ایل بی جے

جس طرح عمران خان تقریباً ہر روز 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کا اعادہ کرتے سنائی دیتے ہیں، مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایل بی جے (Lyndon Baines Johnson)۔۔۔ امریکہ کے چھتیسویں صدر(1963-1969)۔۔۔ کاابتدائی سیاسی دور بھی اسی طرح کے الزامات سے بھرپور تھا۔ وہ ایک چالاک امریکی رکن ِکانگرس تھے اور صدر کینیڈی کے قتل کے بعد صدر بنے تھے۔ ایل بی جے کی سیاست کا محور کامیابی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اپنے طویل سیاسی دور میں وہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار دکھائی دیتے تھے۔ رابرٹ کیرو(Robert Caro) ان کی سوانح عمری میں ہمیں بتاتے ہیں ۔۔۔''ایل بی جے کا مقصد ِ حیات ہر قیمت پر اقتدار کا حصول تھا۔ وہ ایسے انسان تھے جو طاقت کے تعاقب میں رہتے تھے، یا پھر طاقت ان کے تعاقب میں رہتی تھی۔‘‘تاہم ان کی زندگی کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ طاقت حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے ، لیکن اس کے حصول کے بعد اس کا ناجائز استعمال غلط ہے۔ 
ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے 1960ء میں جان کینیڈی کے دور میں نائب صدر کا عہدہ قبول کرلیا۔ اس سے پہلے وہ ڈیموکریٹ پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار بننا چاہتے تھے لیکن جان کینیڈی اور ان کے بھائی بوبی نے ایل بی جے کا بہت کامیابی سے راستہ روکا۔ رابرٹ کیرو لکھتے ہیں کہ بوبی کینیڈی اور ایل بی جے کے درمیان ایک طویل عرصے تک بیان بازی ہوتی رہی۔ تاہم کینیڈی برادران نے اپنی دولت، تعلیم اور کشش کے ذریعے ان کی دال نہ گلنے دی۔ تین سال تک بطورنائب صدر ایل بی جے کو توہین آمیز رویہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ وائٹ ہائوس کا ماتحت عملہ اور صحافی بھی ان کے ساتھ ناروا سلوک کرتے حالانکہ بعد میں آنے والا دور اُنہیںامریکہ کا ذہین ترین سیاست دان تسلیم کرنے والا تھا۔ 
رابرٹ کیرو نے 605 صفحات پر مشتمل سابق امریکی صدر اور امریکی تاریخ کے زیرک ترین سیاست دان کی سوانح عمری لکھی ہے۔ میرے بھائی سلمان مرحوم نے کئی سال پہلے مجھے اس کتاب کے بارے میں بتایا تھا ، لیکن پھر میں نے سوچاکہ کیا مجھے ایل بی جے کے بارے میں یہ کتاب پڑھنے (کسی سیاست دان کے بارے میں605 صفحات پڑھنا آسان کام نہیں)کے لیے درکار طویل وقت صرف کرنا چاہیے؟ میری نسل کے افراد کے لیے ایل بی جے کا نام ویت نام جنگ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کبھی دنیا کے مختلف دارالحکومتوں میں یہ نعرہ لگایا جاتا تھا۔۔۔۔ ''ہے ہے، ایل بے جے۔۔۔ تم کتنے بچے مار و گے‘‘۔ 
تاہم میرے دوست کارل سیپرز نے مجھے سخت تاکید کی کہ مجھے یہ سوانح عمری ضرور پڑھنی چاہیے۔ میں نے ہامی بھر لی لیکن جب اس ضخیم کتاب پر نظر پڑی تو میں نے سوچا کہ میں اس کی سرسری ورق گردانی کروں گا جو دلچسپ چیز لگے گی، اس کا مطالعہ کرلوں گا۔ تاہم جب کتاب پڑھنا شروع کی تو اندازہ ہوا کہ مسٹر کیرو کو نان فکشن کتاب پر تقریباً ہر ایوارڈ کیوںمل چکا ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے سیاسی سوانح عمری کا ایک نیا معیار قائم کیا ہے۔ اس کی تحریر نے مجھے سحر زدہ کردیا۔چونکہ یہ کتاب اتنی بھاری بھرکم تھی کہ اسے بستر پر لیٹ کر نہیں پڑھا جاسکتا، اس لیے میں راتوں کوجاگ کر کرسی پر بیٹھ کر اس کا مطالعہ کرتا۔ آخر کار میںنے اسے ختم کرہی لیا۔ حیرت تھی کہ کیرو نے کس گہرائی میں جاکر تحقیق کی تھی ۔ ان کی رواں اور دلچسپ انگلش نے اس کا مطالعہ بہت پُرلطف بنا دیا تھا۔ 
کیرو کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ایل بی جے ایک پیچیدہ انسان ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت زیرک سیاست دان تھے۔ ان کا دماغ ایسے معاملات کو بھی گرفت میںلے لیتا تھا جو عام سیاست دانوں کی فہم سے دور رہتے ہیں۔ اس لیے ان سے بہت سی متنازع قانون سازی منسوب ہے۔ ان کے دور میں بنائے گئے قوانین او ر وضع کیا گیا طریق ِ کار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے امریکی معاشرے کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہم میں زیادہ تر یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی صدر لامحدود اختیارات کا مالک ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی آئین صدر کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے ۔ ان رکاوٹوں پر نظر رکھتے ہوئے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایل بی جے نے کس طرح یہ قوانین منظورکرائے۔ 
جب نائب صدر بننے سے پہلے ایل بی جے سینٹ کے لیڈر تھے، انہوں نے اس عہدے کو بے حد طاقت عطاکی۔ بہت سے مبصرین اُنہیں واشنگٹن کا دوسرا سب سے طاقتور شخص مانتے تھے۔ وہ طاقت کے لیے بلیک میلنگ سے بھی اجتناب نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے سیاست میں ''نہیں‘‘ کو ''ہاں‘‘ میں بدلنے کا ہنر دریافت کرلیا تھا (آج کل ہمارے ہاں اس کی اشد ضرورت ہے)۔ امریکی کانگرس بہت طاقتور ہوتی ہے۔ اس کی کمیٹیوں اور ذیلی کمیٹیوں کو بھی بہت سے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ معمولی بل منظو ر کرانے کے لیے بھی دانتوں پسینہ آجاتا ہے۔ اپنے تمام تر گلیمر کے باوجود صدر کینیڈ ی ترقی پسندانہ قانون سازی نہ کرسکے۔ 
جب کینیڈی کے قتل کے بعد 22نومبر1963ء کو لینڈن بی جانسن نے حلف اٹھایا تو اُنہیں احساس ہو گیا تھا کہ ان کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ سول رائٹس ایکٹ کو منظور کرالیں۔ کیرو تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ سینٹ کی فنانس کمیٹی کے چیئرمین ہیری بائرڈ (Harry Byrd)نے اس وقت تک یہ بل منظور کرنے سے انکار کردیا جب تک اس میں ایک سو بلین ڈالر کی کمی نہیں کی گئی۔ جب تک بجٹ منظور نہ کرلیا جاتا، سول رائٹس بل کو زیر ِ بحث نہیں لایا جاسکتا تھا۔ تاہم ایل بی جے نے اپنی تمام ترعقل استعمال کرتے ہوئے اس تعطل کا خاتمہ کیا۔۔۔ ہم پاکستانیوں کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ امریکہ میں سیاست میں عقل کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ صدر بننے کے بعد ایل بی جے نے ووٹنگ رائٹس بل کو منظور کرایا۔ اس کے ذریعے تمام سیاہ فام امریکیوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوگیا تھا۔ آج پچاس سال بعد احساس ہوتا ہے کہ امریکہ کے لیے یہ قوانین کتنی اہمیت کے حامل تھے۔ اس سے پہلے سیاہ فام امریکی ریستورانوں کے ٹوائلٹ بھی استعمال نہیںکرسکتے تھے، ان کے بچوںکو سفید فام امریکی بچوںکے ساتھ تعلیم نہیں دی جاتی ۔ تاہم ایل بی جے کی ذہانت سے منظورکرائے گئے ترقی پسندانہ بلوںکے ذریعے امریکی معاشرے میں ایک انقلاب آگیا۔ یا درکھیں، اس انقلاب کے لیے انہوں نے کوئی دھرنا نہیں دیا، بلکہ امریکی آئین کے اندر رہتے ہوئے ایک معاشرے کو تبدیل کردیا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں