دشوار ہے کہ آپ کسی پاکستانی وی آئی پی کو ایک میل دور سے دیکھیں اور پہچان نہ پائیں۔ غیر متبدل علامتیں۔ عالم ظہور میں بے بدل، سراپا، چال، ڈھال سب رعونت میں ڈھلے ہوئے۔ سر کا بوجھ سخت اور اکڑی ہوئی گردن پر اور سرد مہری سے لبریز نگاہوں کا زاویہ سطح غربت سے بلند تاکہ اپنے اردگرد بکھری غربت دکھائی نہ دے۔ کان بند تاوقتیکہ خوشامد گفتار کے سانچے میں نہ ڈھلے۔ مصاحب بریف کیس سنبھالے صاحب کے پیچھے۔ صاحب کا چہرہ تیوری اور تکبر کی اوٹ میں۔ چاہے وہ سینئر سرکاری افسر ہو، سیاست دان ہو، جاگیردار یا کوئی صنعت کار، ان کا یہ ٹریڈ مارک رویہ انہیں عام انسانوں سے جدا کرتا ہے۔ اگر کوئی بھی ان سے سوال کرنے کی جسارت کرے تو پُر رعونت لہجے میں جواب... ''تم جانتے نہیں میں کون ہوں؟‘‘
ایک پرواز کو مبینہ طور پر دیر کرانے کے بعد جب رحمان ملک سوار ہونے کے لیے آئے تو جہاز نے پرواز کیا کرنی تھی، ملک صاحب کے ستارے گردش میں آ گئے۔ تاخیر کا کرب برداشت کرتے کرتے مسافروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا؛ چنانچہ اُنہوں نے مسٹر سینیٹر کو جہاز میں سوار ہونے کی اجازت نہ دی۔ ہمارے ہاں اشرافیہ کے ناز نخروں کا کیا ٹھکانا‘ لیکن جب یہی افراد مہذب دنیا، جیسا کہ لندن، نیویارک یا دبئی میں ہوتے ہیں تو جانتے ہیں کہ ان کی رعونت پاکستان کی سرحد کے باہر دھاڑ تو کجا سانس بھی نہیں لے سکتی۔ ضیاء دور میں تین پاکستانی افراد کی کہانی سامنے آئی تھی۔ وہ تینوں نیویارک میں پی کر سڑک پر آ گئے۔ جب ایک پولیس مین نے اُنہیں روکا تو اُنہوں نے اُسے حسب معمول دھمکی دی کہ وہ اس گستاخی کی رپورٹ پینٹاگان میں کر دیں گے۔ اس پر فوراً ہی اُنہیں حکم دیا گیا کہ وہ اپنے بازو اور ٹانگیں پھیلا کر دیوار کی طرف منہ کر لیں۔ پھر اُن کی جامہ تلاشی لی گئی اور رات بھر کے لیے لاک اپ میں بند کر دیا گیا۔
یہ ہے وہ انقلاب جس کی پاکستان شدت سے راہ دیکھ رہا ہے۔ ہم نے استحقاق زدہ افراد کو قوانین کی خلاف ورزی کرنے اور اہم روابط رکھنے والے افراد کو ریاست کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنے سے روکنا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بااثر افراد کو ہرگز اجازت نہیں دینی کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ آج کل عمران خان انقلاب اور آزادی کے نام پر یہی کچھ کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے اسلام آباد پولیس کو مجبور کیا کہ وہ ان کے گرفتار شدہ کارکنوں کو رہا کرے۔ درحقیقت وہ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کئی ہفتوں سے بہت سے قوانین کی کھلی خلاف ورزی کر رہے ہیں لیکن قانون ان سے کوئی باز پرس کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ حد یہ ہے کہ ان افراد کے دوسرے گھر دنیا کے وہ ممالک ہیں جو انتہائی جمہوری، قانون پسند اور پُرامن ہیں۔ عمران خان نے کئی سال انگلینڈ میں بسر کیے۔ ان کے بیٹے وہیں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اگرچہ اختلاف رائے اور احتجاج برطانوی سیاست کا حصہ ہیں‘ لیکن وہاں تشدد، قانون شکنی اور اشتعال انگیزی ناقابل برداشت ہیں۔ یہ درست ہے کہ عمران خان کو ٹین ڈائوننگ سٹریٹ پر احتجاج کرتے ہوئے دل کا غبار نکالنے کی اجازت ہے لیکن وہ وہاں دھرنا دینا تو کجا ٹریفک تک نہیں روک سکتے۔ اگر وہاں اپنے گرفتار شدہ کارکنوں کو رہا کرانے کے لیے پی ٹی آئی کے چیف نے پولیس کے امور میں مداخلت کرنے کی کوشش کی ہوتی تو اُنہیں برق رفتاری سے حوالات میں بند کر دیا جاتا۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے جس ملک میں رہائش اختیار کرنے کو ترجیح دی وہ کینیڈا ہے اور یہ وہ ملک ہے جو شائستگی اور اختلاف رائے کو برداشت کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ گلیوں میں چلنے والے اجنبی افراد بھی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر شائستگی سے مسکراہٹ کا تبادلہ کرتے ہیں۔ بندہ بشر ہے، اس پر اطراف کے رویے کا اثر ہو ہی جاتا ہے لیکن جب ہم قادری صاحب کا ہر آن غصے سے آگ بگولہ چہرہ دیکھتے ہیں اور ان کی دھمکی آمیز تقریریں سنتے ہیں تو یہ تاثر گہرا ہو جاتا ہے کہ
اُنہوں نے اُس شائستہ اور امن پسند معاشرے سے کچھ نہیں سیکھا۔ اگر وہ وہاں اپنے پیروکاروں کو پولیس والوں پر حملے کرنے، سرکاری عمارتوں پر چڑھائی اور قبضہ کرنے، کرنسی نوٹوں کو مسخ کرنے اور تختہ الٹنے پر اکساتے تو وہ اب تک اپنے آرام دہ ایئرکنڈیشنڈ کنٹینر کی بجائے کینیڈا کی جیل میں ہوتے۔ وہاں کا قانون ان کی حیثیت کا ہرگز خیال نہ کرتا۔ اس کے علاوہ کوئی مہذب شہر سیاسی کارکنوں کو اس طرح ہفتوں تک عوامی مقامات پر گندگی پھیلانے کی اجازت نہ دیتا۔
اس پر ان دونوں کزن جماعتوں کے کارکن کہیں گے کہ برطانیہ اور کینیڈا میں انتخابات میں دھاندلی بھی تو نہیں ہوتی، اس لیے وہاں حکومت کے خلاف احتجاج کرنے اور اُس کی رٹ کو چیلنج کرنے کی کوئی ضرورت بھی پیش نہیں آتی۔ درست، لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب انگلینڈ میں انتخابات تقریباً فکس ہوتے تھے۔ وہاں بہت سے حلقوں، جن میں دھاندلی عام ہوتی تھی، کے لیے rotten borough کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔ بہرحال، جو بھی وجہ ہو، پُرتشدد احتجاج کی کسی بھی جمہوری معاشرے میں اجازت نہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق کارکنوں کو اسلام آباد میں دھرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘ اُن کے شناختی کارڈ ضبط کرکے اُنہیں چند سو روپے یومیہ
اُجرت دی جاتی ہے‘ اس کے عوض وہ دھرنے میں بیٹھنے کے لیے مجبور ہیں۔ طلبہ کی کلاسوں کا حرج ہو رہا ہے جبکہ اسلام آباد کے شہری بھی ذہنی کرب کا شکار ہیں۔
اس دوران ٹی وی چینل بہت خوش ہیں کہ چوبیس گھنٹے ریٹنگ بڑھانے کے لیے ان کے پا س بنا بنایا کھیل موجود ہے۔ اس جلتی پر تیل گرا کر اپنی چاندی کرتے ہیں۔ اس تمام معاملے نے حکومت کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ نواز شریف ایک جاندار اور قوتِ فیصلہ رکھنے والے وزیر اعظم کی شہرت نہیں رکھتے اور اب تو صورتحال خاصی خراب ہو چکی ہے؛ تاہم ان میں جو بھی خامیاں ہوں، ان کے پاس مینڈیٹ ہے کہ 2018ء تک حکومت کریں۔ اگر وہ دبائو میں آ کر اب تازہ انتخابات کا اعلان کر دیتے ہیں تو یہ غیر جمہوری قوتوں کی فتح ہو گی۔ اس سے انتہا پسند گروہوںکو ایک جواز مل جائے گا اور وہ جب چاہے لوگ اکٹھے کر کے حکومت گرا دیں گے۔ عمران خان مختلف مواقع پر اعلان کر چکے ہیں کہ جب وہ وزیرِ اعظم بنیں گے تو ان کا لائحۂ عمل کیا ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ متعدد سیاست دانوں اور سرکاری افسران کی چھٹی کرا دیں گے۔ ان سے یہ بیان بھی منسوب ہے کہ وہ نوازشریف کو طالبان کے حوالے کر دیں گے۔ اُنہیں چاہیے کہ اپنے لاابالی پن اور غیر سنجیدہ رویے سے کنارہ کشی کریں تا کہ لوگ اگلے انتخابات میں انہیں وزارتِ عظمیٰ کے ایک سنجیدہ امیدوار کے طور پر دیکھ سکیں۔ ایسا دکھائی دے کہ وہ اپنے رویے سے ریاست کو توانا کر رہے ہیں نہ کہ کمزور۔