برطانیہ میںداعش کے خلاف جنگ پر بحث

داعش کے عراق میں مراکز پر بمباری کے حوالے سے ہائوس آف کامن میںہونے والی بحث بہت متاثر کن تھی۔ اس میں دونوں طرف سے بہت اعلیٰ تقاریر سننے کو ملیں ۔ اپوزیشن کے رہنما ایڈ ملی بینڈ کے دلائل خاص طور پر بہت متاثر کن تھے ۔اگرچہ اُنھوںنے گزشتہ سال شام پر بمباری کے مسئلے پر وزیر ِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے بمباری کے حق میں پیش کی جانے والی تحریک کی بھرپور مخالفت کی تھی لیکن اس مرتبہ داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے اُن کی پوری حمایت حکومت کے ساتھ موجود تھی۔ بہت مدلل اور سلجھے ہوئے لہجے میں اُنھوںنے کہا کہ دنیا کو قوانین اور اصولوں کا ساتھ دینا ہے تاکہ بربریت کاخاتمہ ممکن ہوسکے۔ 
اس سے پہلے ڈیوڈ کیمرون نے داعش کی طرف سے عراق ، اس کے قرب وجوار اور باقی دنیا کے لیے پیدا کیے جانے والے مہیب خطرے کا احساس اجاگر کرنے کے لیے ایک قرار داد پیش کی تھی۔ پیش کی جانے والے اس قرارداد میں عمومی طور پراستعمال کیا جانے والا لفظ ''بربریت‘‘تھا۔اس وحشی گروہ کی بربریت کی بہت سی مثالیں دی گئیں۔ جن سیاست دانوں نے اس قرار داد کی مخالفت کی، اُن کو بھی قاتلوں کے اس ٹولے کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں تھی۔براڈ فورڈ ویسٹ(Bradford West)سے تعلق رکھنے والے سیماب صفت طبیعت کے مالک، رکن ِ پارلیمنٹ جارج گیلوے ہمیشہ کی طرح بمباری کے مخالف تھے۔ اُنھوںنے دیگر اراکین ، جنھوںنے 2003ء میں عراق پر حملے کی حمایت کی تھی، پر بھی شدید تنقید کی ۔ مسٹر گیلوے کا کہنا تھا کہ برطانوی سیاست دان خیال کرتے ہیں کہ وہ ممالک، جن کے نظریات کی عملی شکل داعش ہے، اس جنگ کا بوجھ اٹھائیںگے، لیکن وہ ہمیشہ کی طرح غلطی پر ہیں۔ ان کااصرار تھا کہ برطانیہ اور امریکہ کی بجائے علاقائی ممالک کو اس جنگ کا بوجھ اٹھانا ہوگا ۔اُنھوںنے امریکہ کی طرف سے Free Syrian Armyکو تربیت اور ہتھیار فراہم کرنے کے منصوبے کو یہ کہتے ہوئے رد کردیا کہ یہ فوج پہلے ہی لاکھوں ڈالر کیش اورہتھیار حاصل کرچکی ہے، لیکن مسٹر گیلوے کا کہنا تھا کہ یہ ہتھیار اور کیش بالآخر انتہا پسندوں کے ہاتھ ہی لگ رہے ہیں۔ 
بہت سے اراکین نے قرارداد کی حمایت تو یقینی طور پر کی لیکن وہ اس کے مضمرات کے بارے میں پریشانی کا شکار تھے۔ وہ سوال اٹھارہے تھے کہ جب شام میں اس عمل کی مخالفت کی گئی تو عراق پر بمباری کرنے کا کیا مقصد ہے؟اس کے علاوہ اُنھوںنے استفسار کیا کہ جب زمینی دستے عراق میں نہیں اتارے جائیں گے، محض بمباری سے داعش کی کمر کیسے توڑی جاسکتی ہے؟ یہ سوالات تواتر سے پوچھے گئے کہ کیا عرب ممالک کے زمینی دستے کارروائی میں حصہ لیں گے یا نہیں؟کچھ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ حکومت اُن نوجوان برطانوی شہریوں کی وطن واپسی سے پیدا ہونے والے خطرے سے نمٹنے کے لیے کیا کررہی ہے جو داعش کے پرچم تلے شام اور عراق میں لڑنے کے لیے گئے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ اراکین ِ پارلیمنٹ یہ یقین دہانی چاہتے تھے کہ کہیں برطانیہ پھر سے کسی نہ ختم ہونے والی مہم میں تو نہیں الجھ جائے گا۔ تاہم ان خدشات کے دوسری طرف وہ مہیب خطرہ تھا جو داعش کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی صورت میں امڈتا دکھائی دیتا تھا۔ 
بہرحال یہ بحث بہت پرمغز اور بامعانی تھی۔ ا س سے میڈیا اور عوام میں پائی جانے والی غیر یقینی صورت ِحال کی عکاسی ہوتی تھی۔ اگرچہ اس رائے شماری کا نتیجہ معلوم تھا کیونکہ تینوں بڑی جماعتیں اس مسئلے پر حکومت کی حمایت کررہی تھیں، لیکن کچھ اراکین نے اس قرارداد کی مخالفت میںبھی ووٹ دیا۔ اس کا اظہار مسٹر کیمرون اپنی افتتاحی تقریر میں کرچکے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''ہائوس پر ایک مرتبہ پھر 2003ء کے سائے منڈلارہے ہیں۔‘‘برطانوی پارلیمنٹ کے مسلمان ارکان نے آئی ایس آئی ایس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی۔ برمنگھم سے تعلق رکھنے والے لیبر پارٹی رکن خالد محمود نے داعش کو''غیر اسلامی ریاست‘‘ قرار دیا۔ برمنگھم سے ہی تعلق رکھنے والی شبانہ محمود نے اگرچہ خودکوایک سنی مسلمان قرار دیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ داعش کی بربریت کا سنی اسلام یا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ انھوںنے زور دے کر کہا کہ داعش کے 
جنگجووں کو سلاخوںکے پیچھے یا ''زمین میں چھ فٹ نیچے‘‘ ہونا چاہیے۔ مس شبانہ کا موقف تھا کہ ان کے عقیدے کوانتہا پسندوں نے اغوا کرلیا ہے ، تاہم اُن کو خدشہ تھا کہ بمباری کے نتیجے میں بے گناہ شہریوں کی بھی ہلاکت بھی ہوسکتی ہے۔ تاہم اُنھوںنے قرارداد کی حمایت کی۔ ڈیفنس سلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین، رورے سٹیوراٹ(Rory Stewart)نے فرقہ وارانہ تصادم کو اس فساد کی اصل جڑ قرار دیا۔ان کاکہنا تھا کہ جب تک مختلف ممالک کے درمیان پائی جانے والی مسلکی رقابت کو ختم نہیں کیا جاتا ، اس خطے میں تنائو اور خونریز ی پر قابو پانا ممکن نہیں۔عراقی حکومت کی فرقہ واریت پر مبنی حکومت نے سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو مشتعل کررکھا ہے، اس لیے اس کا طرزِ عمل بدلنے کی ضرورت ہے۔ 
اگرچہ برطانیہ سائپرس میں موجود اپنے صرف چھ ٹارناڈو طیارے بمباری کے لیے بھیج رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس چھوٹی سی ملٹری کارروائی پر بھی بہت سے خدشات پائے جاتے ہیں۔ اس پر زور وشور سے کی جانے والی بحث بہرحال جذبات کی بجائے اصولوں پر مبنی تھی۔ برطانوی حکومت نسبتاً محفوظ کارروائی میں اپنے پائلٹوں کو بھیجتے ہوئے بھی ہائوس میں اکثریت کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کوشاں تھی۔ ایسا کرنا اس لیے بھی اہم تھا کیونکہ 2003ء کی عراق مہم کے بعد یہ احساس گہرا ہوگیا تھا کہ ٹونی بلیئر نے ایوان کو بے وقوف بنایا تھا۔ 
جس شائستگی سے یہ بحث کی گئی، اس نے مجھے بہت متاثر کیا۔ مخالفت کرتے ہوئے بھی اراکین ایک دوسرے کو ''رائٹ آنرایبل ممبر‘‘ کہہ کر ان کی بات کا حوالہ دیتے تھے۔برطانوی پارلیمنٹ میں داعش کے خلاف ہونے والی اس کارروائی اور اسلام آباد کے ایوان میں میں طالبان کے خلاف کارروائی پر بحث میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ شائستگی اور دہشت گردی کے خلاف اتفاق ِ رائے کی غیر موجودگی کے علاوہ پرمغز دلائل اور بامعانی نکات بھی اسلام آباد کی فضا میں عنقا دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اراکین صرف پوائنٹ اسکورنگ کرنے کے لیے جذباتی انداز میں بولتے ہیں لیکن ان کی تقریر میں معقولیت اوردلائل کا ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے۔ اس چیخ وپکار کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ایوان میں پھیلی ہوئی کنفیوژن قوم کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ 
ہیرفورڈ(Hereford) سے تعلق رکھنے والے کنزرویٹو رکن ِ پارلیمنٹ جیسی نارمن(Jesse Norman)نے اس عمل سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ 2003ء میںعراق پر حملے کرنے کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ میںکی جانے والی بحث کی کوئی مثال موجود نہیں تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی فوجی ایکشن پر سوال اٹھاناا ور تنقید کرنا پارلیمنٹ کاحق ہے لیکن اس وہ اس کی منظوری کے لیے ووٹنگ کرتی ہے تو وہ اس کا حق کھو دیتی ہے۔ اس کے برعکس امریکی قانون میں صدر کے پاس جنگ شروع کرنے کے لیے بہت کم اختیارات ہیں۔رائے شماری کے بعد جب ووٹ گنے گئے تو نتیجہ 524:43تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ بحث نے بہت سے اراکین کے موقف کو تبدیل کردیا تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں