منزلیں اپنی جگہ ہیں، راستے اپنی جگہ

ایک طرف عمران خان اور طاہرالقادری حکومت گرانے کے لیے اسلام آباد میں ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں، دوسری جانب پاکستان کے مسائل جوں کے توں اپنی جگہ دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ درحقیقت شدید بارشوں اور سیلاب نے پنجاب میں تباہی پھیلاتے ہوئے لاکھوں افراد کے لیے شدید مشکلات پیدا کر دی ہیں اور اب اس کا رخ سندھ کی طرف ہے۔ اب تک سیکڑوں جانوں کے ضیاع کے علاوہ اربوں روپے کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ اگر احتجاج کرنے والوں سے کہا جائے کہ وہ اپنی توانائی اور وسائل سیلاب کا شکار ہونے والے بے گھر افراد کی امداد پر خرچ کریں تو یہ کوئی نامناسب بات نہ ہو گی، لیکن میرا نہیں خیال کہ یہ ان کی پہلی ترجیح ہو گی۔ 
موجودہ سیاسی بحران کے پسِ منظر میں سماجی مسائل کا کوہ ِگراں بلند ہوتا جا رہا ہے جبکہ حکومت کو بے روزگاری، تعلیم اور صحت کے مسائل حل میں کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ہمارے ٹی وی سٹوڈیوز کی سدا بہار زینت، باتونی دانش کو اس سے کوئی سروکار نہیں، لیکن حال ہی میں کراچی کے صنعتی علاقے میں عورتوں اور بچوں نے تعلیم کی سہولیات کے لیے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ایک ایسے معاشرے میں‘ جہاں دولت اور اقتدار کی ہوس اشرافیہ کی حیثیت کا تعین کرتی ہو، عام آدمی کو درپیش مسائل سے اغماض برتا جاتا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروںکی زبوں حالی دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگر نجی شعبے میں چلنے والے سکول اور کالج نہ ہوں تو بہت جلد ''تعلیم یافتہ‘‘ افراد کو انگریزی تو درکنار، قومی زبان بھی پڑھنی نہ آئے۔ یہی وجہ ہے کہ غریب اور کم آمدنی والے افراد بھی اپنے بچوں کو نجی تعلیمی اداروں میں بھیجنے کی خواہش کرتے ہیں تاکہ وہ انگریزی سیکھ کر اچھی ملازمت حاصل کر سکیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اس سے نسبتاً بہتر زندگی بسر کریں جو انہوں نے بسر کی یا کم از کم وہ اُس ابتلا کا شکار نہ ہوں جو اُن کا مقدر بنی۔ دوسری طرف یہ بات بھی افسوس سے کہنا پڑتی ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر انگلش میڈیم سکولوںکا معیار بہت پست ہے۔ اچھے اور معیاری سکول اتنے مہنگے ہیں کہ عام افراد وہاں اپنے بچوںکو تعلیم دلوانے کا سوچ بھی نہیں سکتے؛ چنانچہ عام لوگ نسل در نسل جہالت اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں جبکہ ارباب حکومت ان کے مسائل سے لاتعلق ایک اپنی ہی دنیا بسائے ہوئے ہیں۔ اس ہُو کے عالم میں جب کوئی بچہ ان زنجیروں کو توڑ ڈالے تو اُس پر جشن منانا بنتا ہے۔ 
حال ہی میں ایک انگریزی اخبار کے سنڈے میگزین نے ایک صاحب وارث خان اور اس کے بیٹوں کی کہانی شائع کی‘ جس نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس لیے میں اپنے ان قارئین کو‘ جنہوں نے یہ کہانی نہیں پڑھی‘ اس کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ وارث خان تربیلہ ڈیم میں مزدوری کیا کرتا تھا۔ بیس سال پہلے وہ اچھے مستقبل کی تلاش میں کراچی آیا‘ جس طرح شمال سے تعلق رکھنے والے ہزاروں خاندان کئی عشرے پہلے اس شہر میں آئے تھے۔ کئی ماہ تک اُسے بہت مشکلات کا سامنا رہا‘ لیکن آخرکار اُسے ایک پھل فروش کے پاس ملازمت مل گئی۔ اُسے دن میں سولہ گھنٹے کام کرنا پڑتا۔ شروع میں تو وہ فٹ پاتھ وغیرہ پر سوتا تھا لیکن پھر اُس نے ایک کمرہ کرائے پر لے لیا۔ اس نے 1993ء میں شادی کی اور ایک بیٹے کا باپ بن گیا۔ وارث نے اُس کا نام فضل رکھا۔ اب اس کے حالات قدرے بہتر ہو چکے تھے ۔ اس نے کراچی کے ایک خوشحال علاقے ''باتھ آئی لینڈ‘‘ میں پھلوں کی اپنی دکان بنا لی۔ 
وارث خان کی دکان کے نزدیک ایک انگلش میڈیم سکول تھا۔ وہ خوبصورت اور صاف ستھرے یونیفارم میں ملبوس طلبہ کو گا ڑیوں میں وہاں آتے جاتے دیکھتا تو اس کے دل میں کھلبلی مچلنے لگتی۔ اس نے اپنے بیٹے فضل کو وہاں تعلیم دلوانے کا فیصلہ کیا۔ خوش قسمتی سے اس سکول کو ایک ایسی فیملی چلاتی تھی‘ جو کم آمدنی والے افراد کے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کر لیتی تھی۔ جب وارث خان کی فیس ادا کرنے کی سکت جواب دے جاتی تو وہ فیملی اُس کی مدد کرتی۔ 
فضل ایک اچھا طالب علم تھا لیکن اُسے شام کو پھل کی دکان پر اپنے والد کا ہاتھ بٹانا پڑتا۔ وہاں وہ گاہکوں کو پھل فروخت کرنے کے دوران جب موقع ملتا اپنا ہوم ورک بھی کرتا۔ آنے والے برسوں میں اس کا چھوٹا بھائی محمود بھی اسی سکول میں داخل ہو گیا۔ او لیول کے امتحان میں فضل کا نتیجہ اتنا اچھا آیا کہ اُسے اے لیول کے لیے سکالرشپ مل گیا۔ یہاں اُس نے ہم نصابی سرگرمیوں اور کھیل کود میں بھی حصہ لیا اور بہت سے دوست بنائے۔ جب کسی کالج میں داخلہ لینے کا وقت آیا تو سومرو فیملی نے، جس نے اُس کی معاونت کی تھی، اُسے کہا کہ وہ کینیڈا کی ٹاپ یونیورسٹی McGill میں داخلے کی کوشش کرے۔ یہاں ایک مرتبہ پھر اُسے سکالرشپ مل گیا؛ تاہم ایک مرتبہ پھر مالی مسائل نے سر اٹھایا کیونکہ اس کے پاس کینیڈا جانے کے لیے پیسہ نہیں تھا۔ عادل سومرو نے‘ جو کراچی سٹیزن گروپ کے صدر ہیں‘ فضل کی مدد کی اور ان کی کوششوں سے فضل کے پاس اتنے پیسے جمع ہو گئے کہ وہ McGill میں داخلے کے لیے کینیڈا کے ویزے کی درخواست دے سکتا تھا۔ جب مجھے پتا چلا تو میں نے عادل سومرو سے رابطہ کیا اور فضل کے بارے میں مزید معلومات حاصل کیں۔ مجھے پتہ چلا کہ وہ مٹیریل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ اس دوران اس کے چھوٹے بھائی محمود کو بھی McGill میں داخل مل گیا اور وہ الیکٹریکل انجینئرنگ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ 
کراچی کی عادل فیملی کم آمدنی والے افراد کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے پُرعزم ہے۔ اُنہوں نے محرومی کے شکار بہت سے بچوں کے خوابوںکو حقیقت کا روپ دینے میں کردار ادا کیا ہے۔ جب فضل اور محمود اپنی تعلیم مکمل کرکے لوٹیں گے تو اس معاشرے کا اثاثہ ثابت ہوں گے۔ وہ اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریںگے۔ وہ اپنی محنت اور لگن سے اس حقیقت کو ثابت کر رہے ہیںکہ ہماری قسمت کا ہماری جائے پیدائش یا خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ ہے وہ پاکستان جو انقلاب سے گزر رہا ہے۔ یہاں محنت اور اچھے لوگوں کی معاونت سے غربت اور محرومی کی زنجیریں کٹ رہی ہیں۔ ہمیں اس پاکستان پر فخر ہے۔ 
سومرو فیملی اور وہ تمام افراد‘ جنہوں نے فضل اور محمود کی مدد کی‘ تحسین کے لائق ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے کہ بہت سے مسائل کے باوجود یہاں انسان دوستی اور فلاحی کاموں کا ایک توانا جذبہ موجود ہے۔ سومرو فیملی اور ان جیسے بہت سے دیگر خاندان غریب اور محروم بچوں کی تعلیمی کفالت کرتے ہیں۔ یہی لوگ اس معاشرے میں امید کا چراغ روشن رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ان کی موجودگی نہ ہو تو مایوسی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا بہت سی زندگیوں کو نگل لے۔ فضل اور محمود نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ جب بھی پاکستانی بچوں کو موقع ملتا ہے، وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہیں؛ تاہم پاکستانی اشرافیہ کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے بہت سے فضل اور محمود جہالت کے اندھیروں میں کھو جاتے ہیں۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ہمارا سرکاری تعلیمی نظام خراب سے خراب تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی بہتری ہمارے حکمرانوں کی ترجیح نہیں کیونکہ ان کے منصوبے کچھ اور ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں