونکہ کوئی عرب ریاست خواب میں بھی اسرائیل کے وجود کے لیے کوئی خطرہ نہیں بن سکتی۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حماس بھی ایک طرح کا سیمسن آپشن ہی استعمال کررہا ہے؛ تاہم اس خودکشی کا مقصد بہت محدود ہے۔ حماس اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے نیست ونابود کرنے کی توقع نہیں کرسکتا، وہ صرف اسرائیل اور مصرکی طرف سے غزہ کے محاصرے کی شدت کو قدرے نرم کرنا چاہتا ہے۔ جب وہ اسرائیلی قصبوں پر بے ضرر سے راکٹ فائر کرتا ہے تو وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے کہ اس کے جواب میں اسرائیلی بمباری سے غزہ کے سیکڑوں بے گناہ شہری ہلاک ہوجائیںگے۔ اس طرح وہ معصوم فلسطینیوں کی جانوں کو دائو پر لگاکر اُس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کی کوکشش کرتا ہے جس کی وجہ سے یہ تنگ زمینی پٹی ایک طرح کی جیل میں تبدیل ہوچکی ہے۔
اگرچہ اسرائیل نے حماس کی طرف سے مصرکی جنگ بندی کی تجویزکو مسترد کرنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اُسے ایک ایسی تنظیم ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو سنگدلی کا مظاہر کرتے ہوئے اپنے مقاصد کے لیے بے گناہ شہریوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے، لیکن دوسری طرف یہ بات بھی قابل ِ فہم ہے کہ اگر جنگ بندی کرکے دوبارہ محاصرے کے سامنے سر جھکانا ہی تھا تو پھر اسرائیل پر پھینکے جانے والے اُن راکٹوں کا کیا جواز تھا جن کی وجہ سے سیکڑوں افراد کی جان گئی؟اس لیے حماس کو یقیناً کوئی باعزت حل چاہیے تا کہ وہ اپنے عوام کو بتا سکے کہ ان افراد کا خون رائیگاں نہیں گیا کیونکہ وہ ایک مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
دوسری طرف اسرائیل اپنے دشمن کو کوئی بھی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں ہے۔ اس قتل ِعام پر ہونے والے عالمی احتجاج کے باوجود اس کا آزمودہ حلیف، امریکہ اس کی غیر مشروط حمایت کرتے ہوئے اس کی پشت پر موجود ہے۔ امریکی اور اسرائیلی سیاست دان ایک ہی موقف کااعادہ کرتے ہیں کہ ہر ملک اپنے شہریوں کو راکٹ حملوںسے بچانے کا حق رکھتا ہے۔ تاہم یہ موقف اختیار کرتے ہوئے وہ ایک بات فراموش کردیتے ہیں کہ کسی ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی اور ملک کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ جماکر اس کے شہریوں کو تاحیات ایک جیل میں بند کردے۔ درحقیقت دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں جس نے کسی اور ملک کے شہریوں پر عرصۂ حیات اس قدر تنگ کررکھا ہو۔
پریشرککر بناتے ہوئے ایک سائنسی اصول کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس میں سیفٹی والو بنائے جائیں تاکہ اگر پریشر حد سے بڑھ جائے تو اس کا اخراج ہوجائے ۔ ماضی میں غزہ کے قانونی بارڈرکراسنگ اور خفیہ سرنگیں ایک سیفٹی والوکا کام دیتے تھے لیکن مصر میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جنرل سیسی نے مصر سے غزہ کی طر ف جانے والی سرنگیں اور رفاہ کراسنگ (Rafah crossing) کو بند کردیا۔ اگرچہ مصر نے ایسا اسرائیل کے حکم پر کیا تھا لیکن اس سے جنرل سیسی کی حماس کے لیے نفرت کا بھی اظہار ہوتا ہے کیونکہ حماس اخوان کی فطری اتحادی ہے۔
فی الحال اسرائیل کی طرف سے غزہ پر زمین، فضا اور سمندر سے حملے کرکے شہریوں کا قتل ِعام کرنے پر صرف مغربی ممالک سے ہی احتجاجی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ فلسطین پر وحشیانہ بمباری کے دوران مسلمان ریاستیں دم سادھے بیٹھی ہیں۔ برازیل اور Ecuador نے اپنے سفارت کاروں کو اسرائیل سے واپس بلا لیا۔ لندن سے لزبن(Lisbon) تک، ہر ٹی وی چینل ہسپتالوں اور مسجدوں پر ہونے والی بمباری کے تکلیف دہ
مناظر دکھارہا ہے، لیکن چند فوجیوں کی ہلاکت اور بن گوریاں (Ben Guiron) ائیر پورٹ کی دو دن بندش کے علاوہ اسرائیل کا کوئی نقصان نہیںہوا اور نہ ہی اُسے اس درندگی کی کوئی قیمت ادا نہیں کرنی پڑی ؛ تاہم جس دوران اسرائیل یہ جنگ بھی اُسی طرح جیتنے کے قریب ہے جس طرح اُس نے ماضی میں عربوں اور فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی تمام جنگیں جیتی تھیں، یہ جنگ روایتی انداز میں ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔گزشتہ چند ایک دنوں سے چینل 4 کے ایک مقبول اینکر جان اسنو غزہ میںموجود ہیں اور وہ وہاںسے نشریات کرتے ہوئے تباہی کے مناظر دنیاکو دکھارہے ہیں۔ ہونے والی خونریزی سے برطانوی معاشرے میںنہ صرف اسرائیل کے خلاف غصہ بڑھتا جارہا ہے بلکہ اپنی حکومت کے خلاف بھی کہ وہ ان جنگی جرائم کے رد ِعمل میں کچھ نہیںکررہی۔
اس تمام صورتِ حال میں حماس کو بھی بالکل بے قصور نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ قانونی اور غیر قانونی طریقے سے غزہ میں آنے والی اشیا پر بھاری ٹیکس عائد کرکے ہونے والی آمدنی سے محروم اور صدرمرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعد بے یارومددگار رہ جانے کے بعد حماس نے الفتح کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی، لیکن اس سے اہل ِ غزہ کے حالات پر کوئی مثبت اثر نہ پڑا ؛ چنانچہ حماس نے سیمسن آپشن استعمال کرنے کی ٹھانی۔ ایک اور بات، حماس نے ایسا کرتے ہوئے غزہ کے شہریوں کو اعتماد میں نہیں لیا تھا کہ وہ اسرائیل پر راکٹ باری کرنے جارہا ہے۔ یہ بات کوئی ناسمجھ بھی جانتا تھاکہ غزہ کی گنجان آبادی پر اسرائیلی کی کارپٹ بمباری کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ قہر یہ ہے کہ اس دوران حماس کے تمام اہم رہنما دیگر ممالک میں ہیں یااپنی زیر ِزمین محفوظ پناہ گاہوں میں اسرائیلی بمباری سے بچے ہوئے ہیں۔ عام شہریوں کے سر پر ایسی کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ اب اتنے شہری نقصان کے بعد اگر جنگ بندی ہوجاتی ہے تو وہ عارضی ہوگی اور کسی بھی دن پھرکوئی نہ کوئی دھماکہ ہوجائے گا۔
اسرائیل نے اس سے پہلے 2012 ء میں غزہ پر حملہ کیا تھا؛ تاہم اس مرتبہ ایک فرق پڑا ہے۔ اسرائیلی فوجی افسران نے تسلیم کیا ہے کہ اس مرتبہ ان کا سامنا ایک بہتر اور طاقتور حریف سے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حماس پہلے سے زیادہ طاقتور اور منظم ہوچکی ہے۔ جہاں تک اسرائیل کی طرف سے سرنگوں کی تباہی کو جنگ کا ہدف قرار دینے کی بات ہے تو اس میں کوئی وزن نہیں کیونکہ جیسے ہی جنگ بند ہو گی، یہ سرنگیں دوبارہ کھودلی جائیںگی۔ ایک نہ ایک دن دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر ِ اعظم نتن یاہوکو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ غزہ اور مغربی کنارے پر ہونے والے تشدد کی اصل وجہ ان کی طرف سے غزہ کا کیا جانے والا محاصرہ اور توسیع کی پالیسی ہے۔ موجودہ خونریزی کے نتیجے میں حماس کی صفوں میں مزید مشتعل فلسطینی نوجوان شامل ہوں گے۔ امریکہ کی پشت پناہی سے اسرائیل کی واحد پالیسی تشدد کا بے دریغ استعمال ہے لیکن گزشتہ سینتالیس برسوں سے اس پالیسی پر عمل کرنے کے باوجود مسئلہ حل نہیں ہوا، اس لیے اگر تل ابیب نہیں توکم از کم واشنگٹن کو دیکھنا چاہیے کہ کیا اس کا کوئی بہتر حل نکل سکتا ہے؟