علامہ طاہر القادری کی قیادت میں کیے جانے والے احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے جب لاہور میں کنٹینرز لگا کر راستے بند کردیے گئے تو ایک والدہ، جس کا بیٹا بیمار تھا، چلا چلا کرکہہ رہی تھی ۔۔۔''اگر میں اپنے بیٹے کو ہسپتال نہ پہنچا سکی اور وہ مرگیا تو حشر کے دن حکمرانوں کو اپنے بیٹے کی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے داد رسی چاہوں گی‘‘۔ اگر میں موقع پر موجود ہوتا تو غمزدہ والدہ سے کہتا۔۔۔'' اس کے لیے اتنا طویل انتظار کرنے کی ضرورت نہیں‘‘۔تمام سیاست دانوں کی طرح وزیراعظم بھی اگلی زندگی کے بارے میں زیادہ پریشان نہیں۔اگر اس پریشان والدہ کی طرح وزیراعظم کے تمام سیاسی مخالفین اپنی شکایات کو اگلی دنیا کی سزا جزا پر ٹال دیں تو مجھے یقین ہے کہ موجودہ حکمران چین کی نیند سوئیںگے۔ ہمارا اشرافیہ طبقہ تو قتل کرکے بھی بچ نکلتا ہے کیونکہ زندگی اور موت کی حتمی ذمہ داری قسمت کے ہاتھ دے دی جاتی ہے۔
فرض کریں ہسپتال میں غفلت اور نااہلی کی وجہ سے ایک بچہ مرجاتا ہے لیکن والدین یہ کہہ کر ڈاکٹروں اور نرسوں کو معاف کردیتے ہیںکہ۔۔۔''اﷲ کی یہی مرضی تھی‘‘۔ یعنی تمام ذمہ داری قادرِ مطلق پر ڈال دی جاتی ہے اور ہسپتال انتظامیہ کندھا اچکاکر آگے بڑھ جاتی ہے۔ حتمی ذمہ داری آسمانی طاقتوں پر ڈال دی جائے تو پھر ہسپتال کے معاملات میں بہتری نہیں آتی۔ جب تک ایسا کوئی نظام نہیں بنے گا جس کے تحت ڈاکٹر حضرات اور پیرا میڈیکل سٹاف اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور اُنہیںڈر ہو کہ ان کا اس دنیا میں بھی محاسبہ ہوسکتا ہے، مریض غفلت کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھوتے رہیںگے۔
زیادہ تر مغربی ممالک میں ڈاکٹرایسے کیسز میں اپنے تحفظ کے لیے انشورنس کراتے ہیں۔ اگر مریض کے مشتعل ورثہ کسی ڈاکٹر کے خلاف غفلت کی بنا پر قانونی چارہ جوئی کریں تو اُس ڈاکٹر کے انشورنس پریمیم میںاضافہ ہوجاتا ہے؛ تاہم اگر وہ پاکستانی ڈاکٹروں کی طرح ''خدا کی مرضی‘‘ نامی ڈھال کے پیچھے چھپنے کی کوشش کریں تو جج صاحب بھی ان کو کتاب کھول کر دکھائیں گے۔۔۔ اور یہ اُس ملک کے قانون کی کتاب ہوگی اور ڈاکٹر کو آسمان سے پہلے زمینی انصاف سے نمٹنا پڑے گا۔ یقینا انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے امریکہ جیسے ممالک، جہاں بات بات پر قانونی چارہ جوئی کرنے کا رواج ہے، میں میڈیکل سہولیات کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اس کے ڈر سے ڈاکٹر زیادہ توجہ سے علاج کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ معاملہ یعنی ''اچھا‘ خدا کو یہی منظور تھا‘‘ صرف میڈیکل تک ہی محدود نہیں بلکہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی کارفرما ہے۔ ہم قسمت پر راضی رہنے والی ایسی قوم ہیں جو دنیاوی سہولیات کی فراہمی، جو بطور شہری ہماراحق ہیں،کو بھی مقدر پر ٹال دیتے ہیں۔ جب سست، بدعنوان اور نااہل افسروں نے کسی کاغذ پر دستخط کرنے ہوتے ہیں (جو ان کا فرض اور عوام کا حق ہوتا ہے) تو ہم بہت عاجزی سے ان کی توجہ کے منتظر رہتے ہیں اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تو ہم تہہ ِ دل سے ان کے مشکور ہوتے ہیں۔اس روایت کی وجہ سے ہماری انتظامی مشینری اپنے فرائض کو محسوس نہیں کرتی کیونکہ اُنہیں احتساب کا کوئی ڈر نہیںہوتا۔ افسران جانتے ہیں کہ جب لوگ ہر مسئلے کے حل کے لیے آسمان کی طرف
دیکھ کر خود کو تسلی دے لیتے ہیں تو اُنہیں کس بات کا ڈر ہے؟ہم بطور شہری اپنے حقوق سے دستبردار ہوتے ہوئے اُنہیں دوسری دنیا کی سزا جزا پر ٹال دیتے ہیں۔ اس رویے کے ساتھ سماجی اور ریاستی امور میں بہتری کی توقع رکھنا عبث ہے۔
عوام کے قسمت پر راضی رہنے کی وجہ سے اشرافیہ طبقہ رات دن اپنی دولت میں اضافہ کررہا ہے۔ کسی بھی تنقید کے خدشے کو ٹالنے کے لیے ہمارے حکمران طبقے کے پاس ایک اور موثر ہتھیار ہے۔ اس کا نام دنیا کے ہمارے حصے میں ''خفیہ ہاتھ‘‘ ہے۔ اپنی تمام کوتاہیوں اور حماقتوں کی ذمہ داری دشمنی پر تلے ہوئے کسی خفیہ ہاتھ پر ڈال دی جاتی ہے۔ اس خفیہ ہاتھ کو ''خدا کی مرضی‘‘ کا سیکولر ورژن قرار دیا جاسکتا ہے۔بلا تحقیق ہم مان لیتے ہیں کہ اگر ہمارے ہاں بجلی نہیں ہے یا نل میں پانی صاف نہیں آرہا یاملک میں ملاوٹ شدہ دودھ ، جعلی ادویات، مردہ جانوروں کا گوشت اور مضرِ صحت اجزا سے بنایا گیا گھی فروخت ہوتا ہے تو اس کا ذمہ داردور دراز کے ملک ، جیسا کہ امریکہ، یا ہمسایہ ملک، جیسا کہ بھارت وغیرہ کا کوئی خفیہ ہاتھ ہے۔
بے شک بعض اوقات لوگوں کے جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور وہ اس کا عملی اظہار بھی کرتے ہیں۔ جب گرمیوں میں بجلی نہیں آتی تو وہ توڑ پھوڑ پر اترآتے ہیں۔آج کل ایسے ہی جذبات کو ہوا دے کر عمران خان اور طاہرالقادری نے اسلام آباد میں دھرنے جمائے ہوئے ہیں۔ لیکن ایسے اشتعال وقتی ہوتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد زندگی معمول پر آجاتی ہے اور ہم حکمرانوں اور افسرشاہی کی غفلت سے بے نیاز ہوکر آسمان کی طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک اور مروجہ سرگرمی ہے، جسے عام فہم زبان میں الزام تراشی کہا جاتا ہے۔ اگر پاکستانی ٹیم کوئی میچ ہار جاتی ہے تو اس کہ وجہ کوئی سازش یا بدعنوانی ہوگی۔ اگر کسی بدیسی امپائر کا فیصلہ ہماری ٹیم کے خلاف آجائے تو اسے تعصب پر محمول کیا اور سراسر بے ایمانی کہا جاتا ہے؛ چنانچہ پوری قوم غصے سے کھول رہی ہوتی ہے۔ اگر دریائے سندھ میں سیلاب آجائے تو ہمارا ''نشترِ تحقیق‘‘، جو کبھی کند نہیں ہوتا، ایک نئی امریکی ٹیکنالوجی HAARP کا کھوج لگالیتا ہے جس کی وجہ سے معمول سے زیادہ بارش برسائی جاسکتی ہے۔ سازش کی یہ تھیوریاں صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں، دیگر مسلمان ریاستیں بھی اس کار ِخیر میں حصہ ڈالتی ہیں۔ اگر آپ گوگل پر نائن الیون کے حوالے سے سازشوں پر نظر دوڑائیں تو طلسم ِ ہوشربا آپ کا منتظر ہوگا۔
ہم ناکامیوں کا سامنا کرتے ہوئے ان سے سبق سیکھنے سے احتراز کرتے ہیں۔ جب ہم تمام معاملات میں خدا کو شامل کرلیتے ہیں تو تنقیدی جائزے کادروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس پر کوئی تحقیق نہیں ہوسکتی کیونکہ خدا کی مرضی پر کس کو دم مارنے کی جرأت ہے۔ اس سے یہ معروضہ سامنے آتا ہے کہ خدا نے ہمیں اپنی مرضی کرنے کے قابل نہیں بنایا، اس لیے ہم اپنے مستقبل کے معمار نہیں اور یہ کہ دنیاوی زندگی صرف اس جہان میں ایک مختصر سا قیام ہے، اس لیے اسے بہتر بنانے کی سعی کرنا کارِ لاحاصل ہے۔ یقینا انسان مصیبت اورآزمائش میں خدا سے رجوع کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے کسی پیارے کی جان علاج معالجے کے ذریعے بچانے کی کوشش بھی کرتے ہیں؛ تاہم اگر ڈاکٹر اپنے فرائض سے کوتاہی برتے تو پھر یہ صریحاً انسانی غفلت ہوگی اور اس کی ذمہ داری خد ا پر ڈالنے کی بجائے اُس انسان کو قانون کاسامنا کرنا چاہیے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے اور ہر معاملے میں آسمانی طاقتوں کو ملوث کرتے رہیںگے تو دنیا کا یہ نظام بہتر نہیں ہوسکے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پُرتشدد احتجاج اور راضی برضا رہنے کے درمیان کوئی معتدل راستہ بھی ہے؟ مہذب ممالک میں قوانین شہریوں کا تحفظ کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں طاقتور اور بااختیار لوگ ایک دوسرے کا تحفظ کرتے ہیں۔ ہمارا نظامِ انصاف اتنا غیر موثر ہے کہ وہ طاقتور طبقے کا احتساب کرتے ہوئے عوام کو انصاف فراہم نہیںکرسکتا۔ ہمارا ماضی قریب ظاہر کرتا ہے ہمارے انصاف کے ادارے سیاسی معاملات میں بہت شوق سے مداخلت کرتے ہیں اور ہمارا میڈیا چوبیس گھنٹے سیاست میں مصروف رہنے کی وجہ سے صحافت کرنے سے قاصر ہے، اس لیے عوام کے حقوق کی پامالی پر نظر کون رکھے؟جب تک ادارے اور افراد اپنی ذمہ داریاں کسی اور طاقت کے سر ڈالنے سے باز نہیں آتے، ہمارے ہاں جتنا مرضی بڑا انقلاب کیوں نہ آجائے، کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔