جیسے جیسے یومِ آزادی قریب آتا جارہا ہے، ''آزادی‘‘، ''انقلاب‘‘ اور ''نیا پاکستان‘‘ کے نعرے فضا کو گرما رہے ہیں۔ اتنی انقلابی آزادی کا ماحول ہم نے بہت دیرسے نہیں دیکھا تھا۔ ایک بات صاف دکھائی دیتی ہے کہ بہت سے پاکستانی موجودہ ''گلے سڑے نظام ‘‘ سے تنگ آچکے ہیں اور وہ کوئی تبدیلی چاہتے ہیں۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح کی تبدیلی چاہتے ہیں؟بارک اوباما نے بھی انتخابی مہم کے دوران تبدیلی کا وعدہ کیا تھا لیکن ان کے حامیوں کو کیا ملا؟ آج ان کی دوسری مدت میں بھی امریکیوںکے حالات جوں کے توں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی طے شدہ نظام کو بدلنے کے لیے بہت زیادہ سیاسی تاب و تواں اور مشقت طلبی درکار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ضروری ہے کہ آپ کے پاس کوئی واضح متبادل نظام موجود ہو۔ جب 1970ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سیاسی مہم شروع کی تو ان کے ذہن میں سوشل انقلاب کا خاکہ موجود تھا۔ آپ اُن کے سوشلسٹ پروگرام سے اختلاف کرسکتے ہیں ۔۔۔ اداروں کو قومیانے کی پالیسی نے ملک کو یقینی طورپر سخت نقصان پہنچایا۔۔۔لیکن یہ بات طے ہے کہ جب وہ انقلاب کا نعرہ لگارہے تھے تو ان کے ذہن میں اس پروگرام کا خاکہ واضح طور پر موجود تھا۔ اسی طرح اُن انتہا پسندوں، جو پاکستانی ریاست کے ساتھ برسرِپیکار ہیں، کے پیشِ نظر بھی ایک واضح مقصد ہے۔ وہ پاکستان کا موجودہ نظام ختم کرکے اس پر قدیم قبائلی نظام مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ان کے نظریات کو رد کرسکتے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ ان کی جدوجہد بے سمت ہر گز نہیں۔ وہ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
موجودہ صورتِ حال کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ عمران خان اور طاہرالقادری کے پاس اپنے پیروکاروں کو متاثر کرنے کے لیے کوئی واضح پروگرام نہیں۔ دونوں بدعنوانی، لوڈ شیڈنگ ، بے روزگاری اور نواز حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ دونوں کے انقلابی نعروں میں لاکھوں افراد کے روزگار کا وعدہ کیا جاتا ہے‘ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی نوید بھی سنائی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ بدعنوانی تو ان کی شکل سے بھی بدکتی ہے۔ انہیں دیکھتے ہی راہ بدل کر ملک سے فرار ہوجائے گی، لیکن ان مقاصد کے حصول کے لیے ان کے پا س کوئی عملی پروگرام موجود نہیں ہے۔
تبدیلی کے نعرے بہت اچھے ہیں، تاہم حقائق کی دنیا کے تیور کچھ اور ہوتے ہیں۔ یہاں خوشنما التباسات برساتی مینڈک بھی ثابت نہیں ہوتے۔ اس لیے ان کے نعروں کو ایک طرف رکھتے ہوئے معروضی انداز میں حالات کا جائزہ لیں اور فرض کرلیں کہ نواز شریف کو ہٹا کر عمران خان اقتدار پر فائز ہو جاتے ہیںتو کیا وہ بدعنوانی کو ختم کرلیںگے؟انتخابات کے دوران اُنھوںنے نوّے دنوں میں بدعنوانی ختم کرنے اور تھانے، کچہری اور پٹوار کی اصلاح کا وعدہ کیا تھاتاہم خیبر پختونخوا میں تحریک ِ انصاف کی حکومت ایک سال بھی اس سلسلے میں کوئی واضح قدم نہیں اٹھا سکی۔ اگر ایک صوبے میں یہ مشکل ہے تو پورے ملک کی بدعنوانی کوختم کرنا پلکوں سے صحرا چھاننے کے مترادف ہے۔ پاکستان کے معروضی حالات میں زیادہ فرق نہیں پڑتا کہ حکومت میںکون ہے، سرکاری انتظامیہ اور افسرشاہی تو وہی رہتی ہے۔ حکومت اقتدار میں آکر کچھ تبادلے وغیرہ کرنے کا شوق پورا کرلیتی ہے اور اس کے بعد وہی ڈھاک کے تین پات۔ یہاں ایماندار سرکاری افسراور بابو پیراشوٹ کے ذریعے آسمان سے نہیں اتر آتے اور نہ ہی ایسا ہونے کی کسی سونامی یا انقلابی کو امید لگانی چاہیے۔
کئی برسوں سے سول سروس اور ہماری پولیس فورس نہ صرف بدعنوان ہوچکے ہیں بلکہ نااہل بھی؛ چنانچہ اگر آپ مقامی تھانیدار یا پٹواری کے پاس جائیں اور اُسے کہیں کہ ''خاقانِ اعظم ‘‘ کا فرمان ہے کہ آج کے بعد کوئی بدعنوانی نہیںہوگی تو میری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ یادپڑتا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران خان صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ لاکھوں پاکستانی بیروزگاروںکو روزگار مہیا کریںگے۔ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال چالیس لاکھ نوجوان ملازمت حاصل کرنے کے خواہشمندوں کی صف میں شامل ہوتے ہیں جبکہ پہلے ہی لاکھوں افراد بے روزگار ہیں توعقل حیران ہے کہ عمران خان اس سیلاب ِ بلا کو کس کے گھر لے جائیںگے؟کیا اُن کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے؟
پاکستان میں بجلی کی کمی کا مسئلہ بھی ہر سال سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ پی پی پی کی حکومت کوبجلی کی کمی لے ڈوبی تھی اورنعروں کے باوجود نواز حکومت کی کارکردگی بھی زیادہ بہتر نہیں۔ کئی ایک مواقع پر عمران خان نے کہا کہ وہ پاکستانی دریائوںسے بجلی پیدا کریں گے۔ کیا ان کے مشیروں میںسے کسی نے اُنہیں یہ بتانے کی زحمت کی ہے کہ ایک ڈیم کو تعمیر کرنے میں کتنا وقت اور لاگت درکار ہوتی ہے؟
ان منصوبوں کے لیے درکار اربوں ڈالروں کے علاوہ خیبر پختونخوا اور سندھ دریائوں پر بند باندھ کر بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔ اس ضمن میںکسی کو غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ صرف پنجاب ہی پن بجلی کے منصوبوں کا حامی ہے جبکہ باقی صوبوںکی رضا مندی کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اس ساری بحث میں ایک سوال بمشکل ہی زیر ِ بحث لایا جاتا ہے کہ کتنے لوگ بجلی کے بل ادا کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وزیر ِ بجلی خواجہ آصف نے ہمیں بتایا تھا کہ خیبر پختونخوا میں93 فیصد بجلی کے بل ادا نہیں کیے جاتے، اس کے باوجود وہ لوڈ شیڈنگ پر احتجاج کرتے ہیں۔ اگر افراد، کاروباری اور سرکاری ادارے اور طاقتور محکمے بجلی کے بل ادا نہیں کریںگے تو بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو تیل یا گیس خریدنے کے لیے ادائیگی نہیں کی جاسکے گی اور نہ ہی نئے پاور پروجیکٹس بنا ئے جاسکیںگے۔
ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ عمران خان اورطاہر القادری کی طرف سے تبدیلی کے وعدوں میں کتنی جان ہے؟ اگرچہ یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی جو حالت آج ہے، اُس سے تو کچھ بھی بہتر ہوسکتا ہے۔ جب میں نے گزشتہ مضمون میں کہا کہ جو بھی ہو، نواز شریف کو اپنی مدت پوری کرنے کی اجازت ملنی چاہیے تو بہت سے قارئین کی طرف سے مجھے غصے بھرے پیغامات ملے۔ اس لیے موجودہ حکومت کی کارکردگی کے پیشِ نظر اگر لوگ تبدیلی کے خواب دیکھ رہے ہیں تو اُنہیں موردِالزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا اور نہ ہی اُنہیں جمہوریت کا دشمن قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس کے باوجود ہمیں حقائق سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ عمران خان کا لانگ مارچ حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کردے لیکن مجھے شک ہے کہ خان صاحب کسی مارچ کے بل بوتے پر نہ تو بجلی کاایک میگاواٹ پیدا کرسکتے ہیں اور نہ ہی افراد کے لیے ملازمت کے مواقع ۔ ان سے تو کسی بدعنوان سرکاری افسر کی پیشانی بھی عرق آلود نہیں ہوگی۔ ایسی تبدیلیوں کے نعرے ہم سن چکے ہیں اور ان کے انجام سے بھی ہم واقف ہیں۔ اب جب کہ حالات کی تمازت بڑھتی جارہی ہے، دیکھنا ہے کہ چودہ اگست کو عمران خان کون سا تیر مارتے ہیں۔