سکاٹ لینڈ کی آزادی کی جنگ

آج کل برطانیہ میں صرف ایک ہی موضوع زبان ِ زد ِ خاص و عام ہے کہ سکاٹ لینڈ کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے کرائے جانے والے ریفرنڈم کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ ریڈیو، ٹی وی، اخبارات کے علاوہ عام افراد بھی اس موضوع پر بات چیت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب ایک حالیہ سروے نے رپورٹ دی کہ ریفرنڈم کا جواب ''ہاں‘‘ میں آنے کے امکانات ہیں تو ایسے لگا جیسے پورے ملک میں بجلی سی دوڑ گئی ہو۔ تینوں بڑی جماعتوں کے رہنمائوںنے پہلی ہی دستیاب پرواز یا ٹرین پکڑی اور ایڈن برگ یا گلاسگو روانہ ہوگئے۔ اخبارات کے قارئین اور ٹی وی کے ناظرین کی بصارت اور سماعت پر گرائونڈ زیرو سے کیے جانے والے انٹرویوزکے علاوہ سکاٹ لینڈ کی انگلینڈ سے ''علیحدگی‘‘کے مضمرات پر کیے جانے والے تجزیوں نے گرفت جمالی۔ 
عالمی واقعات اور تاریخ پر نظر رکھنے والے قارئین جانتے ہیں کہ سکاٹ لینڈ نے 1707ء میں انگلینڈ کے ساتھ''عقد ‘‘ کرتے ہوئے انگلینڈ کے بادشاہ کی فرماں روائی کو تسلیم کرلیا، تاہم اس کی وجہ باہمی عشق ومحبت یا راز ونیاز نہیں بلکہ کنزرویٹو پارٹی کے ایک صاحب کی طرف سے سکاٹ لینڈ کو دیا گیا ایک چکما تھا۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ سکاٹ لینڈ کو انگلش بادشاہت قبول کرنے کے عوض وسطیٰ امریکہ میں ایک نیا خطہ دینے کی پیش کش کی گئی۔کہا گیا کہ زرخیز زمین رکھنے کے علاوہ اس خطے میں بہت بڑی مقدار میں سونا بھی موجود ہے۔ یہ ترغیب یقینا بہت موثر طریقے سے دی گئی ہوگی کیونکہ سکاٹ لینڈ کے بہت سے امیر خاندانوں نے وہاں بھاری سرمایہ کاری کر لی۔ تاہم جب وہ جگہ کا قبضہ لینے وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ وہاں یا تو مچھر ہیںیا بیماری۔ 
جب ترغیب دینے والی کمپنی دیوالیہ ہوئی توا س کے ساتھ ہزاروں سرمایہ کار بھی اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس پر سکاٹ لینڈ کو انگلینڈ کے بینکوںسے بیل آئوٹ لینا پڑی۔ مالی طور پر انگلینڈ پر انحصار کرنے کی وجہ سے ''ایکٹ آف یونین 1707ء‘‘ وجود میں آیا۔ تین صدیوں تک انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ اکٹھے رہے لیکن سکاٹ لینڈ کے بہت سے شہریوں کے دل میں آزادی کا جذبہ پروان چڑھتا رہا۔ 2011ء میں سکاٹش نیشنل پارٹی نے حیرت انگیز طور پر انتخابی کامیابی حاصل کی ۔ ڈیوڈ کیمرون نے جمہوری راہ اپناتے ہوئے سکاٹ لینڈ کو ریفرنڈم کی پیش کش کی ۔اس فیصلے پر برطانوی وزیر ِ اعظم کو آج کل شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے۔ 
انگریز باشندے سکاٹ لینڈ کی علیحدگی کو پسند نہیں کرتے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایسا ہونے سے انگلینڈ بہت چھوٹا ملک رہ جائے گا۔ درحقیقت پھر اسے یونائیٹڈ کنگ ڈم بھی نہیںکہا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ ان کے درمیان جذباتی اور تاریخی رشتے بھی ہیں۔ ہزاروں سکاٹش باشندے انگلینڈ میں رہتے اور کام کرتے ہیں۔ درحقیقت نوآبادیاتی دور میں وہ برطانیہ کا ہراول دستہ تھے۔ اُنھوںنے انگلینڈ کے لیے بہت سی جنگیں لڑیں اور اپنا خون دیا ۔ وہ برطانیہ کی تاریخ اور ثقافت میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم جو سکاٹ باشندے آزادی کے سوال کا جواب ''ہاں ‘‘ میں دینا چاہتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ان کا صدیوںسے استیصال کیا جارہا ہے۔ سکاٹ لینڈ کی شمالی سمندری حدود سے نکلنے والا تیل برطانوی معیشت کا روح و رواں ہے۔ اس کا سکاٹ لینڈ کو خود فائدہ ہوگا اگر یہ اگلے ہفتے آزاد ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ سکاٹ لینڈ کی آزادی کی تحریک میں اس وقت تیزی آئی جب اسّی کی دہائی میں مارگریٹ تھیچر نے کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں پر سختی کی ، چنانچہ ان کے دور میں کان کنی کی صنعت زوال کا شکار ہوگئی۔ آج برطانیہ کی بھاری بھرکم فیکٹریاں ویران پڑی ہیں کیونکہ صنعت کاری ان ممالک کی طرف منتقل ہوگئی ہے جہاں کم تنخواہ پر کام کرنے والے مزدور مل جاتے ہیں۔صنعت کاری کے زوال کے بعد برطانیہ نے سروس اکانومی شروع کی جس میں سرفہرست فنانس کا شعبہ تھا۔ اس عمل سے گزرنے کے بعد ایک قابل ِفخر صنعتی معاشرے کا روپ بدلنا شروع ہوگیا۔ 
سکاٹ لینڈ کی علیحدگی کے لیے ''ہاں‘‘ کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پورے سکاٹ لینڈ سے ٹوری پارٹی سے تعلق رکھنے والا صرف ایک رکن ِ پارلیمنٹ منتخب ہوپایا تھا۔ اس طرح سکاٹ لینڈ میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ان کے فیصلے وہ جماعت کررہی ہے جو ان کے ہاں غیر مقبول ہے۔ حیران کن سروے نتائج سامنے آنے کے بعد حکومت سکاٹ لینڈ کو زیادہ سے خودمختاری اور وسائل کی فراہمی سے ساتھ رکھنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ تاہم سکاٹش نیشنل پارٹی کے ایلیکس سلمنڈ نے اسے رشوت قرار دے کر رد کردیا ۔تاہم مسٹر کیمرون انہیں ترغیب دینے کے لیے کچھ اور جاندار طریقے بھی استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ 
میں کام کرنے والی بہت سی کارپوریشنز نے اعلان کیا ہے کہ اگر ریفرنڈم میں جواب ''ہاں ‘‘ کی جیت ہوئی تو وہ اپنے ہیڈ کوارٹرز انگلینڈ منتقل کرلیں گی۔ کئی ایک سپرمارکیٹس نے خبردار کیا ہے کہ ان کے نرخوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔ Chancellor of the Exchequer کاکہنا ہے کہ اگر سکاٹ لینڈ والوں نے اپنی راہیں الگ کیں تو وہ پائونڈ کو اپنی کرنسی کے طور پر استعمال کرنے کے مجاز نہیں ہوںگے۔ بینک آف انگلینڈ کے گورنر نے اس وارننگ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ایڈن برگ کو نئی کرنسی بنانے کے لیے بہت زیادہ زرِ مبادلہ کی ضرورت ہوگی۔ آخر میں یورپی یونین نے بھی اعلان کیا ہے کہ آزادی کے بعد سکاٹ لینڈ کو رکنیت حاصل کرنے کے لیے باضابطہ درخواست دینی پڑے گی اور یہ کہ اس درخواست کی منظوری میں خاطر خواہ وقت لگ جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ سپین سکاٹ لینڈ کی یورپی یونین میں شمولیت کا راستہ روکے کیونکہ اُسے خدشہ ہے کہ اگر اس طرح علیحدگی اختیار کرنے والی ریاستوں کے لیے یورپی یونین کے دروازے کھلے رہے تو اس کی سرزمین پر علیحدگی کی چلنے والی تحریکوں کیتالونیہ (Catalonia) اور باسک (Basque) کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ تاہم اس پیش رفت پر صرف سپینی علیحدگی پسند ہی نگاہ نہیں رکھے ہوئے بلکہ کرد، کیوبکس (Quebecois) اور بلوچ علیحدگی پسند بھی اس کے نتائج کو غور سے دیکھ رہے ہوںگے۔ 
اس کالم کی اشاعت کے چند دن بعد، اٹھارہ ستمبر کو ہونے والے ریفرنڈم میں ''ہاں‘‘ کی کامیابی برطانیہ کے سیاسی خدوخال کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دے گی۔ اس وقت لیبر پارٹی کی سکاٹ لینڈ میں چالیس نشستیں ہیں اور اگر سکاٹ لینڈ انگلینڈ سے الگ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ لیبر پارٹی آئندہ کبھی بھی، کم از کم مستقبل قریب میں، حکومت سازی نہیں کرسکے گی۔ اگرچہ مسٹر سلمنڈ کا کہنا ہے کہ آزادی کے بعد سکاٹ لینڈ یورپی یونین اور نیٹو کی رکنیت حاصل کرے گا ، لیکن فی الحال یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ان کی درخواست منظوری حاصل کرپاتی ہے یا نہیں۔ سکاٹش نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ سکاٹ لینڈ کی سرزمین کو ایٹمی ہتھیاروںسے پاک کرے گی ، چنانچہ اس نے برطانیہ کے عظیم الشان نیول بیس فاسلین (Faslane) کو خالی کرنے کا نوٹس دے دیا ہے۔ اس پر برطانوی دفاعی ماہرین سرپکڑ کر بیٹھ گئے ہیں کیونکہ فاسلین پر ایٹمی میزائلوں سے لیس ٹرائی ڈنٹ آبدوزیں موجود ہیں۔ 
کئی دنوں کی مہم کے بعد ''نہیں‘‘ کی کامیابی کے آثار نمودار ہوسکتے ہیں کیونکہ سکاٹ لینڈ کی آزادی کا رومانوی خواب اپنی جگہ پر لیکن معیشت کے تقاضے خوشنما خوابوںسے زیادہ قوی ہوتے ہیں۔ اگرچہ مسٹر سلمنڈ کا دعویٰ ہے کہ خودمختار سکاٹ لینڈ زیادہ خوشحال ہوگا لیکن ووٹروں کو اس تصور پر شک ہونا شروع ہوگیا ہے۔اس وقت جب کہ ''ہاں‘‘ اور ''نہیں ‘‘ کے درمیان مسابقت جاری ہے، برطانوی معاشرہ اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے جا رہا ہے۔ اگر اس ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈ کی علیحدگی کے تصور کو ووٹرز رد کردیتے ہیں تو بھی یہ تحریک ختم نہیںہوگی۔ سکاٹ لینڈ کی علیحدگی کا تصور خوشحالی اور مساوات کی بنیاد پر ہے اور اس سے لندن کی پالیسیوںسے غریب افراد کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچا تھا۔ اگر اور کچھ نہ بھی ہوا تو بھی سلمنڈ اور ان کے حامی ایک مرتبہ تو Westminster کو بتادیںگے کہ ان میں بھی جان ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں