غلطیوں پر معذرت کافی نہیں!

حال ہی میں پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ناراض کارکنوں سے اپنی پارٹی کی غلطیوں پر معافی مانگتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ ان کی تلافی کریں گے۔ چونکہ غلطیوں اور کوتاہیوں کی فہرست بہت طویل ہی نہیں افسوسناک بھی ہے، اس لیے یہ بات قابل فہم ہے کہ بلاول بھٹو نے تفصیل میں جانے سے کیوں گریز کیا۔ چونکہ میں ایک طویل عرصے سے، جبکہ ابھی بلاول نے اس دنیا میں آنکھ بھی نہیں کھولی تھی، پی پی پی کی حمایت کر رہا ہوں... اور اب اس کی از سر نو بحالی کا شدت سے متمنی ہوں... اس لیے میرا خیال ہے کہ مجھے پارٹی قیادت سے کچھ سوالات پوچھنے کا حق ہے۔ 
جس وقت ملک ایک سنگین سیاسی بحران سے گزر رہا ہے، پی پی پی کوئی کردار ادا کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ جو بھی وجوہ ہوں، یہ ملک گیر جماعت اب صرف ایک صوبائی جماعت بن چکی۔ درحقیقت یہ صوبہ سندھ کے ایک پُرسکون گوشے میں خوش ہے کیونکہ یہاں اس کے ووٹرز اس سے‘ غیر مشروط حمایت کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ نہ کارکردگی کی توقع کرتے ہیں اور نہ ہی اُنہیں کچھ حاصل ہوتا ہے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ''مرسوں، مرسوں، پنجاب نہ ڈیسوں‘‘۔ گویا وہ مر جائیں گے لیکن پنجاب ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ کیا وہ پنجاب کو ہاتھ میں رکھنے کی حکمت عملی کا ہم سے کچھ تبادلۂ خیال کرنا پسند کریں گے ؟ گزشتہ بیس سالوں سے پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے بتدریج تحلیل ہوتے ہوئے اس نہج کو پہنچ چکی ہے کہ ملکی سیاست کے اس اہم ترین صوبے میں بطور ایک سیاسی طاقت بمشکل ہی اپنی موجودگی رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ عمران خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان ہونے والی سیاسی جنگ میں کوئی کردار ادا کرنے کی سکت نہ رکھتے ہوئے محض تماشائی بن کر ایک طرف کھڑی ہے۔ 
پاکستانی سیاست کے انتخابی حقائق یہ ہیں کہ جب تک کوئی جماعت پنجاب میں اپنی طاقتور موجودگی نہیں رکھے گی، وہ اسلام آباد میں اقتدار حاصل کرنے کی امید نہیں رکھ سکتی؛ تاہم پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو اور پھر آصف علی زرداری نے پارٹی کے معاملات کچھ ایسے افراد کے سپر د کر دیے کہ پارٹی ایک ایسے اندھے کنوئیں میں جا گری ہے‘ جس سے باہر نکلنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ 
بلاول بھٹو نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ کشمیر کا ایک ایک انچ واپس لیںگے۔ یہ بیان بذات خود ان کی سیاسی ناپختگی کی دلالت کرتا ہے۔ اگر بلاول حقائق کا سامنا کرنا چاہتے ہیں، جس کی اُنہیں یقینا ضرورت ہے، تو وہ بھارتی میڈیا اور سوشل نیٹ ورک پر اس حوالے سے کیے جانے والے کچھ تبصروں پر نظر ضرور ڈالیں۔ دنیا کے ہمارے حصے میں سیاست دان اکثر بہت سے انقلابی وعدے کر بیٹھتے ہیں... جیسے میاں محمد نواز شریف نے ایک سال کے اندر اندر لوڈ شیڈنگ ختم کرنا کا وعدہ کیا تھا یا جس طرح عمران ہر پاکستانی کو ملازمت دینے اور ڈاکٹر طاہرالقادری راتوں رات غربت ختم کرنے کے وعدے کرکے عوام کو چکر دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے پاکستانی رائے دہندگان ایسے وعدوں کے فریب میں آجاتے ہیں۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے تو میرا نہیں خیال کہ اندرون سندھ یا پنجاب کے دیہی علاقوںکے لوگ دم سادھے اُس خطے کو پاکستان کے ساتھ ملانے کے لیے دعائیں کر رہے ہیں‘ جس کے بارے میں وہ زیادہ نہیں جانتے۔ بلاول بھٹو زرداری کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کشمیر کے باشندے اصل میں چاہتے کیا ہیں۔ گزشتہ ایک یا دو عشروں سے زیادہ تر کشمیری قوم پرست رہنما آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ 
میں اس بدعنوانی کو زیر بحث نہیں لانا چاہتا تھا‘ جس کے الزامات ہر مرتبہ پی پی پی کے دامن گیر ہو جاتے ہیں‘ جب بھی اسے اقتدار سنبھالنے کا موقع ملتا ہے؛ تاہم بدعنوانی، جو اکثر اوقات الزامات تک ہی محدود نہیں رہتی، کے باوجود کبھی پارٹی کے کسی اہم رہنما کے خلاف تادیبی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کی بجائے پی پی پی میں کارفرما اصول یہی دکھائی دیا کہ جو جتنا بڑا بدعنوان ہو، اُسے اتنا ہی بڑا عہدہ عطا کیا جائے۔ اس ضمن میں پی پی پی کے گزشتہ دور کے وزیر اعظم کی روشن مثال سامنے ہے۔ 
اب جبکہ پی پی پی قومی سیاسی منظر سے ہٹ کر صرف سندھ کی حدود تک سمٹ چکی تو یہ میڈیا کی نگاہوںسے قدرے اوجھل ہو کر ریئل اسٹیٹ اور دیگر دھندوں سے دام کھرے کرنے میں مصروف ہے۔ یہ درست ہے کہ دیگر جماعتیں بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں لیکن کم از کم وہ کچھ کارکردگی تو دکھاتی ہیں۔ سیاسی تنقید اپنی جگہ لیکن شہباز شریف کی قیادت میں پنجاب تعلیم کے شعبے پر توجہ دے رہا ہے جبکہ ایم کیو ایم کی کراچی کی شہری حکومت نے فقیدالمثال ترقیاتی کام کرایا تھا۔ دوسری طرف پی پی پی کو ایک ایسی پارٹی سمجھا جاتا ہے‘ جو فطری طور پر کچھ اچھا کام کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی۔ اس کے رہنما بھی اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اپنے دور میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے مرکز سے اختیارات کی صوبوں کو منتقلی تھی، لیکن اب اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے یہ احساس کارفرما تھا کہ بہت جلد اس کے ہاتھ سے مرکز نکل جائے گا اور یہ صوبہ سندھ تک محدود ہو جائے گی۔ 
بہرحال انصاف کا دامن تھامتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کو اس بات کر کریڈٹ دینا چاہیے کہ جس دوران وزیر اعظم نواز شریف طالبان سے بات چیت کرنے کے لیے منت سماجت کر رہے تھے، بلاول حوصلے سے بات کرتے رہے۔ اُنہوں نے کھلے الفاظ میں طالبان کے خلاف فوجی ایکشن کی حمایت کرتے ہوئے پاکستانیوں کی خاموش اکثریت کے جذبات کی ترجمانی کی۔ غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ ان کی جماعت اپنے کارکنوں کی طرف سے ہونے والی تنقید کا خیر مقدم کرتی ہے۔ واقعی؟ بتانا پسند کریںگے کہ کب سے؟ بھٹوز کی سیاست کا طرہ امتیاز یہی رہا ہے کہ وہ اختلاف رائے یا مخالفت برداشت نہیں کرتے۔ پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو فرد واحد کے طور پر فیصلے کرتے اور منواتے تھے۔ اگرچہ بے نظیر بھٹو نرم انسانی جذبات کی مالک تھیں لیکن پارٹی کے سینئر رہنما بھی ان کی کسی بات کی مخالفت کرنے یا مختلف رائے دینے سے گھبراتے تھے۔ آصف علی زرداری کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ان پارٹی رہنمائوں کے خلاف جذبات رکھتے ہیں‘ جو ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتے۔ 
غلطیوں کا اعتراف اپنی جگہ لیکن پارٹی قیادت کی طرف سے ان کے بے لاگ تجزیے اور داخلی محاسبے کا عمل دکھائی نہیں دیتا۔ نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ شہری علاقوںسے تعلق رکھنے والے نوجوان ووٹروں نے اس پر اعتماد کیوں نہ کیا۔ درحقیقت پی پی پی نے تبدیل ہوتی ہوئی سیاسی حرکیات کو نظر انداز کرتے ہوئے ماضی سے جڑے رہنے کی پالیسی اپنائے رکھی اور بھول گئی کہ اب تعلیم یافتہ لوگوںکو گھسے پٹے نعروں سے مرعوب کرنا مشکل ہے۔ جب تک محاسبے کے عمل سے گزر کر کھوئے ہوئے اعتماد کو حاصل نہیں کیا جاتا، بلاول بھٹو زرداری کو چاہیے کہ وہ ملک گیر نعرے لگانے کی بجائے خود کو اس محدود سی صورت حال سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں