سماجی پسماندگی اور صنفی امتیاز

صفیہ سے ملیں، یہ نوجوان لڑکی سان فرانسسکو کے نزدیک وال نٹ کریک (Walnut Creek) میں واقع ایپل سٹور میں پارٹ ٹائم کام کرتی ہے۔ جب میں لیپ ٹاپ خریدنے وہاں گیا تو اُس نے بہت عمدگی سے مجھے لیپ ٹاپ کے کچھ نئے ماڈلوں کے بارے میں بتایا۔ وہ ان کے بارے میںبہت معلومات رکھتی تھی۔ جب میں نے صفیہ سے کچھ دیر بات کی تو پتہ چلا کہ اُس کا تعلق افغانستان سے ہے اور وہ یہاں قانون کی تعلیم حاصل کررہی ہے۔ وہ بہت پر اعتماد اور ذہین دکھائی دیتی تھی‘ آنکھوں میں اچھے مستقبل کی جھلک تھی۔ یقین ہے کہ وہ اچھی وکیل ثابت ہوگی۔ 
گُل‘ ایک اور نوجوان افغان لڑکی ہے جس سے میری کیلی فورنیا میں ملاقات ہوئی۔ وہ AT & T میں سیلز اسسٹنٹ ہے۔ جب میں اپنے سیل فون کے لیے وہاں کی مقامی سم لینے گیا تو اُس نے بہت عمدہ طریقے سے میری مدد کی۔ اُس نے مجھے بتایا کہ جب وہ بہت نوعمر تھی تو اس کے اہلِ خانہ افغانستان سے ا ٓکر امریکہ میںمقیم ہوگئے تھے۔ اس کے بعد وہ دوبارہ کبھی افغانستان نہیں گئی تھی۔ عارفہ ایک وکیل ہے۔ وہ کینیڈا میں وکالت کررہی ہے۔ اس کے والدین پاکستان سے ترکِ وطن پر مجبور ہو گئے تھے۔ اب وہ یہاں کے ایک مقامی وکیل کے ساتھ، جس کے والد سینیٹر اور دادا وزیر ِ اعظم تھے، مل کر پریکٹس کرتی ہے۔ 
ان تینوں نوجوان لڑکیوںکے سامنے روشن مستقبل ہے جس کا وہ اپنے آبائی وطن میں خواب بھی نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ اگر بدقسمتی سے وہ وہاںسے ہجرت کرکے یہاں نہ آتیں تو مجھے یقین ہے وہ پسماندگی اور جبر کے اندھیروں میں گم ہو جاتیں اور ان کی فطری صلاحیتوں کا بھی دم گھٹ جاتا۔ ان جیسی بہت سی باصلاحیت لڑکیاں پاکستان اور افغانستان میں آنکھ کھولتی ہیں لیکن جبر اور تنگ نظری کے سائے اُنہیں نگل لیتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان سماجی طور پر دنیا کے پسماندہ ترین ممالک شمار ہوتے ہیں۔ بلکہ پسماندہ بھی صومالیہ، یمن اور مالی جیسے۔ 
چونکہ ہمارے سیاست دان، ملا اور جنرل حصول ِ اقتدار کے لیے نہ ختم ہونے والی رسہ کشی میں مصروف ہیں ، اس لیے شاید ان کے پاس وقت نہیں کہ وہ مرد کی بالادستی رکھنے والے اس معاشرے میں جنسی امتیاز کے خاتمے اور لڑکیوں کے تعلیم اور ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے بارے میںسوچیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو ممالک سماجی اور معاشی طور پر ترقی کررہے ہیں، وہاں عورتوں کو مردوںکے مساوی حقوق حاصل ہیں۔ کامیاب اسلامی ریاستیں، جیسا کہ انڈونیشیا، ایران ، ملائشیا اور ترکی میں اس طرح کا جنسی امتیاز نہیں پایا جاتا جس کا ہم شکار ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں پائی جانے والی ذہنی پسماندگی تو دنیا بھر میں ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔ 
یہ بات ناقابل فہم نہیں کہ اگر کسی قوم کی نصف کے قریب آبادی گھروں میں بند ہو کر قومی ترقی میں حصہ نہ لے تو اس کی معاشی پیداوار ضرور متاثر ہوگی۔ اس صنفی امتیاز کا ایک نقصان دہ پہلو اور بھی ہے کہ غیر تعلیم یافتہ مائوں کے بچے بھی اچھی تعلیم نہیں حاصل کر پاتے۔ غیر تعلیم یافتہ اور مجبور ہونے کی وجہ سے وہ خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں جدید پیش رفت سے بے خبر رہتی ہیں۔ یوں ملکی آبادی بلاروک ٹوک بڑھتی رہتی ہے۔ ان دونوں عوامل کی وجہ سے ہم پسماندگی اور غربت کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ یہ ثابت شدہ حقائق ہیں لیکن پاکستان جیسے دقیانوسی ملک میں انہیںنظر انداز کردیا جاتا ہے کیونکہ یہاں ملائوں کے ہاتھ میں اتنی طاقت ہے کہ وہ ہرقسم کی سماجی ترقی کا راستہ روک سکتے ہیں۔ رجعت پسند دینی طبقے کو ایسے غیر تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے جن کی اندھی تقلید کے ذریعے وہ اقتدارمیں رہ سکیں یا حکومت پر دبائوڈال کر بہتی گنگا کا رخ اپنی طرف موڑ سکیں۔ 
عراق میں صدام حسین کی آمریت میں خواتین نے قابل ِ ذکر ترقی کی کیونکہ صدام حسین آمر ہونے کے باوجود سیکولر سوچ رکھتے تھے۔ وہاں خواتین زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔ وہ بھاری بھرکم لبادے اوڑھے بغیر گھر سے باہر آکر کام کرتی تھیں، لیکن اب انتہاپسند اور پرتشدد اسلامی گروپ کے سراٹھانے کے بعد اس کا تصور بھی محال ہے۔اس طرح کی تنگ نظری اور دقیانوسیت ایک اور عرب ملک میں‘ آج بھی پائی جاتی ہے۔ جہاں اکیسویں صدی میں بھی‘ خواتین کو گاڑی چلانے اور محرم کے بغیرسفر کرنے کی اجازت نہیں۔ کئی عشروںسے اس فرقے کے قدامت پرستانہ نظریات دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں پوری شدت کے ساتھ پھیلے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک خواتین کے لیے تنگ نظری کے قید خانے میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ جب ان ممالک کے رہنے والے افراد مغربی ممالک میں جاکر آباد ہوتے ہیں تو ان میںسے زیادہ تر مذہبی شناخت ، جیسا کہ نقاب اور طویل داڑھی، کو ختم کردیتے ہیں۔ ان افراد کے آبائو اجداد اپنے آبائی ممالک میں اس اقدام کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ 
اس قدامت پسندانہ سوچ کا سب سے زیادہ نقصان عورتوںکو ہوا ۔ اس معاشرے میں آدمی پھر بھی آزادی کاکچھ سانس لے لیتے ہیں لیکن عورتیں حبس ِدم کا شکار ہیں۔ ان کے کردار کو بات بات پر شک کانشانہ بنایا جاتا ہے۔ خاندانی روایات کا تمام شیش محل ان کے نازک کندھوں پر تعمیر ہوتا ہے اور اس میں پڑنے والے معمولی سے بال کی سزا فوری موت ہوتی ہے۔ اکثر لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کردی جاتی ہے ، اس لیے ان کی تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے۔ اگر صفیہ، گل اور عارفہ مہذب ممالک میں جاکر آباد نہ ہوتیں توان کی قسمت میں بھی یہی اندھیرے ہوتے۔ ان کی ترقی کی راہ میں یقینا ان کے والدین کی حمایت کا بھی عمل دخل ہے؛ تاہم اگر وہ حمایت نہ بھی کرتے تو بھی ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے تھے کیونکہ یہاں تعلیم ہر کسی کے لیے ضروری ہے۔ اگر ان کی لڑکیاں کوئی پیشہ اختیار کرنا چاہیں تو والدین ان کو منع نہیںکرسکتے اور نہ ہی لڑکیوں کو اپنا کیریئر بنانے کے لیے والدین کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
پاکستان جیسے ممالک میں لڑکیوںکو ناقص العقل سمجھا جاتا ہے لیکن مواقع ملنے پر وہ اس مفروضے کوغلط ثابت کردیتی ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جہاںانہیں موقع ملتا ہے وہ امتحانات میں اعلیٰ پوزیشن لینے میں لڑکوں کو مات دے دیتی ہیں۔ فیکٹریوں اور ملوں میں ان کاموں میں،جن میںجسمانی محنت سے زیادہ مہارت اور ہنرمندی درکار ہو، عورتیں آدمیوں کی نسبت بہتر کام کرتی ہیں۔ اس وقت امریکہ میں 47 فیصد لیبر فورس عورتوں پر مشتمل ہے اور 2018ء تک یہ اکاون فیصد ہوجائے گی۔ دوسری طرف ایران میں صرف پندرہ فیصد لیبر فورس عورتوں پر مشتمل ہے۔ اگرچہ ایران میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے لیکن روایتی مذہبی معاشرے کی وجہ سے وہ جاب مارکیٹ میں اپنے حصے سے محروم رہ جاتی ہیں۔ تاہم ایران میں خواتین کی تعلیم کا ایک فائدہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہاں آبادی میں اضافے کی شرح صرف 1.3 فیصد ہے۔ چنانچہ جب ہم اپنی پسماندگی کی وجوہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں زیادہ دور تک دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ جس ملک کی نصف ورک فورس گھروں میں بند رہے وہ ترقی نہیںکرسکتا۔ پاکستان میں بظاہر تعلیم یافتہ اور خوشحال خاندانوں کی لڑکیوںکو بھی مرد کی اجارہ داری سے نجات نہیں ملتی ۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ہم گزشتہ پچاس سال سے ذہنی تنزلی کے سفر پر گامزن ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میری والدہ کراچی میں سائیکل چلایا کرتی تھیں۔ میری کزن لاہور میں سائیکل پر کالج جاتی تھیں‘ لیکن آج ایسا سوچنا بھی محال ہے۔ ہم ترقی کا معکوسی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں