معاشرے کی ایک علامت

جب بھی میں کراچی میں اپنے عزیزو اقارب کی قبرو ں پر جاتا ہوں توبہت سے دیگر افراد کی، جووہاں مدفون ہوتے ہیں، قبریں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ قبریں بے ترتیب بنائی گئی ہوتی ہیں۔ اپنے قبرستانوںمیںسے گزرتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے زندہ معاشرے میںسے گزررہے ہوں۔ ایک حوالے سے معاشرے کی صورت ِحال بھی کسی قبرستان کی عکاسی کرتی ہے۔۔۔ گنجان آباد، افراتفری‘ بدنظمی کا شکار اور نظرانداز کردہ۔دوسری طرف فوجی قبرستان بہت صاف ستھرے اور پرسکون ہوتے ہیں۔ وہاں قبروں اور ان کے درمیان راستوں کا خیال رکھا جاتا ہے اور باقاعدگی سے صفائی کی جاتی ہے۔ اس سے بھی ہمارے معاشرے کی ایک حقیقت عیاں ہوتی ہے۔ فوجی قبرستان سویلین قبرستانوںسے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ یہ فرق ہر شعبے میں موجود ہے۔ 
سچی بات یہ ہے کہ تمام شہروں کے قبرستان بہت دیر سے مکمل طور پر بھر چکے ہیں اور کسی کو بھی اپنے فوت شدہ عزیز کی تدفین کے لیے رشوت دے کر جگہ حاصل کرناپڑتی ہے۔ قبرستان میں تدفین کا کام کرنے والے جانتے ہیںکہ کس فوت شدہ شخص کی اولاد وہاں کبھی نہیں آئی اور وہ اس مرحوم کی باقیات
کو مٹی سے نکال باہر پھینکتے ہیں اور کسی نئے فوت ہونے والے شخص کے لیے رشوت کے عوض جگہ بنادیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ مجھے اور کوئی جگہ نظر نہیں آتی کہ نئی قبر کے لیے جگہ کہاں اور کیسے بنے گی؟بدعنوانی کے سہارے جینا اور اسی کے سہارے مرنا اور دفن ہونا۔ کیا کہنے ہمارے اعلیٰ سماج کے!
مسلمانوں کے قبرستانوں میں صورت ِحال خراب ہے لیکن عیسائیوں کے قبرستانوں کا حال قدرے بہتر ہوتا ہے۔ اگر آپ کراچی کے گورا قبرستان میں جائیں تو آپ کو ہر طرف ہریالی اورصاف ستھرے راستے دکھائی دیںگے۔ قبروں کی بہت اچھے طریقے سے دیکھ بھال کی گئی ہوگی؛ تاہم آج کل یہ جگہ بھی قبضہ گروپ کی نظروں میں ہے۔ اس قبرستان کے علاوہ یہ اقلیت اپنے مرحومین کی کہیں اور تدفین نہیں کر سکتی۔ واشنگٹن پوسٹ نے حال ہی میں ایک طویل کہانی شائع کی کہ کس طرح پنجاب کے ایک چھوٹے سے گائوں میں مقیم اقلیتی آبادی کو تدفین کرنے کے لیے مسائل کا سامنا ہے۔ اس گائوں کا نام تورے والا 
(Torey Wala) ہے اور یہاں ایک سو پچاس کے قریب اقلیتی خاندان آباد ہیں۔ ان کے پاس کئی نسلوںسے تدفین کے لیے اڑھائی ایکٹر زمین ہے۔واشنگٹن پوسٹ نے ایک اقلیتی فرد کے حوالے سے بتایا۔۔۔''ہم ہر قبر کو تین یا چار بار آباد کرچکے ہیں۔ بعض اوقات قبر کھودنے پر ہڈیاں ملتی ہیں تو پھر کہیں اور کھدائی کرنا پڑتی ہے۔‘‘ ایک رحمدل مسلمان نے پیش کش کی کہ وہ تدفین کے لیے ایک اور قطعہ زمین اُس سے لے لیں اور جب اقلیتی کمیونٹی نے اُس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اُسے ہموار کرنا شروع کیا تو قرب وجوار کے مشتعل افراد نے ان پر چڑھائی کردی۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ اُس جگہ ان کے مرحومین کی بھی پرانی قبریں تھیں۔ زمین کے مالک نے یقین دلایا کہ اس جگہ پر کبھی کسی شخص کو دفن نہیںکیا گیا لیکن اس کی تصدیق بھی اقلیتی افراد کو نہ بچا سکی اور اُنہیں جیل میں بند کردیا گیا۔ اگرچہ اب اُنہیں رہائی مل چکی ہے لیکن اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ اُنہیں آئندہ کبھی تدفین کے لیے نئی جگہ ملے گی۔
شہروں میں اقلیتی کمیونٹی کو قبضہ گروپ سے خطرہ رہتا ہے جو ان کے قبرستانوں پر قبضہ کرنے کے درپے رہتا ہے۔ لاہو ر کے نزدیک ایک علاقے میں اقلیتی کمیونٹی کا ایک قبرستان ہے جہاں وہ دویا تین صدیوںسے اپنے مرحومین کی تدفین کررہے تھے۔ چھ سال پہلے ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ یہ زمین اُس کی ملکیت ہے ۔ اُس نے بنی ہوئی تمام قبریں مسمار کرنے کی دھمکی دی۔ اگرچہ مقامی اقلیتی کمیونٹی نے عدالت سے رجوع کرتے ہوئے اس مذموم حرکت کو روک لیا لیکن کچھ زمین پر قبضہ کرلیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اقلیتوں سے امتیازی سلوک صرف زندگی تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ مرنے کے بعد بھی اس کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ قبرستان کو بھی استثنا حاصل نہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے میں اکثر سوچتا ہوںکہ چند برسوں بعد ہم مرحومین کو کہاں جگہ دیںگے؟ واشنگٹن پوسٹ نے اپنے مضمون میں پاکستان میں اقلیتی کمیونٹی کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو بیان کیا ہے۔ 
یہ ساری صورت ِحال ہمارے لیے نئی نہیں ہے۔ درحقیقت ہمار ے ہاںسے ایسی سینکڑوں کہانیاں تلاش کی جاسکتی ہیں کہ کس طرح افراد اور گروہوںکی طرف سے غیر مسلم افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ریاست نے ان کی داد رسی نہ کی اور نہ ہی ان واقعات سے معاشرے کے ضمیر پر کوئی چرکا لگا۔ یہ موضوع ٹی وی پر بحث کے لیے بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا؛ تاہم اقلیتوں کو نشانہ بنانے میں پاکستان اکیلا نہیں ہے بلکہ مصر میں قبطی عیسائیوں کو جبر کاسامنا ہے۔ عراق سے بھی ہزاروں عیسائی باشندوں کو گھربار چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبو رکیا گیا۔ داعش کے جنگجو یزدی افراد کو چن چن کر قتل کررہے ہیں۔ 
ذرا مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف ایسے ہی جرائم کا تصور کریں ! ایک معمولی سے واقعے کو بنیاد بنا کر پورا عالم اسلام غصے سے کھول اٹھتا ہے۔ میں یہ سوچنے کی بمشکل ہی جرأت کرپاتا ہوں کہ اگر کسی مغربی ملک میں کسی مسلمان کی قبر کو ذراسا گزند پہنچے توکیا ہو؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں